پاکستان اور ترقی

گزشتہ سال 2.1 ارب ڈالر کا برآمدی ٹارگٹ اور ٨۔٢ فیصد شرح نمو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان معاشی طور پر ایشیا کی بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے اور دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں دسویں نمبر پر ہے ۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ میں تین گنا اضافہ ہوا ہے جو کہ سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ ملک میں الیکٹرونک بینکنگ میں مزید تیزی آگئی ہے اور دسمبر ٢٠٠٥ء تک بینکوں کی آن لائن برانچوں کی تعداد ٣ ہزار ٢٦٥ ہوگئی ہے جبکہ ملک میں تمام بینکوں کی مجموعی شاخوں کی تعداد ٧ ہزار ٢٤٥ ہے اس طرح ملک کی ٤٨ فیصد شاخیں آن لائن ہو گئی ہیں اس طرح ملک بھر کے بینکوں میں اے ٹی ایم کی تعداد بھی ایک ہزار ٣٢٧ ہو گئی ہے جبکہ اے ٹی ایم کارڈ ہولڈرز کی تعداد بھی ٣٦ لاکھ ٦٤ ہزار سے بڑھ کر ٤٠ لاکھ ٧٢ ہزار ہوگئی ہے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد شمار کے مطابق ملک میں کریڈٹ کارڈز کی تعداد ١٢ لاکھ ٥٧ ہزار سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔
کراچی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری ٣٣ کھرب ٨٥ ارب سے تجاوز کر گئی ہے اور کے ایس ای ١٠٠ انڈیکس ١١٩٠٠ کی ریکارڈ سطح بھی عبور کرگیا ۔ تفصیلات کے مطابق عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ، تیل و گیس کے ذخائر کی برآمدگی ، بینکوں کے سہ ماہی منافع میں بہتری کی توقع سے انڈکس اس سطح پر آگیا ہے۔
پی ٹی سی ایل کی فروخت اور یورو بانڈز کی فروخت سے زر مبادلہ کے ذخائر میں ایک دم ایک ارب ١٧ کروڑ ٦٨ لاکھ امریکی ڈالرز کا اضافہ ہو گیا ہے جس سے مجموعی طور ہر زرمبادلہ کے ذخائر ١٢ ارب ٤٨ لاکھ امریکی ڈالرز مالیت کے ہو گئے ۔
مرسیڈیز اور بی ایم ڈبلیو کے بعد اب روز رائس کے پلانٹ کے لیے حکومت نے جگہ دی ہے، گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی مانگ اب تک پوری نہیں ہوسکی ہے اور کہا جارہا ہے کہ سالانہ پانچ لاکھ سے زیادہ گاڑیوں کی پیداوار سے طلب اور رسد میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔
پچھلے اقتصادی سال سے اب تک جس کا عرصہ آٹھ ماہ بنتا ہے براہ راست بیرونی سرمایہ کاری ١۔٥ ارب ڈالر بنتی ہے جو پچھلے سال کی مجموعی بیرونی سرمایہ کاری سے بھی زیادہ ہے۔
 

دوست

محفلین
بینکنگ کی ترقی اچھی بات ہے۔ مگر کریڈٹ کارڈر کا مطلب ہے صارف کلچر کا فروغ۔ گدھوں کی طرح کام کرو اور جو کماؤ قرضے اتارنے میں وار دو۔
زرمبادلہ کے ذخائر حکمرانوں کو ہی فائدہ دے سکتے ہیں ہمیں تو اتنا پتا پے بجلی اور گیس کی قیمتیں ایک بار پھر بڑھانے پر غور ہورہا ہے۔
مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو کے بجائے اگر صارفی مصنوعات پر توجہ دی جاتی تو مناسب تھا۔ آخر کتنے لوگ ہیں یہ کاریں خریدنے والے۔خود تو چائنہ سے موٹر سائیکل سے لے کار کاریں تک درآمد کررہے ہیں اور دوسروں کو سامان تعیّش برآمد کریں گے۔اگر ہمارے وڈیروں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں بچ گیا۔
 
Top