نصیر الدین نصیر وہ تو بس وعدہء دیدار سے بہلانا تھا - نصیر الدین نصیر

منہاجین

محفلین
وہ تو بس وعدہء دیدار سے بہلانا تھا
ہم کوآنا تھا یقیں اُن کو مُکر جانا تھا

لاکھ ٹُھکرایا ہمیں تو نےمگر ہم نہ ٹلے
تیرے قدموں سےالگ ہو کےکہاں جانا تھا

جن سے نیکی کی توقع ہو وُہی نام دھریں
ایک یہ وقت بھی قسمت میں مری آنا تھا

بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہوا
لاکھ رنجش سہی اِک عمر کا یارانہ تھا

نزع کےوقت تو دُشمن بھی چلے آتے ہیں
ایسےعالم میں تو ظالم تجھے آ جانا تھا

عمر جب بیت چلی تو یہ کھلا راز نصیر
حسن ناراض نہ تھا عشق کو تڑپانا تھا


( نصیر احمد نصیر کی شاعری سے ایک اِقتباس )
 
Top