ٹیکنالوجی ٹرینڈز 2018

اکیسویں صدی کی زندگی میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کو ایک لازمی حیثیت حاصل ہے۔اگر یوں کہا جائے کہ اکیسویں صدی کی چمک دھمک بڑی حد تک آئی ٹی سے مشروط ہے تو غلط نہیں ہوگا اس دور کا ہر انسان کسی نہ کسی انداز میں آئی ٹی استفادہ حاصل کر رہا ہے، آج کی مربوط دنیا میں انفرمیشن ٹیکنالوجی کلیدی کردار ادا کر رہی ہے، ٹیکنالوجی اپنے آپ کو جس قدر تیزی سے اپگریڈ کر رہی ہے اس کو دیکھ کر بعض اوقات عقل دنگ رہ جاتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس فیلڈ میں مستقبل کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری اور سست روی کا شکار شخص کامیاب نہیں ہو سکتا.

ٹیکنالوجی ٹرینڈز کا مقصد محفلین سے حالیہ اور مستقبل قریب کی ٹیکنالوجی کی پیشرفت پر معلومات شئیر کرنا ہے
 
کیا آپ جانتے ہیں "مائی لائی فائی لیمپ" کیا ہے؟

mylifi-625x352.jpg


مارکیٹ میں "مائی لائی فائی‘‘ نامی ایک نیا لیمپ متعارف کروایا گیا ہے جو کہ محفوظ، وائرلیس اور ریڈیائی لہروں سے پاک انٹرنیٹ کنکشن قریب موجود ڈیوائسز کو فراہم کرتا ہے، یہ ایل ای ڈی کی روشنی ڈیٹا ٹرانسفر کا کام کرتی ہے۔ لاس ویگاس میں منعقدہ ٹیکنالوجی نمائش میں ’’مائی لائی فائی‘‘ لیمپ کو متعارف کرایا گیا۔ بظاہر یہ عام لیمپ دکھائی دیتا ہے جو براڈ بینڈ انٹرنیٹ ڈونگل کے ذریعے ڈیوائسز کوانٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتا ہے ، صارفین لیپ ٹاپ یا موبائل فون وغیرہ کو اس سے کنیکٹ کرسکتے ہیں۔لیمپ کے بلب اور ڈونگل کے درمیان ڈیٹا کی منتقلی ایل ای ڈی روشنی کے ذریعے ہوتی ہے۔ تاہم انٹرنیٹ کنکشن کے لیے لیمپ روشن رکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ’’لائی فائی‘‘ کے حوالے سے تجربات کافی عرصے سے جاری ہیں جو کہ’’ وائی فائی‘‘ سے کئی گنا زیادہ تیز ٹیکنالوجی قرار دی جاتی ہے۔ اس لیمپ کے ذریعے کیے جانے والے تجربات سے معلوم ہوا کہ انٹرنیٹ کی رفتار ’1 جی بی پی ایس‘ تک ہوسکتی ہے، جبکہ ’’وائی فائی‘‘ کی اوسطاً رفتار 10 ’ایم بی پی ایس‘ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ آسان الفاظ میں ’’لائی فائی‘‘ کی رفتار کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اس سے صارف بڑی سے بڑی فائل چند منٹ میں ڈاؤن لوڈ کرسکتا ہے۔کمپنی کے مطابق ’’لائی فائی‘‘ گیمز کھیلنے کے شوقین افراد کے لیے اچھی ٹیکنالوجی ثابت ہوسکتی ہے، کیونکہ ’’وائی فائی‘‘ کے مقابلے میں اس کا کنکشن تیز ترین اور زیادہ مستحکم ہوتا ہے۔’’مائی لائی فائی‘‘ لیمپ فرانس کی کمپنی اولیڈکوم نے تیار کیا ہے۔ اس لیمپ میں ایک ایپ کے ذریعے صارفین انٹرنیٹ کو آن یا آف کرنا کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اس وقت یہ لیمپ 700 ڈالرز کے عوض آن لائن ایڈوانس بکنگ کر رہی ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ حمیرا عدنان بہن۔
یہ سلسلہ بھی فورم کی سالگرہ کے ضمن میں شروع کیا گیا ہے۔ تمام محفلین کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ یہاں حالیہ ٹیکنالوجی کے ٹرینڈز کے حوالے سے معلومات شئیر کریں۔ میرے ذہن میں ذیل کے موضوعات آ رہے ہیں:

- ڈیپ لرننگ
- بگ ڈیٹا
- انٹرنیٹ آف تھنگز
- برقی اڑن کاریں
- بلاک چین
- متفرق disruptive ٹیکنالوجیز
 
سمارٹ ہوم کیا ہے؟
9aJeeQl.png
اس دور میں انسان اپنی زندگی کو پرسکون اور آرام دہ بنانے ٹیکنالوجی کے ہر طریقے سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور آئے دن نت نئی ایجادات کو اپنی روزمرہ زندگی میں استعمال کر رہا ہے.

