ویلنٹائن ڈے منانا چاہے یا نہیں

شعیب خالق

محفلین
جیوانی میں‌ اس فضولیات کا کو ئی تصور ابھی تک نہیں‌ ہے ۔ اور اللہ تعا لیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ نہیں‌ ہے:)
 

ویج

محفلین
ویج: شمشاد بھائی ہمارے بہت سینئر اور قابل احترام دوست ہیں۔ کوشش کریں‌ کہ اتنا فری نہ ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں‌ یہ مناسب نہ لگے
شکریہ یار تم نے بتا دیا۔ میں اب ان کی اجازت سے ہی ان سے فری ہوں گا۔ اصل میں آپ لوگوں کی نوک جھونک والی پوسٹیں میں نظر سے گذریں تو خیال ہوا کہ فری ہونا شاید اتنا نامناسب نہ ہو۔ اصل میں بھائی یہاں آ کر پاکستان والا ادب احترام کچھ بھول گئے ہیں کیونکہ یہاں جو بڑے اور سینیئر ہوتے ہیں وہ کافی فری ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں بڑے اور سینیئر ناک اونچی کر کے بیٹھے ہوتے ہیں۔
 

فرذوق احمد

محفلین
کسی بہانے سے ہی سہی
پاکستان میں کوئی تو سکون کا سانس لے گا ۔۔جتنے ہنگامے ہو رہے ہیں اگر اس کو بھول کر یہ دن منا لیا جائیے تو کوئی حرج نہں ہے
-----------------------------


بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ جو بندہ اتنے سالوں میں ہاں نہیں کرتا وہ اس دِن پر کیسے مان جائے گا


باقی یہ فضول رسم ہے اس کا کوئی مقصد نہیں ہے
 

ظفری

لائبریرین
پہلے ہم ہندوستان آئے تو ہندوؤں کی بہت سی چیزیں ہماری ثقافت اور تہذیبوں میں داخل ہوگئیں ۔اب چونکہ دنیا ایک گلوبل وولیج بن گئی ہے ۔ چناچہ اب دوسرے ملکوں‌سے بھی بہت سی چیزیں ہمارے ملک میں آرہیں ہیں ۔ پہلے ہمارے ہاں سالگرہ کا تہورار اس طریقے سے نہیں منایا جاتا تھا ۔ اب گھر گھر میں سالگرہ کی تقریب ہوتی ہے ۔ کیک کاٹے جاتے ہیں ۔ ہپی برتھ ڈے کیا جاتا ہے بلکہ گایا جاتا ہے ۔ اس میں مذہبی علماء بھی شامل ہیں ۔ اس میں سیاست دان بھی شامل ہیں ۔ اب سب اس طرح کی تقریبات منقعد کرتے ہیں ۔ ایسا معاملہ اب اس تہوار کیساتھ بھی ہو رہا ہے ۔ ظاہر ہے جب ہم مغربی تہذیب کیساتھ متعلق ہو رہے ہیں تو بہت سے ان کے تہوار بھی آرہے ہیں ۔ اس تہوار کی اگر آپ اصل پر غور کریں تو اس میں کوئی ایسی بیہودگی نہیں تھی ۔ بلکہ یہ شادی کے رشتے کے تقدس کو قائم رکھنے کے لیئے ایک تہوار تھا جو لوگوں نے قائم کیا ۔ ہماری تہذیب کو ویسے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمارے ہا ں‌نہ تو رباعینت رہی ہے جو عیسائیوں کے ہاں‌ تھی ۔ نہ شادی کوئی اس نوعیت کا مسئلہ رہی ہے ۔ اس وجہ سے ہمارے معاشرے میں اس تہوار کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہونی چاہیئے ۔ لیکن جب تہذیبوں‌کا باہمی تعلق قائم ہونے لگتا ہے تو اس میں لوگ منانے لگ جاتے ہیں ۔ ذاتی طور پر مجھے یہ تہوار پسند نہیں ہے ۔ کیونکہ اس میں کچھ غیر اخلاقی چیزوں کے آنے کا بھی خدشہ ہے ۔کیونکہ اب یہ معاملہ شادی شدہ جوڑوں کے درمیان ہی نہیں رہا ۔ اس میں کچھ حدود سے باہر بھی چھلانگ لگائی گئی ہے ۔ اس وجہ سے لوگوں کو اس سے انحراف کا مشورہ دیا جائے تو اچھی بات ہے ۔

