وطن میں غریب کی عید، غریب الوطن سے اچھی

عندلیب

محفلین
وطن میں غریب کی عید، غریب الوطن سے اچھی

ایسے لگتا ہے جیسے کل ہی کی بات ہے ۔ بچپن کی عیدیں ہی تو اصل میں عید کا مزہ لئے ہوتی ہے اب سوچتے ہیں تو منہ میں پانی آجاتا ہے ۔ عید سے ہفتہ دس دن پہلے ہی عید کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں ۔
عید کے لئےکپڑے اور جوتے لینے کے لئے بازاروں کے چکر شروع ہوجاتے ہیں اور ٹیلر ماسٹروں کی دکانوں میں بھی اک عجیب طرح کا رش ہوتا ہے ۔ بازاروں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی ۔ چوڑیوں کی دکانیں بھی سجا لی جاتی ہیں ۔ گوکہ چوڑیوں کی خرید و فروخت چاند رات کو ہی مزہ دیتی ہیں مگر دور دراز کے علاقوں سے آنے والی عورتیں پہلے ہی چوڑیاں او مہندی خریدنے میں لگ جاتی ہیں ۔
منچلے نو جوان چاند رات کا بڑی شدت سے انتظار کرتے ہیں ۔ اس رات کو بازاروں کی رونق دیکھنے لائق ہوتی ہے ۔ چاند رات کو ہمیں ٹھیک طرح سے نیند بھی نہیں آتی تھی ۔ ابھی ٹھیک سے سوئے بھی نہیں ہوتے کہ امی کی آواز کان مین پڑتی کہ اٹھو فجر کی نماز کے بعد عید کی نماز پڑھنے کے لئے بھی جانا ہے ۔
نہا کر نئے کپڑے پہنتے ۔ نماز فجر کے بعد عید گاہ جاتے ۔ نماز پڑھ کر دعائیں مانگ کر واپس آتے ۔
قربانی کے بکرے کو چند روز تو گھر میں ہی رکھا جاتا ہے ۔ اسے دانہ پانی کھلانے اور گلی میں لے کر گھومنے میں بڑا لطف آتا ہے ۔
ہم دوستوں کو دکھاتے کہ ہمارے ابو قربانی کے لئے بکرا لے آئے ہیں ۔ پھر جب عید کے روز بکرا ذبح ہوتا تو ہمیں اس کی جدائی کا افسوس ہوتا۔

عیدین پر اکثر نماز عید سے فارغ ہو کر ہی دوست احباب سے ملنے جاتے ہیں ۔ ہر گھر میں بچے بڑوں سے عیدی مانگنی شروع کر دیتے ہیں ۔ کہیں سے پلاؤ کی خوشبو آتی ہے اور کہیں سے گوشت کے بھننے کی ۔ کسی گھر سے زردہ پکنے کی مہک آرہی ہوتی ہے ۔
پھر خاندان کے خاندان عزیز واقارب سے عید ملنے کے لئے آتے جاتے نظر آتے ہیں ۔ ہر کسی کے چہرے پر خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی ہیں ۔ یہاں تک کہ غریب بھی اپنی کٹیا میں عید کی خوشیوں میں مگن نظر آتا ہے۔

یہاں ہم پردیس میں عید کے دن عام دنوں کی نسبت زیادہ پریشان و غمزدہ ہوتے ہیں ۔ یہاں نہ بازاروں کے چکر لگے ہیں اور نہ ہی عید کی کوئی خاص تیاری ہوتی ہے ۔عید کی صبح نماز فجر کے بعد عید گاہ چلے جاتے ہیں ۔ نماز عید سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں آتے ہیں ۔ تنہائیاں ہمیں چاروں طرف گھیرنے لگتی ہیں ۔ فون پر اگر گھر والوں سے بات ہوجائے تو دل میں اک عجیب سی ہوک اٹھتی ہے یہاں نہ کوئی عزیز ہے ۔ اکثر تارکین وطن کا نہ کوئی رشتہ دار ہوتا ہے نہ عزیز کہ جس سے جا کر عید ملی جائے ۔
ہفتہ بھر کے کپڑے انھیں فرصت کے دنوں میں دھوئے جاتے ہیں کیونکہ پھر کل سے ڈیوٹی پر جانا ہے ۔ ہم تو چند دوستوں سے عید ملنے کے بعد کمرے میں آکر سو جاتے ہیں ۔ جب آنکھ کھلتی ہے توعید جیسے آئی تھی ویسے ہی چپکے سے جا چکی ہوتی ہے ۔
یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ وطن میں کسی غریب کی عید ، غریب الوطن سے اچھی ہوتی ہے ۔

۔۔۔ وکیل احمد محبوب ، الخفجی (سعودی عرب)
 

قیصرانی

لائبریرین
اکثر غیر مسلم ملکوں میں تو اور بھی عجیب ہوتا ہے کہ عید کے دن بھی دفتر یا کاروبار پر جانا پڑتا ہے :(
 

arifkarim

معطل
ہمم، خیر ملک ملک کا فرق ہوتا ہے۔ یہاں ناروے میں ہماری پاک کمیونیٹی تو بالکل پاکستان کی طرح عید مناتی ہے۔ آج ہمارا گھر مہمانوں یا یہ کہیے کہ بچوں سے بھرا ہوا تھا۔ کچھ بچوں نے تو میرےکمرے پر ایسا قبضہ کیا کہ میں خود بھی یہاں داخل نہ ہو سکا۔ :)
کچھ دنوں میں‌عید پارٹی کا اہتمام ہے جہاں تمام پاکستانی گھروں کو مدعو کیا گیا ہے!
 
Top