سمارٹ ہوم دراصل ایک ایسی رہائش گاہ کو کہا جاتا ہے جس کے مالکان رہائش میں موجود ضروریاتِ زندگی کی اہم اشیاء جیسا کہ آلات روشنی لائٹس وغیرہ ، ایئر کنڈیشنگ سسٹم، ٹی وی، فریج، واشنگ مشین، کمپیوٹر، فائر الارم سسٹم، سموک ڈیٹکٹر، گیس ڈیٹکٹر، ویڈیو انٹرکام، گھر کے سکیورٹی سسٹم، اور ساؤنڈ سسٹم کو دنیا میں کہیں بھی رہتے ہوئے انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے موبائل فون یا ٹیبلیٹ کے ذریعے کنٹرول کر سکیں.


اپنی رہائش گاہ کو سمارٹ ہوم بنانے کے لیے دو چیزیں اہم ہیں ایک تو انٹرنیٹ اور دوسری گھر کی ایسے آلات کا موجود ہونا جن میں سمارٹ سینسر موجود ہوں، آج کل مارکیٹ میں سمارٹ لائیٹس، سمارٹ ٹی وی اور بہت سی سمارٹ ہوم اپلائیسنس با آسانی مل جاتی ہیں اس کی ایک سادہ سی مثال آپ سب نے شاہد آفریدی کی وہ کمرشل تو دیکھی ہو گی جس میں وہ Amazon Alexa کو حکم دیتا ہے کہ Alexa اے سی تو بند کر دو اور اے سی بند ہو جاتا ہے یعنی شاہد آفریدی کے استعمال سمارٹ ائیر کنڈیشن ہے، آپ انٹرنیٹ پر اگر سرچ کریں تو بہت سی کمپنیاں مل جائیں گی جو سمارٹ لائٹس، سمارٹ فائر الارم سسٹم وغیرہ بناتی ہیں​

یورپ اور امریکہ میں بہت سے لوگ اپنے گھر کو سمارٹ ہوم بنا چکے ہیں، اور میری اپنی بھی دلی خواہش ہے کہ جب کبھی ہم پاکستان موو ہوں تو اپنے گھر میں سمارٹ اشیاء کو مزین کر کے اپنے گھر کو سمارٹ ہوم بناؤں
 