تہوار اسی طرح قوموں میں اٹھتے ہیں ۔ اور دوسری قومیں آہستہ آہستہ اپنے باہمی تعلق کی وجہ سے ان تہواروں ‌کو قبول کرلیتیں ہیں ۔ ہوسکتا ہے اس تہوار میں بھی ہمارا معاشرہ اسی طرح آہستہ آہستہ کچھ ایسی بعض تبدیلیاں کرلے ۔ جو ہماری معاشرت ، ہماری ثقافت ، ہماری تہذیب ، ہماری اخلاقی روایات اور اقدار پر مبنی ہو ۔ یہ ممکن ہے ۔ مگر ہم زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب کوئی تہوار لوگ منانا شروع کریں تو دیکھیں کہ اس تہوار میں نقص کیا ہے ۔ کوئی چیز غیر اخلاقی تو نہیں ہے ۔ کوئی چیز مذہبی نوعیت کی تو نہیں ہے ۔ اس میں کوئی ایسی چیز تو نہیں ہے جس سے ہماری اقدار ممانعیت کا حکم لگاتی ہو ۔ ہمیں اس زاویے سے چیزوں‌کا دیکھنا چاہیئے ۔ ہر چیز ہم غیروں کی قرار دیدیں اور رد کرنا شروع کردیں تو یہ کوئی مثبت عمل نہیں ہے ۔ میرا اپنا نقطہ ِ نظر یہ ہے کہ کچھ دیر بعد ہماری یہ ممانعیت رد ہوجائے گی اور لوگ اس چیز کو نہیں چھوڑیں گے ۔

سالگرہ کیساتھ بھی یہی ہوا ۔ دیکھئے کہ ایک گھر میں اب یہ تصور کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ بچوں یا بڑوں کی سالگرہ نہیں منائی جائے گی ۔ حالانکہ خود ہماری تہذیب میں اس کی کوئی روایت نہیں تھی ۔ ہم بچوں کی آمین کراتے تھے ۔ بچوں کا عقیقہ کرتے تھے ۔ لیکن اس طریقے کی کوئی تقریب ہمارے ہاں منقعد نہیں ہوتی تھی ۔ لیکن اب ہر گھر میں ہوتی ہے اور ظاہر یہ باہر سے آئی ہے ۔ ویلنٹائن ڈے کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اگر ا سمیں کوئی غیر اخلاقی پہلو نہیں ہے ۔ اور لوگ اسلامی اقدار کا لحاظ رکھتے ہیں ۔ اور ہماری تہذیب کے اندر اسے کوئی صورت دیدتے ہیں تو پھر کوئی بات کہی جا سکتی ہے ۔ اسلام کا اپروچ یہ ہے کہ سارے انسانوں کو وہ آدم کی اولاد سمجھتا ہے ۔ ساری تہذیبوں کا انسانیت کا ورثہ سمجھتا ہے ۔ وہ صرف یہ دیکھے گا کہ کوئی مشرکانہ چیز تو اس میں شامل نہیں ہے ۔ کوئی غیر اخلاقی پہلو تو نہیں نکلتا ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ کسی تہوار کا دشمن نہیں ہے ۔

رہی بات غیر شدہ مرد اور عورت کے آپس کے معاملات تو یہ ہمارے اقدار کے خلاف ہیں ۔ یہ اچھا ہوگا کہ ایسا نہ ہو ۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ یہ تہوار کسی دوسری تہذیب میں کسی اور ہی تصور سے پیش ہوا ۔ لیکن اگر ہم اس تہوار کو اپنی اقدار سے تھوڑا ہم آہنگ کرلیں ۔ تو اس تہوار کو بھی ہم اپنے اقدار اور اپنی تہذیب کے مطابق ڈھال سکتے ہیں ۔ یعنی کسی تہوار کو اسلامی ہی بنانا ضروری نہیں ہے ۔ اس میں اخلاقی پہلو آجانا چاہیئے ۔اگر کوئی غیر شادی مر و عورت اس طرح اس تہوار میں ملوث ہوتے ہیں تو ہم انہیں سمجھاسکتے ہیں جو ہم عام زندگی میں بھی کرتے ہیں ۔ تہوار یا اس قسم کی چیزیں دوسری قوموں میں جب منتقل ہوتیں ہیں تو اس میں تبدیلیاں بھی آجاتیں ہیں ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کی تاریخ ہی کو گڑھے مُردوں کی طرح اکھاڑا جائے ۔ ان تہواروں میں قومیں آہستہ آہستہ اپنے مزاج اور اقدار کے لحاظ سے بتدریج تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں ۔ قیصرانی نے بھی ایک ایسی ہی تبدیلی کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں اب دوست و احباب ایک دوسرے کیساتھ اس تہوار کو منارہے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ " ایک دوسروں کو تحفے و تحائف دیا کرو" ۔ کیوں نا ہم اس تہوار کو اس حدیث کے تناظر میں رکھ کر اس کو اپنی تہذیب و اقدار اور مذہب کے مطابق ڈھال لیں ۔ ہماری اپروچ بس ایسی ہونی چاہیئے کہ ہر حال میں اخلاقی حدود کو ہم بالاتر رکھیں گے ۔
 
