وزیراعظم نےاکانومک ایڈوائزری کونسل قائم کر دی: معروف ماہر اقتصادیات عاطف میاں کونسل کا حصہ ہوں گے

جاسم محمد

محفلین
آپ کا مطلب ہے کہ صرف ایک عاطف میاں ہی اقتصادی کونسل کی کامیابی کی ضمانت تھے؟
کونسل ان کے بغیر بھی چل سکتی ہے۔ البتہ ملک کو درپیش معاشی اور اقتصادی بحران سے متعلقہ ان جیسی قابلیت اور کسی کے پاس نہیں۔ کیونکہ ان کا معاشیات میں شعبہ مہارت بالکل وہی ہے جس کا پاکستان کئی دہائیوں سےشکار ہے۔ یعنی مسلسل بڑھتا بیرونی قرضہ، اندرونی گردشی قرضے اور ان قرضوں کے سود کی اقساط۔ جسے اداکرنے کیلئے اور قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اباواجداد کا کیا تعلق؟
قادیانیوں کو بعض مخالفین ان کے اباؤ اجداد کا حوالہ دے کر طعنہ دیتے ہیں کہ وہ ملک سے مخلص نہیں۔ ان کی حب الوطنی مشکوک ہے۔ ان طعنہ دینے والوں کے اباؤ اجداد تحریک پاکستان کے وقت کیا کرتے رہے۔ وہ کوئی بتانے کی جرات نہیں کرتا۔
 

زیک

مسافر
کونسل ان کے بغیر بھی چل سکتی ہے۔ البتہ ملک کو درپیش معاشی اور اقتصادی بحران سے متعلقہ ان جیسی قابلیت اور کسی کے پاس نہیں۔ کیونکہ ان کا معاشیات میں شعبہ مہارت بالکل وہی ہے جس کا پاکستان کئی دہائیوں سےشکار ہے۔ یعنی مسلسل بڑھتا بیرونی قرضہ، اندرونی گردشی قرضے اور ان قرضوں کے سود کی اقساط۔ جسے اداکرنے کیلئے اور قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔
پاکستان کا مسئلہ معاشیات کی لاعلمی کبھی بھی نہیں رہا
 
یہ عجیب الزام ہے۔ آئین میں خاص احمدیوں کے خلاف ایک دفعہ شامل کی جاتی ہے تو ہر کسی کو اس سے اختلاف کا حق ہے۔ اس کا یہ مطلب کسی طور نہیں نکلتا کہ وہ آئین کو ہی تسلیم نہیں کرتے

یہ دفعہ نہ تو یکطرفہ طور پر شامل کی گئی تھی اور نہ ہی ان کا موقف سنے بغیر آئین میں شامل ہوئی تھی۔ بنیادی عقائد کا اختلاف مثلا۔
نبوت کا جاری ہونا یا نہ ہونا اور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بعد کسی نبی کا آسکنا یا نہ آسکنا۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں محمد سے مراد۔
احمدیوں کے علاوہ تمام مسلمانوں کی ان کی نظر میں کافرانہ حیثیت اور احمدی عقائد کے علاوہ تمام مسلمانوں کے کافر ہونے کا عقیدہ۔
ایک ہی شخص کا خودہی مریم اور ابن مریم - امام مہدی اور نبی ہونے کا دعویٰ اور اس کے پیروکاروں کا اسے عقیدہ ماننا۔
مرزا غلام قادیانی کو محمد سے بڑھ کر ماننا
تذکرہ کے نام سے ایک الگ کتاب کا وجود اور اس کتاب کی الہامی حیثیت پر ان کا ایمان

اور بھی بہت سے ایسے عقائد ہیں جو بنیادی اسلامی عقائد سے متصادم ہیں اگر اجازت ہو تو ان کی بنیادی اور ان کے مذہبی پیشوا کی اپنی کتابوں کے سکینز یہاں لگائے جا سکتے ہیں جنہیں دیکھ پڑھ کر اور باقاعدہ تصدیق کر کے آپ اپنی مرضی کے عالم سے انکے متعلق سوال بھی کر سکتے ہیں۔ اور اگر یک طرفہ ہونے کا شک ہو تو اسی فورم پر اسمبلی کی کاروائی شیئر کی جا سکتی ہے جسے دیکھ کر یک طرفہ ہونے کا الزام اپنی حقیقت خود بتا دے گا۔

