وہ کھٹے میٹھے دن ۔۔۔۔پہلا امتحان ۔۔از :عابی مکھنوی

گورنمنٹ پرائمری اسکول موضع دو بندی میں ہمارے تعلیمی سفر کا پہلا سنگ میل عبور ہونے والا تھا۔پہلی جماعت میں ہم نے اردو حروف تہجی اور بنیادی گنتی کے علاوہ جو چیز سیکھی تھی وہ تختی دھو کر اس پر "" گھاچی "" لگانا ،سرکنڈے کا قلم تراشنا اور تھوک کی مدد سے "" سلیٹ صاف "" کرنا تھا۔ویسے تو آزمائشوں سے ہماری دوستی ہوئے پورا سال ہونے کو تھا لیکن پہلا باقائدہ تعلیمی امتحان ابھی باقی تھا۔

ہمارا شمار کلاس کے تقریباً تیس غازیان علم میں سے قابل ترین پانچ میں ہوتا تھا۔بنیادی گنتی ہمیں ازبر تھی۔اردو حروف تہجی بھی الف سے ے تک ہم پہچان کر لکھنا سیکھ چکے تھے۔تختی دھو کر اس پر "" گھاچی "" لگانے میں ہم ماسٹر ہو چکے تھے۔گھاچی سفیدی مائل رنگ کی مخصوص مٹی ہوتی تھی جو ڈلیوں کی شکل میں گاؤں کی ہٹی (دوکان) پر دستیاب ہوتی تھی۔پچیس پیسے میں اتنی گھاچی آ جاتی تھی جس سے ہم مہینہ بھر تختی تیار کر لیتے تھے۔

کٹھی (نالی) کے کنارے بیٹھ کر پہلے ہم پوری تختی پانی میں بھگو کر پرانا لکھا دھوتے اور اس کے بعد گھاچی پانی میں بھگو کر تختی پر ملتے جاتے۔تختی کی دونوں اطراف مطلوبہ معیار تک مٹی کا لیپ ہوتے ہی ہم گھاچی رکھ کر بائیں ہاتھ سے تختی کا سر یعنی ہتھی پکڑ کر دائیں ہتھیلی کے زیریں کنارے کی مدد سے لیپ کو ہموار اور پتلا کرتے تا کہ لکھائی کے دوران سرکنڈے سے بنایا گیا مخصوص قلم روانی سے چل سکے۔سرکنڈا شاید بانس کی ہی سب سے چھوٹی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔سرکنڈے کا پورا ایک جنگل گاؤں کے چند کھیتوں کے کنارے اگا ہوا تھا۔قلم تراشنا بھی باقاعدہ ایک فن تھا۔جس میں ہم مکمل مہارت حاصل کر چکے تھے۔روشنائی جسے ہم سیاھی کہتے تھے انگلی کے سائز کی کاغذ کی پُڑیوں میں دستیاب ہوا کرتی تھی۔اچھی سیاہی باریک دانوں یا پاؤڈر کی شکل میں ہوتی تھی۔اس وقت پچیس پیسے میں چار پُڑیاں آ جاتی تھیں۔چھوٹی سی بوتل میں پانی ڈال کر اس میں پُڑیوں کی سیاہی گھولنا بہت احتیاط طلب اور مہارت کا کام ہوا کرتا تھا۔معیاری سیاھی نہ تو اتنی پتلی ہوتی تھی کہ تختی خشک ہونے پر لکھائی نظر ہی نہ آئے اور نہ اتنی گاڑھی کہ لکھتے ہوئے قلم چلانا عذاب ہو جائے۔البتہ سلیٹ کا استعمال نسبتاً آسان ہوتا تھا۔سلیٹ ہم لوہے کی چادر سے بنی ایک شے کو کہتے تھے جس کا سائز اے فور کاغذ جتنا ہوتا تھا۔اس پر سیاہ رنگ کے کسی میٹیریل کی کوٹنگ ہوتی تھی جسے ہم ""مصالحہ "" کہتے تھے۔سلیٹ پر لکھنے کے لیے ہم جو پتھر استعمال کرتے تھے وہ بھی کمرشل آئٹم ہوتا تھا۔اس پتھر کو ہم مقامی زبان میں "" گھلاسہ "" کہتے تھے۔پچیس پیسے میں گھلاسے کی بھی اتنی مقدار آ جاتی تھی کہ ہم اس میں پورا مہینہ گزار لیتے اگر قرض حسنہ لینے والوں کی دست بُرد سے بچ جاتا۔جی ہاں سیاہی کی پُڑیاں، گھاچی اور گھلاسے کا ادھار پر لیں دین پورے اسکول میں عام تھا۔سلیٹ پر اکثر ہم حسابی علوم کی مشق کم اور ایک دوسرے کی ہولناک شکلیں زیادہ بناتے تھے۔سلیٹ کی صفائی اکثر ہم تھوک کی مدد سے کرتے تھے۔بعض نفیس بچے جنھیں آپ اس دور کے "" برگر""" کہہ سکتے ہیں ،سلیٹ کی لکھائی صاف کرنے کے لیے پانی میں بھیگا فوم ساتھ رکھتے تھے۔لیکن اکثریت سلیٹ پر تھوک کر اپنی قمیص کے دامن کو الٹا کر کے اس کی مدد سے سلیٹ کو گھلاسے کے نشانات سے پاک کرتی۔سلیٹ پر زیادہ مشق ستم کرنے کی وجہ سے بعض اوقات منہ خشک ہونے کی وجہ سے تھوک کی قلت ہو جاتی تو دائیں بائیں سے بھی تھوک ادھار لے لیا جاتا تھا۔

