پاؤں کے وہ 7مقامات جنہیں دبانے سے جسم میں جادوئی تبدیلیاں ہوتی ہیں

ایم اے راجا

محفلین
ایسے جوتے بھی ملتے ہیں یا جوتوں میں رکھنے والے پیڈ جو چلتے وقت پاؤں کی مختلف جگہوں پر چلتے وقت دباؤ ڈالتے ہیں اور اس طرح جسم میں راحت ملتی ہے
ایسے جوتوں یا جوتوں میں رکھنے والے پتاووں کا کیا نام ہے اور کہاں سے دستیاب ہو سکتے ہیں، میں انکے بارے پہلے بھی سنا ہے مگر تفصیل پتہ نہیں ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
قیصرانی ، عثمان ،
مجھے زیادہ تو پتہ نہیں مگر ایک چیز آزمائی ہے، میری اماں جان مرحومہ و مغفورہ کا وزن تو اتنا زیادہ نہ تھا مگر انکا پیٹ بڑھنے لگا یعنی موٹاپے کا شکا ہونے لگیں اسوقت انکی عمر 45 برس یا کچھ زائد ہو گی، ہم سندھ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتے تھے جہاں سے بڑا شیر بس کے ذریعے اڑھائی سے تین گھنٹے کے فاصلے پر جبکہ ٹرین کے ذریعے دو گھنٹے کے فاصلے پر تھا، ہمارے قصبے میں اسوقت صرف 5 ڈاکٹر ہوا کرتے تھے جن میں سے 2 ایم بی بی ایس جبکہ دو عطائی تھے لیکن ان میں سے ایک عطائی ڈاکٹر کلیان داس ( جو کچھ عرصہ پہلے دھیانت ) کر گیا ہے۔ ہوا کرتا تھا جسکے پاس مریضوں کی لمبی قطاریں ہوتی تھیں اور ایم بی بی ایس بھی ان سے مشورہ لیا کرتے تھے، ایم بی بی ایس تو نہیں تھا مگر بی ایس سی تھا اور انگلش پر بھی کافی عبور رکھتا تھا اور بیت مطالعہ تھا یر قسم کا اسلام پر اور بب نبوی و حکمت پر بھی کسفی مطالعہ بلکہ عبور تھا اچھے خاصے ملا بھی اسلام میں اس دے بحث نہیں کر سکتے تھے، اور کہتا تھا کہ اسلام از مئے فیورٹ اینڈ محمد صلی اللیہ علیہ وسلم اس مائے آئیڈیل مگر اسلام قبول نہیں کیا تھا ظاہری طور پر (آجکل اسکے تین بیٹے اور ایک بیٹی جبکہ ایک بہو ایم بی بی ایس ہیں) اور ایک بیٹے نے باہر سے کارڈیو میں اسپیشلائزیشن کی ہے اور دوسرے نے جگر معدے وغیرہ میں اور تیسرے نے گردوں وغیرہ میں۔
ییی عطائی ڈاکٹر صاحب ہمارے فیملی فزیشن ہوا کرتے تھے اور ان سے ہمارے ذاتی مراسم بھی گھر تک تھے، میں ان ڈاکٹر صاحب کے علاج کے بیت سارے کرشمے دیکھ۔ چکا ہوں۔ تو بات کر رہا تھا اماں جان کے پیٹ بڑھنے کی ایک دن وہ ڈاکٹر صاحب محلے میں کسی کے علاج کے لیئے آئے تو واپسی پر ہمارے گھر آگئے انھیں بیٹھک میں بٹھایا گیا انہوں نے چائے اور پکوڑوں کی فرمائش کر دی اماں نے چائے پکوڑے بنائے اور انکی تواضع شروع کردی اسی دوران ہی اماں نے ان سے پیٹ بڑھنے کا مسئلہ کہہ ڈالا تو انہوں نے دوا کے بجائے کہا کہ روزانہ جب بھی اور جتنی بار بھی یو سکے دائیں ہاتھ کے انگھوٹے اور شہادت والی انگلی کے درمیاں جو نرم جگہ ہے اسے زور سے دبایا کریں اور مسلا کریں یہ عمل دن میں کئی بار کچھ منٹ دہرایا کریں ہمیں تو یہ بات عجیب لگی مگر اماں نے اسی روز دے یہ عمل شروع کر دیا اور حیرت انگیز طور پر کچھ عرصہ میں انکا پیٹ بالکل اسمارٹ ہوگیا، پھر یہی عمل میں نے اپنی شریک حیات کے لیئے اور پھر اپنے لیئے بھی آزمایا بہت فرق پڑتا یے مگر یہ نہیں کہ فورا ہی افاقہ ہو یہ عمل وقت لیتا یے۔ اسی طرح ایک ہفتہ پہلے مجھے کسی نے بتایا کہ اسکو کسی دوست نے بتا ہیکہ اگر دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کر کے انگلیوں سے ہتھیلی کے اس حصے کو دبائیں جہاں انگلیاں بند ہو کر ٹھہرتی ہیں، ناخن اچھی طرح تراشے ہوئے ہوں تو شوگر کنٹرول کرنے میں بہت مدد ملتی ہے اور بقول میرے جاننے والے، ان صاحب کی شوگر کنٹرول ہے بلا دوا وغیرہ، میں بھلکڑ اور بلا کا سست ہوں مگر میں نے آج یہ عمل شروع کیا ہے اور انگھوٹے والا بھی، کیونکہ میرا پیٹ کوئی آدھ یا پون انچ ترقی کر گیا ہے، میرے خیال سے ان اعمال میں کوئی نقصان تو ہے نہیں تو کیوں نہ آزمایا جائے، میں تو یہ جانتا ہوں کہ جدید سائنس واقعی کرشمہ قدرت یے مگر صرف انسانی جسم اور صحت کے کروڑوں راز ایسے ہیں جن سے ابھی پردہ نہیں اٹھا سکی، اور روحانیت سے، حکمت اور آیورویک وغیرہ سے بھی انکار ممکن نہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی ، عثمان ،