کیا ویلنٹائن ڈے کی جگہ ہیر رانجھا دن، سسی پنوں دن یا ایسا ہی کوئی دن رکھ کر خوش ہو لینا جائز ہے یا ہمارے کلچر میں شادی ، بیاہ ، منگنی، کی خوشی منانا منع ہے؟ اگر غیر شادی شدہ ہو اور کوئی اپنی یا اپنے منگیتر کو بذریعہ میل کوئی تحفہ بھیج دے یا پھول بھیج دے کہ لمبی زندگی ساتھ گذارنی ہے تو کیا ایسی آپسی خوشی بھی منع ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
دوسرے کو تحفہ دینا یا دعا دینا، یہ تو بہت اچھی بات ہے، لیکن جیسا کہ ظفری بھائی نے کہا کہ ایک حد میں رہ کر۔ ایسا نہ ہو کہ اخلاقی حدود پھلانگ کر اس تہوار کو منایا جائے جیسا کہ یورپ یا امریکہ میں ہوتا ہے، تو ظاہر ہے وہ میرے معاشرے کا حصہ نہیں ہے۔ اور پھر یہ تحفہ دینا یا دعا دینا پورے سال میں صرف ایک ہی دن پر تو موقوف نہیں ہونا چاہیے۔ سال میں ایسے کئی موقعے آتے ہیں جب ایک شوہر اپنی بیوی کو تحفے میں کچھ نہ کچھ دے سکتا ہے۔
 

بلال

محفلین
دوسرے کو تحفہ دینا یا دعا دینا، یہ تو بہت اچھی بات ہے، لیکن جیسا کہ ظفری بھائی نے کہا کہ ایک حد میں رہ کر۔ ایسا نہ ہو کہ اخلاقی حدود پھلانگ کر اس تہوار کو منایا جائے جیسا کہ یورپ یا امریکہ میں ہوتا ہے، تو ظاہر ہے وہ میرے معاشرے کا حصہ نہیں ہے۔ اور پھر یہ تحفہ دینا یا دعا دینا پورے سال میں صرف ایک ہی دن پر تو موقوف نہیں ہونا چاہیے۔ سال میں ایسے کئی موقعے آتے ہیں جب ایک شوہر اپنی بیوی کو تحفے میں کچھ نہ کچھ دے سکتا ہے۔

بلکل ٹھیک کہا آپ نے شمشاد بھائی۔۔۔ ایک حد میں رہ کر بلکہ اسلام کے دائرے میں رہ کر تخفہ اور دعا دینا تو ثواب کا کام ہے۔۔۔ اور یہ کسی خاص دن ہی دینے کی کیا ضرورت ہے پورے سال میں کسی بھی دن دیا جا سکتا ہے۔۔۔ اگر کسی کو کسی خاص دن ہی تخفہ دینا ہے تو اس کے لئے اسلام نے دن مقرر کیا ہے جیسے غالبآ عید کہا جاتا ہے۔ وہ بھی ایک نہیں جناب دو ہیں۔۔۔ آپ عید پر کیوں تخفہ نہیں دینے کا سوچتے۔ آخر یہ ویلنٹائن ڈے ہی رہ گیا ہے۔۔۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
میں نے ایک ویب سائیٹ پر یہ پڑھا ہے اور یہاں بھی ارسال کر رہا ہوں



ویلنٹائن ڈے ( یوم محبت ) کا قصہ :

یوم محبت رومن بت پرستوں کے تہواروں میں سے ایک تہوار شمار کیا جاتاہے جب کہ رومیوں کے ہاں بت پرستی سترہ صدیوں سےبھی زيادہ پرمحیط ہے جوکہ محبت کے الہ کے بارہ میں رومی بت پرستی کی تعبیرہے ۔

اس بت پرستی کے تہوار کے بارہ میں کئي قسم کے قصہ رومیوں اوران کے وارث عیسائیوں کے ہاں معروف ہیں ، ان میں سب سے زيادہ مشہور قصہ یہ ہے کہ :

