پاکستانی ٹیم کی’حمایت‘ پر کشمیری طلبا معطل

جناب سید عاطف علی ،الف نظامیاور محمد اسامہ سَرسَری بھائی جان مجھے یہ بتائیے کہ اسلام میں سرحد کا کیا تصور ہے؟
" حب الوطن نصف الايمان " کیا یہ حدیث ہے ؟ اگر حدیث ہے تو کس درجہ کی ؟
میری رائے میں اسلام میں سرحد کا کوئی تصور نہیں۔ پاکستان کے مسلمانوں کے لئے بھارت میں بسنے والے مسلمان اور بھارت میں بسنے والوں کے لئے پاکستان میں بسنے والے مسلمان اتنے ہی قابل احترام ہونے چاہئیں جتنے انکے اپنے وطن میں۔
حب الوطنی ایک مسلمان کا شیوہ ہونا چاہئے۔ بھارت میں بسنے والے مسلمان اچھے مسلمان کہلائنگے جب وہ اپنے وطن سے محبت کریں۔ اپنے وطن سے محبت کرنا ایک فطری بات ہے اور اسلام دین فطرت ہے۔ نبی کریم ﷺ کو مکہ معظمہ سے محبت تھی وطن ہونے کی وجہ سے (دوسری وجوہات بھی ہونگی)۔
لیکن ہمیں حب الوطنی اور تعصب میں فرق کرنا ہوگا۔ حب الوطنی یا کسی بھی اور محبت کو تعصب کی شکل اختیار نہیں کرنا چاہئے۔
میں نے تو پاکستان میں اپنے اردگرد بلکہ بہت سے بھارتی مسلمانوں کو بھی دنیا بھر کے کسی بھی خطے میں ہونے والے مسلمانوں پر ظلم پر افسردہ دیکھا ہے۔
 
کرکٹ میچ میں پاکستان کی حمایت کرنے والے طلباء کے حق میں سینکڑوں افراد نے بھارتی زیر کنٹرول کشمیر میں احتجاج کیا ہے۔ دوسری جانب بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اُس کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
جمعے کے روز بھارتی پولیس نے کشمیری طالب علموں کے حق میں نکالی جانے والی احتجاجی ریلی میں شریک جموں و کشمیر کی آزادی کے حامی درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے لیڈر یاسین ملک بھی شامل ہیں۔ ان گرفتاریوں کا مقصد مظاہرین کو سرینگر شہر کے مرکز تک پہنچنے سے روکنا تھا۔ پولیس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق چار مقامات پر پولیس کی مظاہرین کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں لیکن ان میں کوئی بھی شخص زخمی نہیں ہوا۔
اس کے علاوہ کشمیر یونیورسٹی میں بھی احتجاجی مظاہرہ ہوا، جس میں شامل اسٹوڈنٹس نے، ’واپس چلے جاؤ انڈیا‘ والے بینرز اٹھا رکھے تھے۔ ریاست اتر پردیش کے شہر میرٹھ کی سوامی وویک آنند سبھارتی یونیورسٹی کے 66 اسٹوڈنٹس کو گزشتہ اتوار کو ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں بھارت اور پاکستان کے میچ کے بعد مبینہ طور پر پاکستان کی جیت کا جشن منانے کے الزام میں معطل کر دیا گیا تھا۔ ان طالب علموں کے خلاف یونیورسٹی انتظامیہ کی کارروائی کے بعد ریاستی پولیس نے بغاوت کا مقدمہ چلانے کا عندیہ دیا تھا تاہم بعدازاں یہ الزامات واپس لے لیے گئے تھے۔ میرٹھ کا علاقہ بھارتی زیر کنٹرول کشمیر سے تقریباﹰ 900 کلومیٹر دور واقع ہے۔
جمعے کے روز احتجاج کرنے والے مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ کشمیری طلباء پر بغاوت کے علاوہ لگائے جانے والے دیگر الزامات بھی واپس لیے جائیں۔ ان طالب علموں پر مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے اور یونیورسٹی کی املاک کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ ملک یاسین کا نیوز ایجنسی اے پی اور دیگر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’بھارتی حکومت اور سول سوسائٹی نے گزشتہ 66 برسوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ تشدد، کشمیریوں کے قتل اور کشمیری طالب علموں کا مستقبل خراب کرتے ہوئے وہ ہمارے آزادی کے لیے جذبات کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔‘‘
 