قادیانیوں کو بعض مخالفین ان کے اباؤ اجداد کا حوالہ دے کر طعنہ دیتے ہیں کہ وہ ملک سے مخلص نہیں۔ ان کی حب الوطنی مشکوک ہے۔ ان طعنہ دینے والوں کے اباؤ اجداد تحریک پاکستان کے وقت کیا کرتے رہے۔ وہ کوئی بتانے کی جرات نہیں کرتا۔
آباؤاجداد اور مذہبی رہ نما میں فرق ہوتا ہے۔ آباء و اجداد کے طعنے کہیں نہیں دیئے جاتے البتہ انکے نام نہاد نبی کے خلفاء کے بیانات اور اپنی امت کو احکامات اس بات پر مہر ثبت کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے نہ تو مخلص ہیں اور نہ ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جب ایک ایسا شخص جسے آپ مامور من اللہ بھی سمجھتے ہوں ۔ اپنے نبی کا نائب بھی سمجھتے ہوں اور جس کا حکم آپ کے لیئے فائنل اتھارٹی ہو اس کی بات آپ کے آباؤاجداد جیسی نہیں ہو سکتی ۔ قادیانیوں کے خلیفہ سے غیر مشروط اور غیر قابل تقسیم وفاداری ان کے حلف رکنیت کی شرائط میں شامل ہے۔ جو اب تک آنے والے تمام کے تمام بشمول موجودہ خلیفہ کے یہ ثابت شدہ امر ہے کہ وہ پاکستان کے مخالف ہیں اور ان کے احکامات پر ہی قادیانی نہ تو اپنا مذہب ظاہر کرتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے ظاہر کرنا ہی پڑے تو پاکستان کے سیاسی نظام میں حصہ نہیں لیتے اور مسلسل ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں
 
آخری تدوین:

ابوعبید

محفلین
5 سال بعد بھی تحریک انصاف کی حکومت سےپوچھیں گے کہ حکومت نےاپنے دور اقتدار میں کیا کیا تو متوقع جواب یہ ہو سکتا ہے ۔

عاطف میاں کو تو ٹیم میں شامل نہیں ہونے دیا ۔:eek:
 

الف نظامی

لائبریرین
مسٹر جاسم المعروف مرزا حنیف المعروف کاف سین حقیقت میں عارف کریم کا پروپگنڈا فیل ہوا ، دلی خوشی ہوئی کہ عمران خان بلیک میل نہیں ہوا۔
تکڑا ہوجا عمران خان سارے طالبان تیرےساتھ ہیں اور بنیاد پسند بنو! شاباش زندہ باد اوپڑ دی اینکس دی گڑ گڑ
 

الف نظامی

لائبریرین
مرزاے قادیاں کی نظر میں مسلمانوں کی حیثیت
"دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سےبڑھ گئیں!"(نجم الھدیٰ،ص10)
 

ابوعبید

محفلین
مرزاے قادیاں کی نظر میں مسلمانوں کی حیثیت
"دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سےبڑھ گئیں!"(نجم الھدیٰ،ص10)

قادیانیوں کا یہ عقیدہ اور نظریات تمام مسلمانوں لیے ہے ۔۔ جو انہیں مسلمان تسلیم نہیں کرتے ۔
 

