وغیرہ وغیرہ

یوسف-2

محفلین
اے این پی کے کارکنوں نے اپنے قائد اور اسٹیبلشمنٹ کے ’’آئیڈیل رہنما‘‘ اسفند یار ولی کو اردو میں تقریر کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ یہ دشمن کی زبان ہے۔ اسفند ولی کے تو گویا یہ دل کی بات تھی لیکن انہوں نے مجبوری بیان کی کہ اردو میں نہ بات کی تو ٹی وی پر کوریج نہیں ملے گی۔ ٹی وی کوریج کی اپنی اہمیت ہے۔ اے این پی اب صوبے کے کسی اور میدان میں کم ہی نظر آتی ہے، میڈیا پر بھی نہ آسکے تو پھر کا ہے کی خدائی خدمت گاری۔ کارکنوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور انہوں نے اپنے قائد اور اسٹیبلشمنٹ کے ’’آئیڈیل رہنما‘‘ کو دشمن کی زبان میں بات کرنے کی اجازت دے دی۔ موضوع اہم تھا۔ کالا باغ۔ یہ وہ موضوع ہے جس کی آڑ میں پنجاب کو بڑی آسانی اور روانی سے گالی دی جا سکتی ہے۔ چنانچہ پانچ منٹ تک دشمن کی زبان میں پنجاب پر ’’مہربانیاں‘‘ ہوتی رہیں۔
اردو دشمن کی زبان ہے۔ کوئی شک نہیں، دوست کی زبان تو برج بھاشا ہے جس میں دشمن کی زبان کی کچھ ملاوٹ کرکے ہندی کا نام دے دیا گیا ہے۔ اے این پی نے بڑا اپکار کیا کہ دشمن کی بھاشا کا بتا دیا، اب اوپر والا اسکا بھلا کرے، وہ یہ بھی بتا دے کہ اور کیا کیا کچھ دشمن کا ہے۔ اور ایسا کیا کچھ ہے جسے وہ دشمن کا نہیں، متر(یا متروں) کامانتی ہے۔
______________________
جمہوری انتقام پارٹی کی ایک رہنما شہلا رضا نے گلہ کیا ہے کہ میڈیا ان کی پارٹی کی حکومت کے مثبت کام نہیں دکھاتا۔
شہلا رضا میڈیا کی کچھ رہنمائی کر دیں۔ خود ہی بتا دیں کہ کون کون سے مثبت کام ہیں۔ میڈیا کی آنکھوں سے یہ اوجھل کام اگر وہ نہیں دکھائیں گی تو کون دکھائے گا۔ شہلا رضا نے یہ گلہ ایک ٹی وی پروگرام میں کیا اور مزے کی بات ہے کہ ان مثبت کاموں کی خود بھی کوئی نشاندہی نہیں کی۔ یہ ایسے خفیہ اور پوشیدہ راز ہیں کہ خود جمہوری انتقام پارٹی کے رہنماؤں کے علم میں بھی نہیں ہیں۔ گویا ٹاپ سیکرٹ ہیں۔
اب ٹاپ سیکرٹ سے میڈیا کیسے پردہ اٹھائے۔
______________________
مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجاز الحق نے کہا ہے کہ لال مسجد آپریشن کے بعد مشرف کی کابینہ سے علیحدہ نہ ہونا غلطی تھا۔
غلطی نہیں بھولے میاں، گناہ کبیرہ تھا۔ ایسا گناہ جس کے لئے انہیں قوم سے نہیں، خدا سے معافی مانگنی چاہئے اور پھر اسلام آباد کے جنگلوں اور ویرانوں میں جا کر ان ہزارہا بچوں کی روحوں سے بھی جن کی لاشوں کی راکھ بڑے پہیوں والے ہیوی ڈیوٹی ٹرکوں میں بھر بھر ان جنگلوں میں لے جائی گئی اور بڑے بڑے گڑھوں میں دبا دی گئی۔ ان ویرانوں میں آج بھی ان ہزاروں روحوں کی فریاد سنی جا سکتی ہے۔ اعجاز الحق کسی روز شجاعت اور شیخ رشید کو اپنے ہمراہ لے جا کر سننے کی کوشش کریں۔
______________________
اعجاز الحق نے مزید بتایا ہے کہ این آر او شجاعت مشاہد اور قصوری کی مشاورت سے آیا۔
