امجد علی راجا
محفلین
(پروین شاکر سے معذرت کے ساتھ)
ٹوٹی اگر ہے میری کمر، تم کو اس سے کیا
مجھ کو لگی ہے کس کی نظر، تم کو اس سے کیا
رستے میں تم اتار کے گاڑی بھی لے گئے
"تنہا کٹے کسی کا سفر، تم کو اس سے کیا"
کُڑھتے ہو، دل جلاتے ہو، اپنا ہی مفت میں
وہ دیکھتی ہے مجھ کو اگر، تم کو اس سے کیا
محبوب وہ مرا ہو، پریشان تم ہو کیوں؟
آتی نہیں گر اس کی خبر، تم کو اس سے کیا
گھر والے رشتہ لینے گئے تھے مرے لئے
لوٹیں ہیں خالی ہاتھ اگر، تم کو اس سے کیا
میکے میں تم تو بس گئیں گھر بار چھوڑ کر
بیچوں یا دوں کرائے پہ گھر، تم کو اس سے کیا
نازک مزاج چھت پہ ذرا آ کے دیکھ لے
بارش میں میں کھڑا ہوں مگر، تم کو اس سے کیا
بیگم نے پھر نکال دیا بیڈ روم سے
گھر سے بھی وہ نکال دے گر، تم کو اس سے کیا
دل کھول کے لڑو، مرو، بھابی جی بھائی جی
بچوں پہ کیا پڑے گا اثر، تم کو اس سے کیا
تم نے تو ووٹ لے کے بھلا ہی دیا ہمیں
فاقے ہیں میرے گھر میں اگر، تم کو اس سے کیا
استادِ محترم محمد یعقوب آسی صاحب کا شکرگزار ہوں جن کی اصلاح کی بدولت یہ غزل آپ سب کی خدمت میں پیش کرنے کے قابل ہوئی۔مقدس
نیلم