رومیوں کا عقیدہ تھا کہ روم شہرکے مؤسس روملیوس کوایک دن مادہ بھيڑیے نے دودھ پلایا جس کی وجہ سے اسے قوت فکری حلم وبردباری حاصل ہوئی ۔

لھذا رومی لوگ اس حادثہ کی وجہ سے ہربرس فروری کے وسط میں بہت بڑا تہوار منایا کرتے تھے اوراس میں ایک علامت یہ بھی تھی کہ وہ کتا اوربکری ذبح کرتے ، اورمضبوط اورگٹھے ہوئے عضلات والے دونوجوان اپنے جسم پرکتے اوربکری کے خون کا لیپ کرتے اورپھر اس خون کودودھ کے ساتھ دھوتے اوراس کے بعد ایک بہت بڑا قافلہ چلتا جس کےآگے وہ نوجوان ہوتے اوریہ قافلہ گلی کوچوں اورسڑکوں پرچلتا ، ان دونوجوانوں کے ہاتھ میں چمڑے کے دوٹکڑے ہوتے جوبھی انہيں ملتا اسے وہ ٹکڑے مارتے ، اوررومی عورتیں بڑی خوشی سے یہ کوڑے کھاتیں کیونکہ ان کا یہ اعتقاد تھا کہ اس سے شفاملتی ہے اوربانجھ پن ختم ہوجاتا ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اس تہوار سے سینٹ ویلنٹائن کاتعلق :

سینٹ ویلنٹائن نصرانی کنیسہ کے دوقدیم قربان ہونے والے اشخاص کانام ہے ، کہا جاتا ہے کہ یہ دوشخص تھے ، اورایک قول میں ہے بلکہ اس نام کا ایک ہی شخص تھاجوشہنشاہ کلاڈیس کی تعذیب کی تاب نہ لاتے ہوئے 296میلادی میں ہلاک ہوگیا ، اورجس جگہ یہ ہلاک ہوا اسی جگہ 350میلادی میں بطوریادگارایک کنیسہ تیارکیا گیا ۔

جب رومیوں نے عیسائیت قبول کی تووہ اپنے اس سابقہ تہوار یوم محبت کومناتے رہے لیکن انہوں نے اسے بت پرستی کےمفہوم سے نکال کرمحبت الہی میں تبدیل کرلیا دوسرے مفہوم محبت کے شھداء میں بدل لیا اورانہوں نے اسے اپنے گمان کے مطابق محبت وسلامتی کی دعوت دینے والےسینٹ ویلنٹائن کے نام کردیا جسے وہ اس راستے میں شھید گردانتے ہیں ، اوراسے عاشقوں کی عید اورتہوار کا نام بھی دیا جاتا ہے اورسینٹ ویلنٹائن کوعاشقوں کا شفارشی اوران کا نگران شمار کرتے ہیں ۔

ان کے باطل اعتقادات اوراس دن کی مشہور رسم یہ تھی کہ نوجوان اور شادی کی عمرمیں پہنچنے والی لڑکیوں کے نام کاغذ کےٹکڑے پرلکھ کرایک برتن میں ڈالے جاتے اوراسے ٹیبل پررکھ دیا جاتا اورشادی کی رغبت رکھنے والے نوجوان لڑکوں کودعوت دی جاتی کہ وہ اس میں سے ایک ایک پرچی نکالیں لھذا جس کا نام اس قرعہ میں نکل آتا وہ لڑکا اس لڑکی کی ایک برس تک خدمت کرتا اوروہ ایک دوسرے کے اخلاق کا تجربہ کرتے پھر بعد میں شادی کرلیتے یا پھر آئندہ برس اسی تہوار یوم محبت میں دوبارہ قرعہ نکالتے ۔

دین نصرانی کے عالموں نے اس رسم سے بہت برااثرلیا اوراسے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے اخلاق خراب کرنے کا سبب قرار دیا لھذا اٹلی جہاں پراسے بہت شہرت حاصل تھی ناجائز قرار دے دیا گيا ، پھر بعد میں اٹھارہ اورانیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیا گیا ، وہ اس طرح کہ کچھ یورپی ممالک میں کچھ بک ڈپوؤں پرایک کتاب ( ویلنٹائن کی کتاب کے نام سے ) کی فروخت شروع ہوئي جس میں عشق ومحبت کے اشعار ہیں ، جسے عاشق قسم کے لوگ اپنی محبوبہ کوخطوط میں لکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ، اوراس میں عشق ومحبت کے خطوط لکھنے کے بارہ میں چندایک تجاویز بھی درج ہیں ۔