عرض ہے مشاورت تو بعد میں ہوئی، فیصلہ پہلے ہوگیا تھا۔یہ فیصلہ امریکہ اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کا تھا کہ ان دونوں کے ہیرو وہی ہیں جو اس لاوارث قوم کا مال زیادہ سے زیادہ ٹھکانے لگا سکیں اور یہ مشاہد وہی ہیں جو ابھی سال ڈیڑھ پہلے تک حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف ’’لُٹو تے پُھٹو‘‘ کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے۔اور لوگ ہنستے تھے کہ این آر اوکرانے والے ہی کرپشن کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ یعنی جس کی جے جے کار، اسی کے خلاف ہاہا کار۔(اور اب پھر جے جے کار)۔
قصور مشاہد کا ہے نہ قصوری کا اور نہ ہی شجاعت کا۔ ’’وفاداری ‘‘ سے ادھر ادھر ہونے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اور پھر ’’دریائے کرپشن‘‘ تو سب کا سانجھا ہے۔ آٹھ سال انہوں نے بھی کون سی کمی چھوڑی تھی۔
______________________
فیصل آباد میں راجہ رینٹل کا جلسہ ایک اہم واقعہ تھا۔
اہم اس لحاظ سے کہ بااعتبار حاضری یہ کارنر میٹنگ تھی، جلسہ نہیں اور اہمیت اس کی یہ تھی کہ یہ تاریخ کی پہلی کارنر میٹنگ تھی جو کسی سٹیڈیم میں ہوئی۔ اب تک سٹیڈیم میں میچ ہوتے ہیں یا کبھی کبھار جلسے۔ خلاف معمول کارنر میٹنگ کے انعقاد پر شاید سٹیڈیم بھی حیران تھا۔
کارنر میٹنگ کے لئے سینکڑوں سرکاری ملازمین کی چھٹی منسوخ کرکے انہیں سٹیڈیم آکر حاضری لگانے کے لئے مجبور کیا گیا۔ ظاہر ہے، چھٹی منسوخ ہونے کی خوشی میں ان کئی سو ملازموں نے راجہ رینٹل کو ہزاروں دعائیں دی ہوگی۔ ڈیڑھ دو سو بے روزگار بھی پکڑ کر لائے گئے اور انہیں فی کس دو دو سو روپے دیئے گئے۔ چلئے، یہ تو ہوا کہ ڈیڑھ دو سو بے روزگاروں کی بے روزگاری عرصہ ایک یوم کے لئے معطل رہی۔ راجہ رینٹل انتخابی مہم میں کہہ سکتے ہیں، ہم نے بے روزگاروں کو روزگار دیا۔ ثبوت کے طور پر اس کارنر میٹنگ کا حوالہ دے سکتے ہیں۔
______________________
ممتاز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا ہے کہ ایٹم بم نہ ہوتا تو بھارت ہمارا حشر نشر کر دیتا۔
ایسا ہی ہے، بھارت کی طرف سے ہمارے حشر نشر کا شدید خطرہ موجود تھا جو ایٹمی دھماکوں نے ختم کر دیا۔ مطلب بھارت کی طرف سے خطرہ ختم کر دیا لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ فائنل ڈیسٹی نیشن طے ہوتی ہے، ہمارا حشر نشر تو پھر بھی ہو کر رہا۔ بھارت نے نہیں کیا، ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پہلے کارگل، پھر 12اکتوبر کرکے کر دیا اور پھر8سال کی دھماچوکڑی میں سر سبز کھیت بھس بھرا کھلیان بنا دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا، 1971ء میں پاکستان ایٹم بم نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹا۔ یہ بات کوئی کیسے مان لے۔ 1971ء میں پاکستان بھارت نے توڑا تھا یا اسٹیبلشمنٹ نے ایک جاگیردار سے ملی بھگت کرکے دو لخت کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب خود ہی انصاف فرما دیں۔