نبیل بھائی آپ میرے خیال میں اس گاڑی کے بارے میں بات کر رہے ہیں
qOigaUd.jpg

تین پہیوں والی فلائنگ کار
جنیوا میں منعقد ہونے والے موٹر شو میں ڈچ کمپنی پال وی نے تین پہیوں والی چھوٹی کار متعارف کروائی ہے جو کہ سڑک پر چلنے کے ساتھ فضامیں پرواز بھی کر سکتی ہے۔ اس اڑنے والی گاڑی کا نام لبرٹی رکھا گیا ہے۔ ہیلی کاپٹر کی طرح لبرٹی کی چھت پر پنکھڑیاں لگی ہیں جو اسے پرواز میں مدد دیتی ہیں۔ اس میں 100ہارس پاور کے دو انجن نصب ہیں۔اسی طرح کی ایک کار جیمز بانڈ کی فلم ’’یو اونلی لِو ٹوائس‘‘ میں بھی دکھائی گئی تھی۔ تاہم لبرٹی اس سے تھوڑی بڑی ہے اور اسے سڑک پر بھی چلایا جا سکتا ہے۔ زمین پر اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو رابرٹ ڈنگیمانسے کہتے ہیں کہ ’’یہ ہوا بازی کا عام المیہ ہے۔ چھوٹا جہاز یا ہیلی کاپٹر اس جگہ سے اڑتا ہے جہاں آپ نہیں جانا چاہتے اور وہاں اترتا ہے جہاں سے آپ آنا نہیں چاہتے۔ لیکن اس گاڑی میں آپ اپنے گھر سے سیدھے اس جگہ تک جا سکتے ہیں جہاں آپ موجود ہونا چاہتے ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ اس کار کو لینڈنگ کے لیے کسی خاص رن وے یا ہیلی پیڈ جیسے پلیٹ فارم کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ کہیں بھی با آسانی ہیلی کاپٹر کی طرح اتر سکتی ہے۔
تاہم ہیلی کاپٹر جیسے ڈیزائن کی اپنی خامیاں بھی ہیں۔ برطانیہ کی لینکاسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر ہیری ہوسٹر کہتے ہیں کہ ’’جائروکاپٹر عام ہیلی کاپٹر کے برعکس بہت چھوٹی سی جگہ پر بھی اتر سکتے ہیں، لیکن انہیں اوپر اٹھنے کے لیے آگے بڑھنے کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے انہیں عمارتوں کے اوپر بنے ہیلی پیڈز سے نہیں اڑایا جا سکتا۔ اس کے علاوہ زیادہ گنجان علاقوں میں بھی مسئلہ ہو گا، کیوں کہ اس کے پروں کو گھومنے کے لیے خاصی بڑی خالی جگہ درکار ہو گی۔‘‘
پال وی واحد کمپنی نہیں ہے جو اڑنے والی کار کو عام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری کمپنیاں بھی اسی قسم کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں اور زیادہ تر گاڑیوں کے پَر تہہ ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی کمپنی ٹیرافوگیا نے ایسی اڑن کار بنائی ہے جس کے پر پرواز کے بعد بڑی صفائی سے تہہ کیے جا سکتے ہیں۔ پیٹرول سے چلنے والی یہ گاڑی سڑکوں پر 113 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہے جب کہ فضا میں اس کی رفتار 160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے۔ اس کی قیمت دو لاکھ 80 ہزار ڈالر ہے.
 

نبیل

تکنیکی معاون
معلومات کا شکریہ حمیرا بہن۔
میری انفارمیشن کے مطابق اب فلائنگ کارز کا کانسپٹ فکشن اور لیبارٹری سے کافی آگے نکل چکا ہے۔ بلکہ پرواز کرنے والی گاڑیوں کی راہ میں اب ٹیکنالوجی کی کوئی رکاوٹ نہیں رہی ہے، بلکہ اصل رکاوٹ سول ایوی ایشن کی حفاظتی ریکوائرمنٹس کو پورا کرنا اور ان سے اجازت حاصل کرنا ہے۔ شہری حدود میں کوئی بھی پرواز اتھارٹیز کی مرضی کے بغیر نہیں کی جا سکتی، اور فلائنگ کارز جیسی نئی ٹیکنالوجی کو یہ رکاوٹ عبور کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ بائی دا وے یہ مشینیں اصل میں کاریں نہیں ہیں، انہیں محض ایک استعارے کے طور پر فلائنگ کارز کہا جاتا ہے۔ انہیں پرواز کے لیے کسی رن وے کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ یہ اپنی جگہ سے ہی عمودی طور پر ہوا میں بلند ہوتی ہیں، اپنے رستے پر سفر کرتی ہیں اور اترنے سے پہلے بھی اپنی جگہ پر ایک کواڈکاپٹر ڈرون کی طرح عمودی طور پر اترتی ہیں۔ اکثر فلائنگ کارز کی ٹیکنالوجی مجھے موجودہ ڈرونز پر ہی مبنی معلوم ہوتی ہے۔ ان مشینوں کو VTOL یعنی ورٹیکل ٹیک آف اینڈ لینڈنگ وہیکلز کہا جاتا ہے۔ ان فلائنگ کارز کی ایک اور خاص بات ان کا مکمل طور پر الیکٹرک بیٹری پر انحصار ہے، یعنی ان میں پٹرول انجن استعمال نہیں ہوتا۔

