وسیم قیصر کی کتاب مٹھی بھر جیون پر تبصرہ

مغزل

محفلین
مُٹھّی بھر جیون

زندگی کے دُکھوں سے شاعری کشید کرنے والے،خاک اوڑھ کر سونے والے کی چمکتی یادوں کا سرمایہ ہے 18جون1953ءکو خاک ِ شمس پر جنم لینے والے رنج و آلام کی گرد کو حرز جاں بنائے ملتان کے سرد و گرم چشیدہ وسیم قیصر مٹھی بھر جیون گزارکے۱۱دسمبر۲۰۰۲ءکو اسی خاک کو اوڑھ کر سوگئے اور اپنی چمکتی ہوئی یادوں کا سرمایہ اپنے چاہنے والوں کے ذہن و قلب کو شاعری کی صورت میں سونپ گئے۔خوش قسمت ہیں ان کے ادبی جانشین نوشاد قاصر کہ باوجود مرحوم کی بیوہ اور وارثان کی غفلت کے جنہوں نے کلام قیصر کو تلف کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی پھر بھی ان کی مرحوم سے قلبی وابستگی کے باعث اب ہمارے سامنے مٹھی بھر جیون کتاب کی صورت میں موجود و محفوظ ہے۔
ضوریز پبلی کیشنز،اردوبازار،ملتان کے زیراہتمام شائع شدہ 144 صفحات کے اس مجموعے میں شاعر،کالم نگار اور آرٹسٹ ممتاز اطہر کے دل نشین علامتی سرورق اور پشت ورق پر ان کی مبسوط و مثبت رائے ،ناشر و مرتب کی عرضداشت،ریڈیو پاکستان ملتان کے کنٹرولر ہوم اور شاعر جناب علی تنہا،محمد سلیم قیصراور روزنامہ نوائے وقت ملتان کے احمد رضوان کے تعارفی مضامین کے ساتھ ہی وسیم قیصر کی نعت، غزلوں، گائے جانے والے گیتوں،سرائیکی گیت اور 38 متفرق اشعار [برگ برگ]بھی ملتے ہیں ۔
وسیم قیصر نے جن کا خاندانی نام عبدالستار تھا آغاز میں ریڈیو اور فنکشن کے لیے گیت لکھے تو ساغر تخلص پسند کیا بعد میں وسیم قیصر کے نام سے دبستان ملتان میں اپنی شناخت قائم کی اور خود کو منوایا۔شاعری اور موسیقی کے لیے جوانی کے ایام میں ریاضت نے سلسلہِ تعلیم منقطع کروادیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ معاش کے اندوہ ناک طوفان میں بکھر کے رہ گئے1980 ءتا1990ءملتان کی شعری فضا میں اس کا نام ابھرتے ہوئے اور ازاں بعد معروف شعراءکے ساتھ نمایاں رہا۔حزیں قادری،قتیل شفائی کی صحبت و قربت نے اسے گیت نگاری پر اکسایا دو چار گیت ریڈیو پر گائے گئے پرویز مہدی،غلام عباس،سلیم گردیزی اور استادحسین بخش ڈھاڈی کی سنگت اسے ملی مگر زندگی کی تلخ کامیوں اور ازدواجی زندگی کے ناقابل بیان مسائل نے اسے جذبات کے بھرپور اظہار کے مواقع کم ہی دیے جس کا مرحوم کو احساس بھی رہا۔فیض صاحب،ناصر کاظمی سے عبیداللہ علیم تک اس نے غزل سرا شاعروں اور مجید امجد،ساحر لدھیانوی و قتیل شفائی کی نظموں اور گیتوں کا تتبع کیا۔ آخر میں اپنی آواز اور اپناانداز بیان الگ کرکے خود کو اردو و سرائیکی شاعری کا گیت نگار منوایا ۔ جدت و نئے پن کے ساتھ درد کی ایک زیریں لہر اس کی شاعری میں بآسانی محسوس کی جاسکتی ہے۔

میرے اندر اتر گئے چپ چاپ
دکھ جہنم کے موسموں کی طرح

میں نے ہنس کر گزاردی قیصر
زندگانی اپاہجوں کی طرح

بہت یاد آئے زمانے کے تیور
تری مہربانی بہت یاد آئی

لبوں پہ قرض تھا اک دن ادا تو ہونا تھا
میں ایک لفظ تھا مجھ کو صدا تو ہونا تھا​

مطالعہ : سید انور جاوید ہاشمی،کراچی 26 فروری 2009ء
 

الف عین

لائبریرین
کنورٹر غلط استعمال کرتے ہو تو کم از کم تدوین تو کرنی تھی محمود۔۔ ویسے اس کو ’سمت‘ میں لے لیتا ہوں۔ مگر یہ تمہاری نام سے ہے یا انور ہاشمی صاحب کے نام سے دیا جائے؟
 

مغزل

محفلین
کنورٹر غلط استعمال کرتے ہو تو کم از کم تدوین تو کرنی تھی محمود۔۔ ویسے اس کو ’سمت‘ میں لے لیتا ہوں۔ مگر یہ تمہاری نام سے ہے یا انور ہاشمی صاحب کے نام سے دیا جائے؟


بابا جانی ، غلطی ہوگئی ۔ میں نے مدون کرلیا ہے ۔
اسے سید انور جاوید ہاشمی کے نام سے سمت میں شامل کیجیے گا۔
میں تو صرف پیش کار ہوں۔والسلام
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ مغل صاحب!
آخری سطر میں‌تاریخ کے ہندسوں کی ترتیب ( ۶۲ فروری ۹۰۰۲ء ) توجہ کی طلب گار ہے۔
 
Top