______________________
دفتر خارجہ کے ترجمان نے لندن میں ایم کیو ایم کے دفاتر پر چھاپے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ خیال رکھے کہ متحدہ ایک سیکولر پارٹی ہے۔
چھاپے کا تعلق ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل سے تھا۔ دفتر خارجہ کا متحدہ کے بارے میں اضطراب سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن سیکولرزم کی دہائی انوکھی بات ہے۔ دفتر خارجہ کے جس اہلکار نے یہ بیان جاری کیا اسے یا پھر اسے جس کے کہنے پر جاری کیا کوئی یہ بتا دے کہ پاکستان سیکولر ملک نہیں اور نہ ہی اسے سیکولر بنایا جا سکتا ہے۔ طاقت کے مراکز میں ان دنوں آئین پر ہاتھ صاف کرنے کا کا خیال انگڑائی لے رہا ہے تاکہ پاکستان کے نام کے ساتھ جڑے ہوئے اسلامی جمہوریہ کے الفاظ سے نجات حاصل کی جا سکے لیکن یہ آسان نہیں۔ بیان جاری کرنے والے یا کرانے والے حضرت کو سیکولرزم کی اتنی چاہت ہے تو اسے چاہئے کہ پاکستان چھوڑ دے اور پڑوسی ملک جا براجے ۔ وہاں اسے ایسا منصب تو ملنے سے رہا جو یہاں اس کے قبضے میں ہے لیکن کسی نیتا کے گھر کا چوکیدار ہ تو مل ہی جائے گا۔
اور ہاں۔ پاکستان میں ایسی کوئی جماعت، تنظیم یا بااثر شخص نہیں ہے جو دفتر خارجہ کے اس بیان پر عدالت سے رجوع کرنے کا سوچے؟
______________________
آصف زرداری نے قاف لیگ سے کہا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن تیر کے نشان پر لڑے۔ قاف لیگ کا موقف ہے کہ پیپلزپارٹی کے مفاد میں قاف لیگ کا الگ سے الیکشن لڑنا ضروری ہے (تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ کم سے کم ایک مسلم لیگ پیپلزپارٹی کے ساتھ ہے ) تیر کا نشان لیا تو الگ مسلم لیگ نظر نہیں آئے گی اور پیپلزپارٹی ہار جائے گی۔ چودھری برادران کی پیپلزپارٹی سے یہ ’’پر خلوص‘‘ عقیدت اپنی جگہ لیکن بات زرداری کی درست ہے۔ دونوں ہم خیال، ہم جگال، ہم مسلک، ہم مشرب اور ہم ماضی وہم مستقبل جماعتوں کو ایک ہی نشان پر الیکشن لڑنا چاہئے۔نشان کا کیا ہے، تیر نہ سہی، گنڈا سا سہی۔

(عبداللہ طارق سہیل کا کالم۔ نئی بات 12 دسمبر 2012 ء)
 
زبردست کالم لکھا ہے۔۔۔لیکن بہرے کانوں ، اندھی آنکھوں ، مہر کئے ہوئے دلوں ، تاریک دماغوں اورمردہ ضمیروں کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہونے والا۔۔۔:cautious:
 

عاطف بٹ

محفلین
عبداللہ صاحب بہت اچھا تجزیہ کرتے ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسی باتیں اخبارات کے صفحات میں ہی پڑی رہ جاتی ہیں، ان پر سوچ بچار کر کے کوئی مؤثر پالیسی نہیں بنائی جاتی!
 
Top