میرا اندازہ ہے کہ اگلے تین یا چار سالوں میں فلائنگ کارز کا شہری ٹریفک میں عمل دخل شروع ہو جائے گا، اور اس سے شہری زندگی میں نمایاں تبدیلی آئے گی۔ اس کا ایک منظرنامہ یوں تصور کیا جا سکتا ہے کہ جو لوگ اونچی بلڈنگ میں کسی فلیٹ میں رہتے ہیں، انہیں صبح آفس جانے کے لیے پہلے نیچے اترنے، پارکنگ میں جانے اور اس کے بعد شہر کی مصروف ٹریفک میں پھنسنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کی بجائے وہ اسی بلڈنگ کی چھت پر اپنی فلائنگ کار میں بیٹھ کر اسے اڑا کر اپنے آفس کی سکائی سکریپر بلڈنگ کی چھت پر اتاریں گے اور یوں سفر نہایت مختصر ہو جائے گا۔ فلائنگ کارز کے میدان میں کام کرنے والی اکثر کمپنیاں اسی سنیریو کو پرکشش بنا کر پیش کر رہی ہیں۔

اگرچہ کئی کمپنیاں فلائنگ کارز کے میدان میں کام کر رہی ہیں، لیکن ذاتی طور پر مجھے میونخ جرمنی کی ایک کمپنی لیلیم (Lilium) کا فلائنگ جیٹ پسند آیا ہے۔ لیلیم یونیورسٹی آف میونخ کے کچھ طلبا کی ایک سٹارٹ اپ کمپنی ہے۔ لیلیم کے فلائنگ جیٹ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے ونگز میں کئی الیکٹرک موٹرز ہیں۔ ٹیک آف کے وقت ان کا رخ نیچے کی جانب ہوتا ہے اور یوں ہوا کو نیچے کی جانب پھینک کر یہ فلائنگ جیٹ فضا میں بلند ہوتا ہے، اور اس کے بعد ان موٹرز کا رخ پیچھے کی جانب ہو جاتا ہے اور یوں اس فلائنگ جیٹ کی اپنی منزل کی جانب پرواز شروع ہو جاتی ہے۔ لیلیم کے فلائنگ جیٹ کے بارے میں کچھ معلومات ذیل کی ویڈیو میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔


فلائنگ کارز کے میدان میں محض چھوٹی سٹارٹ اپس ہی کام نہیں کر رہی ہیں بلکہ اوبر اور گوگل جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی اس میں بڑے پیمانے پر وسائل صرف کر رہی ہیں اور وہ وقت زیادہ دور نہیں ہوگا جب شہری حدود میں پرواز کے لیے فلائنگ کارز کے روٹ بھی بنا کر دیے جائیں گے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان مخصوص روٹس پر ٹریفک کے مسائل پیدا ہونے شروع ہو جائیں جیسا کہ بیک ٹو دا فیوچر فلم میں دکھایا گیا ہے۔ :) یوٹیوب کے مقبول ٹیکنالوجی ریویو چینل کولڈ فیوژن کے ڈاگوگو نے ذیل کی ویڈیو میں برقی اڑن گاڑیوں کی انڈسٹری کا ایک جائزہ پیش کیا ہے۔

 

زیک

مسافر
فلائنگ کارز اس وقت تک نہیں آئیں گی جب تک وہ مکمل خود سے نہ اڑ سکیں۔ اس طرح اڑتی ٹریفک کے مسائل کافی کم ہوں گے۔
 

یاز

محفلین
فلائنگ کارز اس وقت تک نہیں آئیں گی جب تک وہ مکمل خود سے نہ اڑ سکیں۔ اس طرح اڑتی ٹریفک کے مسائل کافی کم ہوں گے۔
کوئی مرکزی یا لوکل سرور بھی چاہئے ہو گا، جو اس ایریا کی تمام ٹریفک کا روٹ اور ریئل ٹائم پوزیشن مانیٹر کرے۔
بہت زیادہ ٹریفک متوقع ہونے کی وجہ سے سٹینڈ الون خودکار نظام یا ریڈار سینسرز حادثات کو نہ روک پائیں شاید۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
فلائنگ کارز اس وقت تک نہیں آئیں گی جب تک وہ مکمل خود سے نہ اڑ سکیں۔ اس طرح اڑتی ٹریفک کے مسائل کافی کم ہوں گے۔