اس تہوارکا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ : جب رومیوں نے نصرانیت قبول کی اورعیسا‏ئیت کے ظہورکے بعد اس میں داخل ہوئے توتیسری صدی میلادی میں شہنشاہ کلاڈیس دوم نے اپنی فوج کے لوگوں پرشادی کرنے کی پابندی لگادی کیونکہ وہ بیویوں کی وجہ سے جنگوں میں نہيں جاتے تھے تواس نے یہ فیصلہ کیا ۔

لیکن سینٹ ولنٹائن نے اس فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے چوری چھپے فوجیوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا اورجب کلاڈیس کواس کا علم ہوا تواس نے سینٹ ویلنٹائن کوگرفتارکرکے جیل میں ڈال دیا اوراسے سزائے موت دے دی ، کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران ہی سینٹ ویلنٹائن کوجیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئي اورسب کچھ خفیہ ہوا کیونکہ پادریوں اورراہبوں پرعیسائیوں کےہاں شادی کرنااورمحبت کے تعلقات قائم کرنا حرام ہيں، نصاری کےہاں اس کی سفارش کی گئي کہ نصرانیت پرقائم رہو شہنشاء نے اسے عیسائیت ترک کرکے رومی دین قبول کرنے کا کہا کہ اگر وہ عیسائیت ترک کردے تواسے معاف کردیا جائے گا اوروہ اسے اپنا داماد بنانے کے ساتھ اپنے مصاحبین میں شامل کرے گا ۔

لیکن ویلنٹائن نے اس سے انکار کردیا اورعیسائیت کوترجیح دی اوراسی پرقائم رہنے کا فیصلہ کیا توچودہ فروری 270 میلادی کے دن اورپندرہ فروری کی رات اسے پھانسی دے دی گئي ، تواس دن سے اسے قدیس یعنی پاکباز بشپ کا خطاب دے دیا گیا ۔
 

damsel

معطل
کیا ویلنٹائن ڈے کی جگہ ہیر رانجھا دن، سسی پنوں دن یا ایسا ہی کوئی دن رکھ کر خوش ہو لینا جائز ہے یا ہمارے کلچر میں شادی ، بیاہ ، منگنی، کی خوشی منانا منع ہے؟ اگر غیر شادی شدہ ہو اور کوئی اپنی یا اپنے منگیتر کو بذریعہ میل کوئی تحفہ بھیج دے یا پھول بھیج دے کہ لمبی زندگی ساتھ گذارنی ہے تو کیا ایسی آپسی خوشی بھی منع ہے؟
بات ایک ہی ہے ہیر رانجھا دن ہو یا سسی پنوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے کلچر کی بات تو نہیں کرنا چاہیئے البتہ دین میں نکاح کے متعلق جو احکامات اور اس کو منانے کا جو انداز ہے وہی صیحیح ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دینِاسلام انسان کو خوش ہونے سے تو منع نہیں کرتا البتہ جائز طریقے کی تلقین کی گئی ہے بار بار۔۔۔منگنی کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے تو منگیتر کی کیا ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لمبی زندگی ساتھ گزارنے کے لیے اگر انسان شادی کے بعد محبت،خلوص اور وفا کے ساتھ رشتہ نبھائے تو میرا نہیں خیال کہ آپ کا ہمسفر شادی سے پہلےتحفے نہ دینے پر آپ سے کبیدہ خاطر ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپسی خوشی بعد میں بھی تو شیئر کی جاسکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ویسے شیطانی کی چالیں ہوتی ہیں انسان کو گمراہ کرنے کے لیے
 

پپو

محفلین
تمام دوستوں کے تبصرے ان کی سوچ اور طرز زندگی کے عکاس ہیں بات سادہ سی ہے عید ہو تو سویاں ضرور کھا لیں مگر ہمارے ملکی حالات اس کی اجازت ہرگز نہیں دیتے اور ہما ر ا دین تو ہر کسی کو محبتیں باٹنے کا درس دیتا اس کے لیے کسی خاص دن کی اور رشتے کی بھی حد نہیں ہے سب سے محبت لیکن صداقت کا دامن ساتھ رکھ کر
 

قیصرانی

لائبریرین
آج ریڈیو پر ایک کمپنی کے چاکلیٹ کی مشہوری تھی۔ دوستوں، رشتہ داروں اور خود کو بھی دوستی کے دن پر چاکلیٹ بھیجیں۔ گفٹ پیکنگ مفت ہوگی۔ یہ سکیم تمام K City Market پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ جرمن چین شاپ Lidl پر بھی یہ چیزیں‌دکھائی دیں

my.php


my.php


بس یہ یہاں‌ کا ویلنٹائن ڈے ہے
 
Top