نئی دہلی (کے پی آئی) پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت پر خوشی کا اظہار کرنے کی پاداش میں بھارتی یونیورسٹی سے 67کشمیری طلبہ کی معطلی کے خلاف اظہار ناراضگی کرنے کیلئے پاکستان ہیکرز نامی ایک نامعلوم ادارے نے مذکورہ یونیورسٹی کی ویب سائٹ کو ہیک کر لیا ہے۔ ویب سائٹ پر ہیکروں نے پاکستانی پرچم لہرائے ہیں اور ساتھ ہی طلبہ کی معطلی کی خبریں بھی مشتہر کی ہیں ۔ ویب سائٹ پر پاکستان ہیکرز کریو نامی گروپ کی طرف سے مشتہر پیغام میں کہا گیا کہ ’’ ہم سوئے ضرور ہیں تاہم ہم مردہ نہیں ‘‘ ساتھ ہی کشمیر کی آزادی کے حوالے سے بھی نعرے درج کئے گئے ہیں۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/front-page/08-Mar-2014/286927
 
دلچسپ بات یہ ہے مسلمانوں پر پاکستان حامی ہونے کا الزام تو لگتا رہا ہے لیکن انہیں کبھی بنگلہ دیش حامی یا سعودی نواز نہیں کہا جاتا۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ پاکستان بھارت کی قوم پرستی کا محور ہے۔ اگر پاکستان نہ ہو تو بہت سے لوگ یہ نہیں سمجھ پائیں گے کہ حب الوطنی کا اظہار کیسے ہو۔
واقعے کے بعد ساٹھ سے زیادہ طلبہ یونیورسٹی سے واپس کشمیر بھیج دیے گئے ہیں
جہاں تک کشمیر کا سوال ہے وہاں آزادی کے وقت سے ہی تین طرح کے خیالات متوازی لائنوں پر چلتے رہے ہیں۔
پہلی سوچ کی نمائندگی وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں ہند نواز کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کشمیر کو ابتدا سے ہی بھارت کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں۔دوسرے زمرے میں وہ لوگ ہیں جو کشمیر کو ایک آزاد مملکت بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور تیسرے زمرے میں وہ ہیں جو کشمیر کا پاکستان سے انضمام چاہتے ہیں۔
کشمیریوں کی ایک خاصی تعداد سیاسی وجوہ سے پاکستانی کھلاڑیوں کی حمایت کرتی رہی ہے اور اگر ان سبھی پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے تو شاید یہ ایک سیاسی بحران بن جائے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیریوں کی ایک خاصی تعداد پاکستان حامی ہے لیکن ان پر غداری کا مقدمہ چلانا اور طلبہ کو معطل کرنا حقیقت سے انکار کرنے کے مترادف ہے کیونکہ جارحانہ قوم پرستی کسی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتی۔
 

عبدالحسیب

محفلین
حسیب بھائی میں خود اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہوں ۔مسلمان پاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں تو کیوں ؟ اس کی کیا وجہ ہے ؟ میں نے اس کے اوپر غور کیا تو یہی بات سمجھ میں آئی کہ قومیت کہ تئیں کسی ملک کے عوام کو مطمئن کرنا (یہاں پر میں نے عوام کا لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے) اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے ۔

اگر مسلمان پاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں حالانکہ مجھے اس بات پر بھی اعتراض ہے اس لئے کہ اسلام میں سرحد کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ اس پر علماء نے کافی بحث بھی کی ہے ۔اسلام سرے سے ہر قسم کی عصبیت پر قدغن لگا دیتا ہے ۔لیکن پھر بھی اگر وہ پاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں تو اس کی وجہ مجھے یہی سمجھ میں آتی ہے کہ یہ اسٹیٹ کی ناکامی ہے ۔مسلمانوں کو لگتا ہے کہ ہندوستان میں ان کے ساتھ ظلم و تشدد کا رویہ اپنایا جا رہا ہے ۔انھیں انصاف نہیں مل رہا ہے ۔ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا جسے شاید ہی کوئی انصاف پسند جھٹلا سکتا ہے ۔