اسکول کا پکا یونیفارم ملیشیا شلوار قمیص اور کالے رنگ کے موٹے کپڑے سے بنی ٹوپی ہوتی تھی ۔ٹوپی کے سامنے والے حصے کی نشاندہی کے لیے اس پر لال رنگ کے موٹے کپڑے کی چوکور ٹکیہ ترچھی حالت میں لگی ہوتی تھی جسے ہم تارا کہتے تھے۔حالانکہ اس شکل کا تارا آج تک ماہرین فلکیات بھی دریافت نہیں کر سکے۔جوتے یونیفارم کا حصہ نہیں تھے اس لیے جوتے حسب توفیق اور حسب خواہش پہنے جاتے تھے۔

مارچ اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ ہمارے سر پر کھڑا تھا۔شمسی سال کا تیسرا مہینہ اس وقت اسکول کے تمام طالب علموں کے لیے خوف کی علامت ہوتا تھا۔پرائمری اسکول میں امتحانات کے لیے دوسرے گاؤں کے اسکول سے اساتذہ کی ٹیم آتی تھی ۔اپنے اسکول کے اساتذہ دور ایک درخت کے نیچے کرسیوں پر بیٹھے صرف تماشا دیکھتے تھے۔درآمد شدہ
ٹیم کے ارکان کے لیے پرتکلف ناشتے کا اہتمام کیا جاتا تھا تا کہ وہ بھی فراخ دلی کے ساتھ ملک میں شرح خوندگی بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔

ہمیں بالکل بھی یاد نہیں کہ وہ مارچ کی کونسی تاریخ تھی یا ہفتے کا کون سا دن تھا۔اتناضرور یا د ہے کہ اپنے استاد محترم جناب اقبال صاحب کی ہدایات پر عمل کرنے میں ہم نے ذرہ برابر کوتاہی نہیں کی تھی۔سر پر چمکتی دمکتی ٹوپی ،جسم پر ایک دن پہلے دھلا ہوا نکھرا نکھرا یونیفارم،پاؤں میں دھلی ہوئی چپلیں،سر میں سرسوں کا تیل اور آنکھوں میں سُرمے کی کان لُٹائے ہم اپنی کلاس میں خوب جھاڑی ہوئی ٹاٹ پربستہ سامنے رکھے آلتی پالتی مارے تیار بیٹھے تھے۔پوری کلاس کی گھاچی لگی خشک تختیاں ایک دوسرے کے کندھے تھامے قطار اندر قطار کھڑی تھیں۔استاد محترم صبح صبح اسمبلی کے فوراً بعد سال بھر کی علمی جمع پونجی ہمارے سامنے کئی بار دُہرا چکے تھے۔اپنی ان تھک محنت کی بدولت وہ بہت پُراعتماد تھے اور اُن کے اُٹھنے بیٹھنے کے انداز میں ایک مخصوص انداز تفاخر تھا۔ہم بھی کسی سُدھے ہوئے گھوڑے کی طرح اپنی حرکات و سکنات سے مسلسل اُن کو ""سب اچھا ہے ""کا پیغام ترسیل کر رہے تھے۔کلاس کے ہونہار ترین طلبا کو احتیاطاً قطاروں میں پھیلا کر بٹھایا جاتا تھا تا کہ زبانی امتحان کے مرحلے میں اکثر سوالات کا سامنا قابل بچے کریں۔امتحان کے زبانی مرحلے میں ممتحن کو اجازت تھی کہ وہ اپنی مرضی سے کسی سے بھی کوئی بھی سوال کر سکتا ہے۔جبکہ تختی اور سلیٹ کا استعمال اجتماعی سوالات کے لیے ہوتا تھا۔