مجھے زیادہ تو پتہ نہیں مگر ایک چیز آزمائی ہے، میری اماں جان مرحومہ و مغفورہ کا وزن تو اتنا زیادہ نہ تھا مگر انکا پیٹ بڑھنے لگا یعنی موٹاپے کا شکا ہونے لگیں اسوقت انکی عمر 45 برس یا کچھ زائد ہو گی، ہم سندھ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتے تھے جہاں سے بڑا شیر بس کے ذریعے اڑھائی سے تین گھنٹے کے فاصلے پر جبکہ ٹرین کے ذریعے دو گھنٹے کے فاصلے پر تھا، ہمارے قصبے میں اسوقت صرف 5 ڈاکٹر ہوا کرتے تھے جن میں سے 2 ایم بی بی ایس جبکہ دو عطائی تھے لیکن ان میں سے ایک عطائی ڈاکٹر کلیان داس ( جو کچھ عرصہ پہلے دھیانت ) کر گیا ہے۔ ہوا کرتا تھا جسکے پاس مریضوں کی لمبی قطاریں ہوتی تھیں اور ایم بی بی ایس بھی ان سے مشورہ لیا کرتے تھے، ایم بی بی ایس تو نہیں تھا مگر بی ایس سی تھا اور انگلش پر بھی کافی عبور رکھتا تھا اور بیت مطالعہ تھا یر قسم کا اسلام پر اور بب نبوی و حکمت پر بھی کسفی مطالعہ بلکہ عبور تھا اچھے خاصے ملا بھی اسلام میں اس دے بحث نہیں کر سکتے تھے، اور کہتا تھا کہ اسلام از مئے فیورٹ اینڈ محمد صلی اللیہ علیہ وسلم اس مائے آئیڈیل مگر اسلام قبول نہیں کیا تھا ظاہری طور پر (آجکل اسکے تین بیٹے اور ایک بیٹی جبکہ ایک بہو ایم بی بی ایس ہیں) اور ایک بیٹے نے باہر سے کارڈیو میں اسپیشلائزیشن کی ہے اور دوسرے نے جگر معدے وغیرہ میں اور تیسرے نے گردوں وغیرہ میں۔
ییی عطائی ڈاکٹر صاحب ہمارے فیملی فزیشن ہوا کرتے تھے اور ان سے ہمارے ذاتی مراسم بھی گھر تک تھے، میں ان ڈاکٹر صاحب کے علاج کے بیت سارے کرشمے دیکھ۔ چکا ہوں۔ تو بات کر رہا تھا اماں جان کے پیٹ بڑھنے کی ایک دن وہ ڈاکٹر صاحب محلے میں کسی کے علاج کے لیئے آئے تو واپسی پر ہمارے گھر آگئے انھیں بیٹھک میں بٹھایا گیا انہوں نے چائے اور پکوڑوں کی فرمائش کر دی اماں نے چائے پکوڑے بنائے اور انکی تواضع شروع کردی اسی دوران ہی اماں نے ان سے پیٹ بڑھنے کا مسئلہ کہہ ڈالا تو انہوں نے دوا کے بجائے کہا کہ روزانہ جب بھی اور جتنی بار بھی یو سکے دائیں ہاتھ کے انگھوٹے اور شہادت والی انگلی کے درمیاں جو نرم جگہ ہے اسے زور سے دبایا کریں اور مسلا کریں یہ عمل دن میں کئی بار کچھ منٹ دہرایا کریں ہمیں تو یہ بات عجیب لگی مگر اماں نے اسی روز دے یہ عمل شروع کر دیا اور حیرت انگیز طور پر کچھ عرصہ میں انکا پیٹ بالکل اسمارٹ ہوگیا، پھر یہی عمل میں نے اپنی شریک حیات کے لیئے اور پھر اپنے لیئے بھی آزمایا بہت فرق پڑتا یے مگر یہ نہیں کہ فورا ہی افاقہ ہو یہ عمل وقت لیتا یے۔ اسی طرح ایک ہفتہ پہلے مجھے کسی نے بتایا کہ اسکو کسی دوست نے بتا ہیکہ اگر دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کر کے انگلیوں سے ہتھیلی کے اس حصے کو دبائیں جہاں انگلیاں بند ہو کر ٹھہرتی ہیں، ناخن اچھی طرح تراشے ہوئے ہوں تو شوگر کنٹرول کرنے میں بہت مدد ملتی ہے اور بقول میرے جاننے والے، ان صاحب کی شوگر کنٹرول ہے بلا دوا وغیرہ، میں بھلکڑ اور بلا کا سست ہوں مگر میں نے آج یہ عمل شروع کیا ہے اور انگھوٹے والا بھی، کیونکہ میرا پیٹ کوئی آدھ یا پون انچ ترقی کر گیا ہے، میرے خیال سے ان اعمال میں کوئی نقصان تو ہے نہیں تو کیوں نہ آزمایا جائے، میں تو یہ جانتا ہوں کہ جدید سائنس واقعی کرشمہ قدرت یے مگر صرف انسانی جسم اور صحت کے کروڑوں راز ایسے ہیں جن سے ابھی پردہ نہیں اٹھا سکی، اور روحانیت سے، حکمت اور آیورویک وغیرہ سے بھی انکار ممکن نہیں۔
شکریہ
 
Top