ایسی صورت میں فطری طور پر انسان جھلاہٹ اور بے بسی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اور اس صورتحال میں میں ماہرین نفسیات کے مطابق وہ کوئی انتہائی قدم بھی اٹھا سکتا ہے لیکن یہاں پر یہ داد دینا پڑے گا کہ اب تک مسلمانوں نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے لیکن نا انصافی اور حق تلفی کا لاوا ان کے اندرمستقل پک رہا ہے ۔اور یہ اسی کا نتیجہ ہے ۔اسے آپ احتجاج کی ایک شکل بھی کہہ سکتے ہیں ۔

اسکی اور بھی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ کچھ لوگ مسلمانوں میں جہالت کو بھی اس کی وجہ مانتے ہیں ۔ تو کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے افراد شاذ ہیں جوپاکستان کو کرکٹ میں سپورٹ کرتے ہیں ۔بات تو کچھ ہوگی ؟ وجہ تو کچھ ہے ۔ مجھے بھی جواب کی تلاش ہے ؟ ۔

اچھا یہ بات بھی تو اپنی جگہ درست ہے کہ سارے مسلمان پاکستان کو سپورٹ نہیں کرتے ایسی بڑی تعداد ہے جو ہندوستان کو ہی سپورٹ کرتی ہے۔اس بارے معترضین کچھ کیوں نہیں بولتے۔پھر ایسے بہت سارے غیر مسلم بھی تو ہیں جو پاکستان کو پسند کرتے ہیں ان کو غدار کیوں نہیں کہا جا تا؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بہت سارے تمل سری لنکن تمل سے ہمدردی رکھتے ہیں یا ان کی حمایت کرتے ہیں تو اس پر معترضین اپنی زبان کیوں بند کر لیتے ہیں ؟

مجھے کھیلوں سے کبھی دلچسپی نہیں رہی ہے مجھے یاد بھی نہیں میں نے کب کون سا کھیل کھیلا ۔لیکن یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کیا جانا چاہئے ۔اگر کچھ مزید مواد اکٹھا ہو جائے تو میں باضابطہ ایک مضمون لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں اس موضوع پر ۔ اسٹیٹ کی ناکامی والی بات ہسٹری کے معروف پروفیسر مکمل کیسونت نے بھی کہی ہے ۔آپ کے تفصیلی رائے کا انتظار رہے گا۔

میری ناقص رائے میں تو یہ موضوع ، بظاہر جتنا پیچیدہ نظر آتا ہے، حقیقت میں اتنا ہی سیدھا اور صاف ہے۔ ہم نے تو دونوں فریقین کو حق سے دور پایا۔ جہاں ایک غیر مسلم اکثریت 'کرکٹ کے کھیل ' کو 'حب الوطنی' کا پیمانہ سمجھتی ہے وہیں مسلمانوں کی ایک اکثریت بھی اسی کھیل سے اپنے قوم پرست ہونے کا ثبوت پیش کرنا چاہتی ہے۔ بھئی کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں اسے کیوں 'وطنیت' اور 'قومیت' کے معرکہ میں شہید کرنے پر تُلے ہیں؟ جو ٹیم بہتر کھیلے گی وہی جیت کی حقدار ہوگی، اسی کی تعریف کی جائے گی۔ جس کھلاڑی کی کارکردگی بہتر ہوگی ، وہی مبارک باد کا مستحق ہوگا۔ پھر چاہے وہ تندولکر ہو آفریدی ہو ، گلکرسٹ یا کوئی اور۔

آپ کے مضمون کے لیے یہ عرض کروں گا کہ ڈاکٹر عمر خالدی صاحب کا مضمون'Why India Is Not A Secular State' اور اسی مضمون کی تردید میں لکھا گیا مہیب احمد صاحب کا مضمون 'India, Secularism, Whatever' ضرور پڑھیں ۔ یہاں آپ کو کافی مواد مل جائے گا اس موضوع پر۔
 