ہم اس دن پہلی صف کے درمیانی حصے میں تشریف فرما تھے۔امتحان کا دن شاید واحد دن ہوتا تھا جب پوری کلاس کے پاس تختی ،سلیٹ ،گھلاسہ، قلم اور دوات موجود ہوتی تھی ورنہ تو سارا سال ادھار سدھار چلتا رہتا تھا۔
صبح کی خُنکی ابھی ماند نہیں پڑی تھی کہ امتحآنی پولیس کی ٹولی اسکول کی طرف آنے والے بڑے راستے سے ٹہلتی آ دھمکی۔اس وقت ہمارے اسکول میں کل نفری تقریباً دو سو تک رہی ہو گی۔امتحانی ٹیم کی آمد کے ساتھ ہی اسکول کا ماحول قبرستان کے ماحول میں تبدیل ہو گیا۔قطاروں میں بیٹھے تمام بچے منہ ہی منہ میں اپنے اسباق بڑبڑا رہے تھے لیکن کہیں سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔تمام کلاسیں مانیٹرز کے حوالے تھیں کیونکہ اساتذہ آنے والی ٹیم کے پُرتپاک استقبال میں مصروف تھے۔اُن کا مرکزی اڈہ ایک درخت کے نیچے تھا جہاں درجن بھر کرسیاں ایک بڑی میز کے گرد بچھی تھیں۔میز پر بیکری کے لوازمات سلیقے سے سجائے گئے تھے۔تیار چائے لانے کی ذمہ داری کسی ایک طالب علم کی ہوتی تھی جو اکثر تعلیم میں کمزور بچے بصد شوق طلب کیا کرتے تھے۔چائے کی ذمہ داری اُٹھانے والے میزبان کو اکتیس مارچ نتیجے والے دن اس کے جذبہ میزبانی کا پھل مل جایا کرتا تھا۔

چائے کے پہلے دور کے فوراً بعد بڑی کلاسوں کے پوسٹ مارٹم کا آغاز ہو چکا تھا۔ہماری پوری کلاس کا اب تک کا کردار صرف بغیر ٹکٹ کے تماشائی کا تھا۔امتحانی ٹیم کے ممبران اپنی متعلقہ کلاسوں کی قطاروں کے بیچ ٹہلتے ہوئے اونچی آواز میں اردو کے مشکل الفاظ پکار رہے تھےاور ہمارے بزرگ تختیاں گود میں ٹکائے قلم دوات میں ڈبو ڈبو کر وہ الفاظ درست ہجوں کے ساتھ لکھنے میں مصروف تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ناک کو بہنے کے لیے نزلے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اس لیے وقفے وقفے سے مختلف کلاسوں سے "" شڑوں شڑوں "" کی آوازیں آ رہی تھیں۔"" شڑوں "" کرنے والا ہر بچہ ایک لمحے کے لیے تختی کی ہتھی کو چھوڑتا اور ناک صاف کرنے کے لیے بائیں بازو کے بالائی حصے کو ایک ادائے بے نیازی سے اپنی ناک پر ملتا۔اس وقت ناک صاف کرنے کا مہذب ترین طریقہ قمیص کے دامن کو الٹا کر کے اس کی مدد سے ناک سے بہنے والے پانی کو جذب کرنا ہوتا تھا۔ایک اور کلاس میں سلیٹ پر مشق ستم جاری تھی۔ممتحن تختہ سیاہ (بلیک بورڈ) پر حساب کا کوئی سوال لکھتا اور پوری کلاس وہ سوال حل کرنے مین جُت جاتی۔جیسے ہی ممتحن گذشتہ سوال کی جانچ پڑتا کر کے اپنے پاس موجود رجسٹر مین نتیجہ لکھتا اگلے سوال کے لیے سلیٹ کو تیار کرنے کے لیے پوری کلاس اجتماعی طور پر کھنگارنے لگتی۔

ہماری بے چینی لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی تھی۔کیونکہ اب تک کسی ممتحن نے ہماری طرف غلطی سے بھی نہیں دیکھا تھا۔تھوڑا وقت اور گزرا تو یہ بے چینی توہین اور ذلت کے احساس میں بدلنے لگی۔آخر یہ ہماری طرف کیوں نہیں آرہے۔تنگ آ کر ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ کھسر پھسر شروع کر دی تھی۔''آدھی چھٹی "" کا وقت بھی ہونے والا تھا۔ ہمیں معلوم تھا کہ امتحان ""آدھی چھٹی "" سے پہلے ختم ہوجانا تھا۔آدھی چھٹی ہم آج کل کی ریسیس کو بولتے تھے۔نالائق قوم نسبتاً خوش تھی لیکن ہمیں عزت کمانے کا ایک موقع ضائع ہوتا نظر آ رہا تھا۔