شکریہ زیک۔
آٹونومس ڈرائیونگ کے میدان میں تحقیق پہلے ہی کافی ایڈوانسڈ ہو چکی ہے۔ اگرچہ مکمل طور پر خودکار ڈرائیونگ کی سطح پر آنے میں کچھ سال لگ سکتے ہیں، لیکن اس وقت بھی خوکار ڈرائیونگ کا نظام حیرت انگیز طور پر ڈرائیور کے عمل دخل کے بغیر گاڑیوں کو عام ٹریفک کے درمیان سے سفر کے بعد ان کی منرل مقصود تک پہنچا سکتا ہے۔ خودکار ڈرائیونگ کے نظام میں بہتری کا انحصار اس کے پس پردہ مصنوعی ذہانت کے سیکھنے کے عمل پر ہے۔ گوگل، اوبر اور ٹیسلا جیسی بڑی کمپنیاں خودکار ڈرائیونگ کے نظام کی ڈیویلپمنٹ کے لیے ڈیپ لرننگ کا استعمال کر رہی ہیں، اور ڈیپ لرننگ کا انحصار ٹریفک ڈیٹا اور سڑکوں اور گلیوں کے ڈیجیٹل نقشے پر ہے۔ فلائنگ کارز کی آٹونومس فلائٹ کا نظام میری دانست میں زمین پر چلنے والی گاڑیوں کی نسبت قدرے آسان ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فضا میں سڑکوں اور گلیوں کی نسبت رکاوٹیں کم ہوتی ہیں اور پیدل چلنے والوں یا سڑک کراس کرنے والوں سے تصادم کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔
 

زیک

مسافر
شکریہ زیک۔
آٹونومس ڈرائیونگ کے میدان میں تحقیق پہلے ہی کافی ایڈوانسڈ ہو چکی ہے۔ اگرچہ مکمل طور پر خودکار ڈرائیونگ کی سطح پر آنے میں کچھ سال لگ سکتے ہیں، لیکن اس وقت بھی خوکار ڈرائیونگ کا نظام حیرت انگیز طور پر ڈرائیور کے عمل دخل کے بغیر گاڑیوں کو عام ٹریفک کے درمیان سے سفر کے بعد ان کی منرل مقصود تک پہنچا سکتا ہے۔ خودکار ڈرائیونگ کے نظام میں بہتری کا انحصار اس کے پس پردہ مصنوعی ذہانت کے سیکھنے کے عمل پر ہے۔ گوگل، اوبر اور ٹیسلا جیسی بڑی کمپنیاں خودکار ڈرائیونگ کے نظام کی ڈیویلپمنٹ کے لیے ڈیپ لرننگ کا استعمال کر رہی ہیں، اور ڈیپ لرننگ کا انحصار ٹریفک ڈیٹا اور سڑکوں اور گلیوں کے ڈیجیٹل نقشے پر ہے۔ فلائنگ کارز کی آٹونومس فلائٹ کا نظام میری دانست میں زمین پر چلنے والی گاڑیوں کی نسبت قدرے آسان ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فضا میں سڑکوں اور گلیوں کی نسبت رکاوٹیں کم ہوتی ہیں اور پیدل چلنے والوں یا سڑک کراس کرنے والوں سے تصادم کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔
آسان بھی اور مشکل بھی۔ ایک بات یہ کہ جہاز لیول فلائٹ ابھی بھی کمپیوٹر کے کنٹرول ہی میں کرتے ہیں۔ فضا میں رکاوٹیں کم ہونے کی وجہ سے آسانی بھی ہو گی لیکن ساتھ ان گاڑیوں کو آپس میں ڈیٹا ایکسچیج کرنا پڑے گا اور کسی سنٹرل کنٹرول ٹاور کی بھی ضرورت برقرار رہے گی۔ ڈیٹا کمیونیکیشن پر کافی کام ہو چکا ہے۔ لیکن کنٹرول ٹاور آٹومیٹ کرنے کے کام سے میری واقفیت کم ہے
 

نبیل

تکنیکی معاون
کوئی مرکزی یا لوکل سرور بھی چاہئے ہو گا، جو اس ایریا کی تمام ٹریفک کا روٹ اور ریئل ٹائم پوزیشن مانیٹر کرے۔
بہت زیادہ ٹریفک متوقع ہونے کی وجہ سے سٹینڈ الون خودکار نظام یا ریڈار سینسرز حادثات کو نہ روک پائیں شاید۔