شانزہ خوشی

محفلین
میری رائے میں اسلام میں سرحد کا کوئی تصور نہیں۔ پاکستان کے مسلمانوں کے لئے بھارت میں بسنے والے مسلمان اور بھارت میں بسنے والوں کے لئے پاکستان میں بسنے والے مسلمان اتنے ہی قابل احترام ہونے چاہئیں جتنے انکے اپنے وطن میں۔
حب الوطنی ایک مسلمان کا شیوہ ہونا چاہئے۔ بھارت میں بسنے والے مسلمان اچھے مسلمان کہلائنگے جب وہ اپنے وطن سے محبت کریں۔ اپنے وطن سے محبت کرنا ایک فطری بات ہے اور اسلام دین فطرت ہے۔ نبی کریم ﷺ کو مکہ معظمہ سے محبت تھی وطن ہونے کی وجہ سے (دوسری وجوہات بھی ہونگی)۔
لیکن ہمیں حب الوطنی اور تعصب میں فرق کرنا ہوگا۔ حب الوطنی یا کسی بھی اور محبت کو تعصب کی شکل اختیار نہیں کرنا چاہئے۔
میں نے تو پاکستان میں اپنے اردگرد بلکہ بہت سے بھارتی مسلمانوں کو بھی دنیا بھر کے کسی بھی خطے میں ہونے والے مسلمانوں پر ظلم پر افسردہ دیکھا ہے۔
رنگ، نسل، زبان، ثقافتی روایات اور ملک کی بنیاد پر ایک قوم ہونے کا احساس انسانی فطرت میں اوديت ہے۔ تمام انسان ایک ہی آدم کی اولاد ہیں، لیکن اپنے رشتہ داروں جو قربت محسوس ہوتی ہے، وہ دوسرے انسانوں سے محسوس نہیں ہوتی۔ یہی بات قوم ہے۔ انسان جس طرح اپنی شخصیت، خاندان اور اعزہ اور بھائی کے حوالے سے اپنی انفرادیت کا اظہار کرتا اور دوسروں سے آگے رہنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ اپنے اندر محسوس کرتا ہے، اسی طرح لوگوں کے بارے میں بھی لگتا ہے۔ شناخت یہی احساس ہے جو لوگ مل کر مشترکہ براہ مہربانی بناتے اور زندگی کے معاملات میں ایک مددگار بنتے ہیں۔ قرآن اس تعارف لفظ سے بتایا اور کہا کہ شاوب اور قبائل اسی کے پیش نظر وجود میں آئے ہیں۔
اسلام فطرت۔ اس کے پاس جو کچھ قابل اعتراض ہے، وہ قومیت کی بنیاد پر باطل ہے، دوسرے ممالک سے نفرت کو کم سمجھ کر ڈوب کرنے، ان کے حقوق چھین کرنے، ان کے اور اپنے درمیان اونچ نیچ اور شریف اور کمینے امتیاز قائم، انہیں بے عزت اور نظرانداز سمجھنے اور ان کا استحصال کرنے کے دايات ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان میں سے ہر چیز وہ بہت نفرت کی نگاہ سے دیکھتا اور انسانیت کے خلاف سب سے زیادہ جرم قرار دیتا ہے، لیکن قومیت کی ممانعت نہیں کرتا، بلکہ یہ تمام بنیاد کو قبول کرتا ہے جو علم سیاست میں عام طور پر اس کے لئے بیان کر رہے ہیں۔ قوموں کے درمیان مقابلہ کی روح اور زندگی کے مختلف علاقوں میں اس کے شےسته اظہار پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مسلمانوں کے مختلف گروہ اگر اپنے لوگوں کے حوالے سے اپنا تعارف کرائیں، حقوق کا مطالبہ کریں یا کوئی الگ قومی ریاست قائم کرنا چاہیں تو اسے بھی وہ غیر قانونی نہیں کہتا۔ اس لئے یہ نقطہ نظر کہ اسلام میں قومیت کی بنیاد بھی اسلام ہی ہے، کسی طرح درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ قرآن کسی جگہ یہ نہیں کہا کہ مسلمان ایک قوم ہیں یا انہیں ایک قوم ہونا چاہئے۔ مسلمانوں کے اندر اقوام اور ملل کا اوجودوه قبول کرتا ہے۔ اس نے جو بات کہی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، "انما المومنون اخوہ۔
قرآن رو سے مسلمانوں کا باہمی رشتہ قومیت کا نہیں، بلکہ بھائی چارہ ہے۔ وہ دسیوں ریاستوں اور بیسیوں ممالک میں تقسیم ہونے کے باوجود یقین کے تعلق سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اس لئے یہ توقع تو کیا جا سکتا ہے اور کرنا چاہئے کہ اپنے بھائیوں کے حالات کی خبر رکھیں، ان کی مشکلات اور تکلیفوں میں ان کے کام آئیں، وہ دین تو ان کی مدد، اقتصادی اور سماجی رابطے کے لئے انہیں ترجیح دیں اور انہیں اپنے دروازے کسی حال میں بند نہ کریں، لیکن یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ قومی ریاستوں اور قومی شناخت سے واپس ہوکر ضرور ایک ملک اور ایک ریاست بن جائیں، وہ جس طرح اپنی الگ قومی ریاست قائم کر سکتے ہیں، اسی طرح مذہب اور شریعت پر عمل کی آزادی ہو تو غیر مسلم اکثریت والے ریاستوں میں شہری کی حیثیت اور ملک کی بنیاد پر ایک قوم بن بھی رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ قرآن اور سنت کی رو سے غیر قانونی نہیں ہے۔
 