دفعتاً ہم نے دیکھا کہ ہمارے محبوب اُستاد جناب اقبال صاحب ایک ممتحن کو گھیر کر ہماری طرف لا رہے ہیں۔ ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ہم نے فوراً بستے سے سلیٹ نکال کر ایک بار پھر اُس کا ننقیدی جائزہ لیا جیسے حملے سے پہلے کوئی فوجی اپنا اسلحہ چیک کرتا ہے۔تختی ہمارے سامنے ایک کلاس فیلو کی تختی کے ساتھ سر جوڑے کھڑی تھی۔

محترم اقبال صاحب نے کلاس میں پہنچتے ہی ممتحن کے سامنے شاندار الفاط میں ہماری کلاس کو خراج تحسین پیش کیا۔ہمارے چہرے اپنی تعریف سُن کر خوشی کے مارے دمک رہے تھے۔ہمارے اسکول کا پورا صحن گرد سے اٹا ہوتا تھا جس پر پانی سے چھڑکاؤ کے بعد ہم ٹاٹ بچھاتے تھے۔چھڑکاؤ کا اثر ختم ہوتے ہی گرد دوبارہ اپنی اصلی شکل میں آ جاتی تھی۔
ہم انتظار کر رہے تھے کہ ممتحن ہمیں تختی یا سلیٹ پر کرنے کے لیے کوئی کام دے گا۔کسی تھانیدار کی طرح کلاس کا جائزہ لیتے ہوئے ممتحن تیسری قطار میں بیٹھے ایک خوفزدہ بچے کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔اُس نے پہلے انتہائی شفیق انداز میں اس بچے کا تعارف لیا اور پھر اس سے بنیادی گنتی میں سے کچھ ہندسے شہادت کی انگلی سے زمین پر جمی گرد پر لکھنے کو کہا۔اللہ ہی جانتا ہے کہ ہمارے کلاس فیلو کی طرف سے زمین پر بنائے گئے نقشے درست تھے یا غلط۔۔اب ممتحن جگہیں بدل بدل کر سہمے ہوئے کبوتروں سے زمین پر گنتی اور حروف تہجی لکھوا رہا تھا۔ہماری قطار میں وہ سب سے آخر میں آیا اور ہمارے پہلو میں بیٹھے ایک معصوم افلاطون کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔اردو حروف تہجی میں جیم چے اور حے ہمیں سب سے زیادہ بے وقوف بناتے تھے جن کے نام ہم نے بغیر نقطعے والی حے ،ایک نقطعے والی حے اور تین نقطعوں والی حے رکھا ہوا تھا۔ہمارے پہلو میں بیٹھا افلاطون نقطعوں میں مار کھا گیا۔ہماری شہادت کی انگلی میں شدید کھجلی ہو رہی تھی لیکن اچانک ممتحن صاحب اُٹھے اور ہمارے مکرم اُستاد کی معیت میں مرکزی مجلس میں جا شامل ہوئے۔

اب کلاس کا ماحول ہی کچھ اور تھا۔زمانے بھر کے نالائق بھی غلط جواب دینے والوں کو ڈانٹ رہے تھے اور ممتحن کو کوس رہے تھے کہ اس نے ان کی قابلیت کو کیوں نہیں پرکھا۔ہر قطار میں ممتحن کو دیے گئے جوابات پر سنجیدگی سے تبصرہ ہو رہا تھا۔غلطی کرنے والوں کو طعنوں کے ساتھ ساتھ دھمکایا جا رہا تھا کہ وہ اگلے سال بھی پہلی جماعت میں ہی بیٹھیں گے۔سلیٹیں اور تختیاں جوں کی توں صاف حالت میں پڑی تھیں۔