ابوعبید

محفلین
اس معاملے میں یہ بھی کہیں پتہ چلا تھا کہ عاطف میاں صحب پہلے مسلمان تھے پھر قادیانی مذہب قبول کیا ۔ اس تبدیلی کے کیا مضمرات اور امکانات تھے انوں نے ایسا کیوں کیا اس اس سے انہیں کیا حاصل ہوا۔اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا عین ممکن ہے کہ یہی باتیں ان تحفظات کی وجہ بنیں جس پر اتنا واویلا ہوا کہ فیصلہ واپس لینا پڑا ۔ لیکن اس پر شاید تفصیلی بات کہیں نہیں ہوئی۔
متفق عاطف بھائی سے ۔
ویسے عاطف میاں کے طرفداروں سے سوال ہے کہ جس کی علمی قابلیت اور ذہانت پہ لکھ لکھ کے صفحے کالے کر دئیے ہیں اس کی علمی قابلیت اور ذہانت تب کہاں تھی جب اس نے قادیانیت اختیار کی ؟؟
کوئی بھی معمولی عقل رکھنے والا انسان مرزا قادیانی کی زندگی اور تعلیمات کا مطالعہ کر کے اس پہ چار حرف تو بھیج سکتا ہے لیکن اس پہ ایمان نہیں لا سکتا ۔۔
جس کی وجہ مرزا قادیان کی مضحکہ خیزیاں اور عقل و دانش سے کوسوں دور اس کے تجربات اور اس کی تعلیمات ہیں ۔ مرزا کو خود بخود حمل ٹھہرنے سے لے کر اس کے گُڑ کھانے کے واقعات تک ہر چیز بے وقوفی اور جھوٹ سے بھری ہوئی ہے ۔
تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ میاں عاطف نے قادیانیت تحقیق کرنے کے بعد نہیں بلکہ کسی لالچ اور مفاد کی خاطر قبول کی ۔ اب ایک لالچی اور مفاد پرست انسان کس حد تک قابل ِ بھروسہ ہو سکتا ہے ؟؟
 

زیک

مسافر
متفق عاطف بھائی سے ۔
ویسے عاطف میاں کے طرفداروں سے سوال ہے کہ جس کی علمی قابلیت اور ذہانت پہ لکھ لکھ کے صفحے کالے کر دئیے ہیں اس کی علمی قابلیت اور ذہانت تب کہاں تھی جب اس نے قادیانیت اختیار کی ؟؟
کوئی بھی معمولی عقل رکھنے والا انسان مرزا قادیانی کی زندگی اور تعلیمات کا مطالعہ کر کے اس پہ چار حرف تو بھیج سکتا ہے لیکن اس پہ ایمان نہیں لا سکتا ۔۔
جس کی وجہ مرزا قادیان کی مضحکہ خیزیاں اور عقل و دانش سے کوسوں دور اس کے تجربات اور اس کی تعلیمات ہیں ۔ مرزا کو خود بخود حمل ٹھہرنے سے لے کر اس کے گُڑ کھانے کے واقعات تک ہر چیز بے وقوفی اور جھوٹ سے بھری ہوئی ہے ۔
تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ میاں عاطف نے قادیانیت تحقیق کرنے کے بعد نہیں بلکہ کسی لالچ اور مفاد کی خاطر قبول کی ۔ اب ایک لالچی اور مفاد پرست انسان کس حد تک قابل ِ بھروسہ ہو سکتا ہے ؟؟
تمام مذاہب میں کچھ باتیں بالکل خلاف عقل ہوتی ہیں۔ اس مذہب کے پیروکار ان کی توجیہات نکال لیتے ہیں اور دوسرے لوگ حیران ہوتے ہیں۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں
 

ابوعبید

محفلین
تمام مذاہب میں کچھ باتیں بالکل خلاف عقل ہوتی ہیں۔ اس مذہب کے پیروکار ان کی توجیہات نکال لیتے ہیں اور دوسرے لوگ حیران ہوتے ہیں۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں
کچھ ضرور ہو سکتی ہیں ۔ لیکن تمام نہیں ۔ قادیانیت میں تو سر سے پاؤں تک یہی عالم ہے ۔
 
عاطف میاں ۔۔۔ پہلا اوور مکمل ہوا، کھیل جاری ہے
آصف محمود

عاطف میاں کی تقرری کا فیصلہ واپس ہونا ہی تھا ، ہو گیا ۔ دل میں مگر جو بال آ گیا ہے اس کا کیا کریں ؟ اعتبار کے موسم کتنے نا معتبر ہوتے ہیں ؟