رنگ، نسل، زبان، ثقافتی روایات اور ملک کی بنیاد پر ایک قوم ہونے کا احساس انسانی فطرت میں اوديت ہے۔ تمام انسان ایک ہی آدم کی اولاد ہیں، لیکن اپنے رشتہ داروں جو قربت محسوس ہوتی ہے، وہ دوسرے انسانوں سے محسوس نہیں ہوتی۔ یہی بات قوم ہے۔ انسان جس طرح اپنی شخصیت، خاندان اور اعزہ اور بھائی کے حوالے سے اپنی انفرادیت کا اظہار کرتا اور دوسروں سے آگے رہنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ اپنے اندر محسوس کرتا ہے، اسی طرح لوگوں کے بارے میں بھی لگتا ہے۔ شناخت یہی احساس ہے جو لوگ مل کر مشترکہ براہ مہربانی بناتے اور زندگی کے معاملات میں ایک مددگار بنتے ہیں۔ قرآن اس تعارف لفظ سے بتایا اور کہا کہ شاوب اور قبائل اسی کے پیش نظر وجود میں آئے ہیں۔
اسلام فطرت۔ اس کے پاس جو کچھ قابل اعتراض ہے، وہ قومیت کی بنیاد پر باطل ہے، دوسرے ممالک سے نفرت کو کم سمجھ کر ڈوب کرنے، ان کے حقوق چھین کرنے، ان کے اور اپنے درمیان اونچ نیچ اور شریف اور کمینے امتیاز قائم، انہیں بے عزت اور نظرانداز سمجھنے اور ان کا استحصال کرنے کے دايات ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان میں سے ہر چیز وہ بہت نفرت کی نگاہ سے دیکھتا اور انسانیت کے خلاف سب سے زیادہ جرم قرار دیتا ہے، لیکن قومیت کی ممانعت نہیں کرتا، بلکہ یہ تمام بنیاد کو قبول کرتا ہے جو علم سیاست میں عام طور پر اس کے لئے بیان کر رہے ہیں۔ قوموں کے درمیان مقابلہ کی روح اور زندگی کے مختلف علاقوں میں اس کے شےسته اظہار پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مسلمانوں کے مختلف گروہ اگر اپنے لوگوں کے حوالے سے اپنا تعارف کرائیں، حقوق کا مطالبہ کریں یا کوئی الگ قومی ریاست قائم کرنا چاہیں تو اسے بھی وہ غیر قانونی نہیں کہتا۔ اس لئے یہ نقطہ نظر کہ اسلام میں قومیت کی بنیاد بھی اسلام ہی ہے، کسی طرح درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ قرآن کسی جگہ یہ نہیں کہا کہ مسلمان ایک قوم ہیں یا انہیں ایک قوم ہونا چاہئے۔ مسلمانوں کے اندر اقوام اور ملل کا اوجودوه قبول کرتا ہے۔ اس نے جو بات کہی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، "انما المومنون اخوہ۔
قرآن رو سے مسلمانوں کا باہمی رشتہ قومیت کا نہیں، بلکہ بھائی چارہ ہے۔ وہ دسیوں ریاستوں اور بیسیوں ممالک میں تقسیم ہونے کے باوجود یقین کے تعلق سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اس لئے یہ توقع تو کیا جا سکتا ہے اور کرنا چاہئے کہ اپنے بھائیوں کے حالات کی خبر رکھیں، ان کی مشکلات اور تکلیفوں میں ان کے کام آئیں، وہ دین تو ان کی مدد، اقتصادی اور سماجی رابطے کے لئے انہیں ترجیح دیں اور انہیں اپنے دروازے کسی حال میں بند نہ کریں، لیکن یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ قومی ریاستوں اور قومی شناخت سے واپس ہوکر ضرور ایک ملک اور ایک ریاست بن جائیں، وہ جس طرح اپنی الگ قومی ریاست قائم کر سکتے ہیں، اسی طرح مذہب اور شریعت پر عمل کی آزادی ہو تو غیر مسلم اکثریت والے ریاستوں میں شہری کی حیثیت اور ملک کی بنیاد پر ایک قوم بن بھی رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ قرآن اور سنت کی رو سے غیر قانونی نہیں ہے۔
یعنی آپ دو قومی نظریے سے اتفاق نہیں کرتیں۔ :)
 