اکتیس مارچ نتیجے کا دن ہوتا تھا۔نتیجے کے دن صرف اسمبلی ہوتی تھی اور اس کے بعد ایک ایک بچے کا نام پکار کر اس کے حوالے ایک پرچی کی جاتی تھی جس پر اردو میں پاس یا فیل لکھا ہوتا تھا۔جیسے ہی پرچی بچے کے ہاتھ مین آتی وہ دھڑکتے دل کے ساتھ پرچی کھولتا۔پاس ہونے والا اساتذہ کی موجودگی کا لحاظ کیے بغیر پرچی کھولتے ہی زور سے اُچھلتا ،ایک زوردار نعرہ "" پاس اوئے "" کا لگاتا اور باری باری ایک پاؤں پر اچھلتا بھاگتا واپس اپنی جگہ پر آکھڑا ہوتا۔فیل ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہوا کرتی تھی اور زیادہ تر یہ سانحہ بڑی کلاسوں میں ہوا کرتا تھا۔فیل ہونے والا پرچی کھولتے ہی پرچی کو بغلی جیب مین ڈال لیتا تھا اور پرنم آنکھوں کے ساتھ جبراً مسکراتا ہوا اپنی جگہ پر آ کھڑا ہوتا تھا۔اپنے دائیں بائیں کھڑے ساتھیوں کے پوچھنے پر بتاتا کہ وہ پاس ہے ۔وہ پرچی دکھانے کا مطالبہ کرتے اور یہ پرچی دکھانے سے انکاری رہتا۔

اسکول کے تقریباً تمام بچے نتیجے والے دن اساتذہ کے لیےمٹھائی یا بسکٹ کے ڈبے لاتے تھے۔نتیجے سے پہلے یہ ڈبے ہاتھوں میں رکھے جاتے تھے تا کہ اساتذہ خوش ہو جائیں۔نتیجہ مکمل ہوتے ہی اکثریت اپنے ڈبوں کو چھپانے میں مصروف نظر آتی۔اکثر بچے ڈبوں کو اپنے بستوں میں چھپاتے تھے یا اپنی شلوار کو ڈھیلا باندھ کر کمر کے عقبی حصے میں پھنسا لیتے تھے۔زیادہ تجربہ کار مٹھائی چور نتیجے سے پہلے ہی اسکول کے گرد موجود کھیتوں میں اپنی مٹھائی چھپا کر جاتے تھے۔یہ سارا تردد اس لیے کیا جاتا تھا کہ ہر کلاس میں اساتذہ کی طرف سے چار لڑکوں پر مشتمل ایک ٹیم ایک چادر سائز کے رومال کو چاروں کونوں سے پکڑ کر اس میں مٹھائی اور بسکٹ کے ڈبے اکھٹے کرتی تھی۔اگر کوئی یہ کہتا کہ وہ مٹھائی نہیں لایا تو اس کی جسمانی تلاشی کے ساتھ ساتھ اس کے بستے کی بھی تلاشی لی جاتی تھی۔بسکٹ اور مٹھائی کی ضبطی کے عمل کے دوران یہ ٹیم فیل ہونے والوں کو بھی معاف نہیں کرتی تھی کیونکہ ان کو پاس ہونے کا دعویٰ ہوتا تھا۔

اسکول کی تمام بڑی کلاسوں کے نتیجے کا اعلان مکمل ہو تے ہی ہمارے دل کی دھڑکن تیز ہو چکی تھی۔لیکن نتیجے کا اعلان کرنے والے استاد صاحب نے ہماری ٹینشن ہی ختم کر دی۔بقول ان کے ہماری پوری کلاس پاس تھی اس لیے پرچی پر اپنے لیے پاس لکھا ہوا دیکھنا ہماری حسرت ہی رہی۔ہماری کلاس میں موجود تمام بچوں نے "" پاس اوئے "" پاس اوئے "" کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔اسی اثنا میں بڑی کلاس کے چار لڑکے ایک رومال چار کونوں سے پکڑے ہماری کلاس میں آ دھمکے۔ہماری نا تجربہ کاری کے باعث وہ سو فیصد ریکوری میں کامیاب ہو گئے لیکن یہ ہمارا پہلا اور آخری نتیجہ تھا جس میں ہم نے اپنے اُستاد محترم کے لیے مٹھائی دی۔آنے والے سالوں میں ہم گھر سے بسکٹ کے ڈبے کے لیے پیسے بھی لیتے اور ریکوری ٹیم کے ممبر ہونے کی بدولت جمع کیے گئے مٹھائی کے ڈبوں سے چار پانچ ڈبے بھی پار کر لیتے۔
یہ تھی ہمارے پہلے امتحان کی کہانی جس میں ہم بغیر امتحان کے ہی پاس ہو چکے تھے۔اگلے مرحلے میں ہم نے گھر جا کر نئی کلاس کے لیے نئے بستے ،نئی کتابوں اور ملیشیا کے نئے سوٹ کے مطالبات داغنے تھے۔پہلی جماعت میں پاس ہونے کے ساتھ ہی ہم بھی بزرگ کمیونٹی کا حصہ بن چکے تھے۔اب ہمیں بھی نئے آنے والے چوزوں کا شدت سے انتظار تھا تا کہ ہم بھی اپنے تجربے کی دھاک ان پر بٹھا سکیں۔
 
Top