لوگ خوش ہیں کہ فیصلہ واپس ہو گیا ۔ کچھ ایسے سادہ لوح بھی ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ فیصلہ واپس لینے پر عمران خان کی بصیرت کے اعتراف میں اول بغلیں بجائی جائیں پھر ان کی دانائی اور مومنانہ فراست کے قصیدے لکھے جائیں ۔ کاش میں ان دونوں میں سے کسی ایک بے وقوفی کا متحمل ہو سکتا ۔

خوشی کس بات کی ؟ سیدنا علیؓ نے فرمایا تھا : اقتدار آدمی کو بدلتا نہیں ، بے نقاب کر دیتا ہے ۔ دس دنوں میں یہاں نقاب اتر گئے ہیں تو کیا یہ خوش ہونے کا مقام ہے ؟ فیصلہ واپس ہوا ہے تو ان نابغوں کی بصیرت کی وجہ سے نہیں ، خلق خدا کی وجہ سے جس نے اس نا مبارک فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

مجھے اس بات سے بھی اتفاق نہیں کہ حکومت پسپا ہو گئی ۔ ہر گز وہ پسپا نہیں ہوئی اس نے صرف پینترا بدلا ہے ۔ وہ کسی بھی وقت ، کسی بھی محاذ پر کوئی نیا معرکہ شروع کر سکتی ہے ۔ معاملہ ختم نہیں ہوا یہ پہلا اوور تھا جو مکمل ہوا ۔

یہ بد گمانی بے سبب نہیں ۔ عاطف میاں کا فیصلہ اچانک نہیں ہوا کہ اسے محض ایک غلطی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے ۔ یہ عمران خان کا شعوری فیصلہ ہے ۔ یہ نام آپ کو یاد ہو گا چند سال پہلے سامنے آیا جب عمران خان نے کہا جیت گیا تو عاطف میاں ان کی ٹیم کا حصہ ہوں گے ۔ شور مچا تو کہا میں تو عاطف کو جانتا تک نہیں ، کسی میگزین میں نام پڑھا کہ بہت بڑے ماہر معیشت ہیں تو میں نے یہ بات کہہ دی ۔لازم تھا کہ اس ابتدائی رد عمل کے بعد عمران محتاط رہتے ۔ لیکن انہوں نے اس کے باوجود عاطف کو چنا کہ وہ جانتے تھے یہ سماج اس معاملے میں کتنا حساس ہے۔ اس لیے اسے ایک شعوری فیصلہ سمجھا جائے گا۔

میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ اس فیصلے کا مقصد معیشت کی بہتری نہیں تھا ۔مشیروں کی بارات اکٹھی کر کے تماشا تو لگایا جا سکتا ہے ، معیشت بہتر نہیں ہوا کرتی ۔ اس کا مقصد سماج کے اندر قادیانیوں کے بارے میں موجود حساسیت کو ختم کرنا تھا ۔

موقع بھی بہت اچھا تھا ۔ عمران کی حکومت تھی جو مذہبی طبقے سے بے نیاز تھی ۔ ایم ایم اے میں شامل دو نمایاں مذہبی جماعتوں کے ساتھ تحریک انصاف کے تعلقات شدید تلخ ہو چکے تھے ۔ تحریک انصاف کا کارکن فضل الرحمن اور سراج الحق کے بارے میں نا پسندیدگی رکھتا ہے اور مولانا کے بارے تو بہت شدید ۔ شاید یہ سوچا گیا ہو کہ مذہبی سیاست سے بے زار کارکن اس معاملے میں بھی عمران خان کے فیصلے کے ساتھ کھڑا ہو گا ۔ جزوی طور پر ایسا ہوا اور ہم نے دیکھا کہ عمران کی محبت میں چند احمقوں نے اس فیصلے کی بھی تحسین کر دی لیکن مجموعی طور پر تحریک انصاف کے وابستگان نے اس فیصلے کو شدت سے ٹھکرا دیا ۔ خود پارٹی کے اندر سے ایسی آوازیں اٹھیں کہ قیادت ششدر رہ گئی ۔ بے بسی میں اسے فیصلہ واپس لینا پڑا ۔ اس سے مطمئن ہونے کی ضرورت ہے نہ خوش ہونے کی ۔