مرکزی سرور ماضی کا قصہ ہے۔ :)
اب کلاؤڈ کمپیوٹنگ کا زمانہ ہے۔مرکزی سرور سنگل پوائنٹ آف فیلیر بن جاتا ہے اور اس لیے اس کا استعمال سیلف ڈائیونگ کارز کے لیے غیرموزوں رہے گا۔ ٹیسلا کی تمام سیلف ڈرائیونگ گاڑیاں اگرچہ ایک اپنا ڈرائیونگ ڈیٹا ایک بڑے سپرکمپیوٹر کو بھیجتی ہیں، لیکن اس کا مقصد مرکزی طور پر ڈیپ لرننگ سسٹم کو بہتر بنانا ہے۔ دوسری جانب مصنوعی ذہانت میں یہ بہتری واپس تمام گاڑیوں کو منتقل کر دی جاتی ہے۔ اس طرح تمام گاڑیاں ایک بڑے کاسمک کانشس کا حصہ بن جاتی ہیں۔ :)

اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ ٹیسلا کار کا سیلف ڈرائیونگ سسٹم اگر کسی مشکل موڑ کو خود سے ہینڈل نہ کر سکے تو وہاں ڈرائیور کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ لیکن چند مرتبہ ڈرائیور کی مداخلت کے بعد گاڑی کی مصنوعی ذہانت بھی یہ موڑ مڑنا سیکھ جاتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کی یہ امپروومنٹ مرکزی سرور کو منتقل کر دی جاتی ہے۔ وہاں سے یہ اپڈیٹ اس نیٹورک سے منسلک تمام گاڑیوں کو فراہم کر دی جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر کسی اور ٹیسلا کا گزر اسی مشکل موڑ سے ہوگا تو اس کا سیلف ڈرائیونگ سسٹم کسی مشکل کے بغیر اسے ہینڈل کر لے گا۔
 

زیک

مسافر
مرکزی سرور ماضی کا قصہ ہے۔ :)
اب کلاؤڈ کمپیوٹنگ کا زمانہ ہے۔مرکزی سرور سنگل پوائنٹ آف فیلیر بن جاتا ہے اور اس لیے اس کا استعمال سیلف ڈائیونگ کارز کے لیے غیرموزوں رہے گا۔ ٹیسلا کی تمام سیلف ڈرائیونگ گاڑیاں اگرچہ ایک اپنا ڈرائیونگ ڈیٹا ایک بڑے سپرکمپیوٹر کو بھیجتی ہیں، لیکن اس کا مقصد مرکزی طور پر ڈیپ لرننگ سسٹم کو بہتر بنانا ہے۔ دوسری جانب مصنوعی ذہانت میں یہ بہتری واپس تمام گاڑیوں کو منتقل کر دی جاتی ہے۔ اس طرح تمام گاڑیاں ایک بڑے کاسمک کانشس کا حصہ بن جاتی ہیں۔ :)

اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ ٹیسلا کار کا سیلف ڈرائیونگ سسٹم اگر کسی مشکل موڑ کو خود سے ہینڈل نہ کر سکے تو وہاں ڈرائیور کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ لیکن چند مرتبہ ڈرائیور کی مداخلت کے بعد گاڑی کی مصنوعی ذہانت بھی یہ موڑ مڑنا سیکھ جاتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کی یہ امپروومنٹ مرکزی سرور کو منتقل کر دی جاتی ہے۔ وہاں سے یہ اپڈیٹ اس نیٹورک سے منسلک تمام گاڑیوں کو فراہم کر دی جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر کسی اور ٹیسلا کا گزر اسی مشکل موڑ سے ہوگا تو اس کا سیلف ڈرائیونگ سسٹم کسی مشکل کے بغیر اسے ہینڈل کر لے گا۔
گاڑیوں کے لئے آپ کی بات درست ہے۔ اس سلسلے میں روڈ اور گاڑیوں میں سینسرز اور کمیونیکیشن پر بھی کام ہو رہا ہے۔ لیکن فضا میں صورتحال مختلف ہو گی اور ریگولیشنز بھی سخت ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
لیکن ساتھ ان گاڑیوں کو آپس میں ڈیٹا ایکسچیج کرنا پڑے گا اور کسی سنٹرل کنٹرول ٹاور کی بھی ضرورت برقرار رہے گی۔

اب یہ کچھ سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کی ضرورت بھی بنتا جا رہا ہے۔ آٹوموٹو (automotive) اور ایویانکس (avionics) کی فیلڈز میں تحقیق کچھ ایک سی ہوتی جا رہی ہے۔

حوالہ جات:
Car2X – Fraunhofer Heinrich Hertz Institute
Vehicle-to-grid - Wikipedia
 
Top