شمالی بھارت میں میرٹھ کی جس یونیورسٹی سے 67 کشمیری طلبہ کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حمایت کرنے پر معطل کیا گیا تھا، وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے لیکن قصوروار طلبہ کہ خلاف ’تادیبی‘ کارروائی کی جائے گی۔
سو بھارتی یونیورسٹی کے وائس چانسلر منظور احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ طلبہ کے خلاف الزامات کی انکوائری جاری ہے جس کی رپورٹ جلدی ہی آجائے گی لیکن ’کسی بھی طالب علم کی پڑھائی کا نقصان نہیں ہوگا۔۔۔اور یونیورسٹی ان کے لیے ایکسٹر کلاسز کا بھی انتظام کرے گی۔‘
ان طلبہ پر الزام ہے کہ دو مارچ کو جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایشیا کپ کا میچ ہو رہا تھا تو انھوں نے پاکستانی ٹیم کی حمایت کی تھی جس کے بعد طلبہ کے دو گروپوں میں ٹکراؤ ہوا۔ یونیورسٹی نے67 کشمیری طلبہ کو معطل کرکے رات میں ہی ہوسٹل خالی کرا لیے تھے۔ پولیس نے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بھی قائم کیا تھا لیکن اس فیصلے پر سخت تنقید کے بعد اسے واپس لے لیاگیا۔ کشمیری طلبہ تمام الزامات سے انکار کرتے ہیں۔
اس سے پہلے اطلاعات تھیں کہ یونیورسٹی نے سبھی طلبہ کی معطلی منسوخ کر دی ہے لیکن مسٹر احمد نےکہا کہ حمتی فیصلہ انکوائری مکمل ہونے کے بعد ہی کیا جائے گا۔ لیکن انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ قصوروار پائے جانے والے طلبہ اور ان کے والدین کو ایک حلف نامہ داخل کرنے ہوگا کہ ’وہ ایسی حرکت دوبارہ نہیں کریں گے۔ لیکن یہ طلبہ بھی اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے۔‘
ان میں سے بہت سے طلبہ واپس کشمیر چلےگئے ہیں جہاں یونیورسٹی کے فیصلے پر سخت تنقید ہوئی ہے۔
مسٹر احمد کے مطابق طلبہ سے ہوسٹل خالی کرانے کا فیصلہ میرٹھ اور اس کے آس پاس کے علاقوں کی حساس نوعیت کے پیش نظر کیا گیا تھا جہاں گزشتہ اگست میں مذہبی فسادات ہوئے تھے جن میں تقریباً 60 لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ طلبہ سے ہوسٹل خالی کراتے وقت بھی ان سے کہا گیا تھا کہ ’حالات بہتر ہوتے ہیں انہیں واپس بلا لیا جائے گا۔‘
یہ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ہے اور صرف کشمیری طلبہ کے خلاف کارروائی کیے جانے کی وجہ سے اس معاملے نے تنازع کی شکل اختیار کر لی تھی اور یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ لڑائی میں شامل دوسرے گروپ کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/2014/03/140310_kash_students_fz.shtml
 
Top