عمران کو معلوم تھا پاکستان میں ختم نبوت کا معاملہ کتنا حساس ہے ۔ پھر بھی یہ فیصلہ سامنے آتا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ کیا کوئی رہنما صرف ایک عاطف میاں کی خاطر اتنا نامقبول فیصلہ کر سکتا ہے؟ مسلم لیگ کے رہنما اس فیصلے کی تائید میں سامنے آ گئے ، کیا آپ کے خیال میں یہ اتفاق ہے؟ شرافت کی صحافت کے کارندے اس فیصلے کی پشت پر کھڑے ہو گئے، کیا یہ بھی ایک اتفاق سمجھا جا سکتا ہے؟ این جی اوز کے کارندے جو عام حالات میں عمران کے شدید مخالف تھے اسے اکسانے لگ گئے کہ نیا پاکستان بنانا ہے تو فیصلے پر ڈٹ جاؤ ، کیا یہ بھی اتفاق سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے ۔ ان مختلف قوتوں میں عاطف میاں کے معاملے پر یہ مثالی یکجہتی بتا رہی ہے کہ بات اتنی سادہ نہیں ۔ پاکستان پرانا ہو یا نیا ، بین الاقوامی قوتوں کے دباؤ پر سبھی شرمناک فیصلے کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں ۔

عمران خان نے اپنا سارا بانکپن گنوا دیا ۔ اب وہ بھی اتنا ہی مشکوک ہے جتنا کوئی اور حکمران۔ اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی اور ختم نبوت کے معاملے پر بیدار رہنا ہو گا ۔آخری تجزیے میں حکمران نہیں یہ عوام ہیں جنہیں اپنی مبادیات کا تحفظ کرنا ہے۔

میڈیا کے بارے میں بھی غلط فہمی دور کر لیجیے کہ یہ ریاست کا چوتھا ستون ہے ۔ یہ ایک کارپوریٹ میڈیا ہے جو ایک خاص کلچر کو فروغ دینے کا سبب بن رہا ہے۔ ، جناب ارشاد عارف , جناب ہارون رشید اور برادر مکرم عامر خاکوانی (اور خود آصف محمود صاحب) پر اللہ کی رحمتیں ہوں، ان کے علاوہ کون ہے جو اس واردات پر بولا ؟ ذاتی مفادات پر دیوان لکھ دینے والے جب ختم نبوت کا معاملہ آتا ہے تو گونگے شیطان بن جاتے ہیں تو یہ بے سبب نہیں ۔ یہ فکری پسپائی ہے۔ ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ اسلامی اقدار یا تصورختم نبوت کے حق میں لکھنے والا روشن خیال نہیں رہتا ۔ اسے انتہا پسند کہا جاتا ہے۔ اور یہ وہ طعنہ ہے جس کے ڈر سے لوگ گونگے بہرے اور اندھے بن چکے۔

میدان سج چکا ۔ عملی اقدامات بھی ہو رہے ہیں اور فکری یلغار بھی ہو چکی ۔ دین کو کوئی گالی دے یہ اظہار رائے کی آزادی ہے اور کوئی آگے سے احتجاج کرے تو یہ انتہا پسندی ۔ آپ اچھی طرح جان لیں جب تک آپ ہم جنس پرستی کو تسلیم نہیں کر لیتے، توہین رسالت جیسے جرم پر خاموش نہیں رہنا سیکھ لیتے ، اسلام اور اسلامی اقدار سے یکسر بے نیاز نہیں ہو جاتے تب تک آپ کو روشن خیالی کی سند نہیں ملے گی۔ اس سند سے بے نیاز ہو کر پوری قوت سے بروئے کار آنا ہو گا۔

مذہبی جماعتوں کا وجود بھی آخری تجزیے میں اس ملک کے لیے خیر کی علامت ہے ۔ ان کی قیادت کا نامہ اعمال بھی کچھ شاندار نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی جملہ خامیوں کے باوجود جب میدان سجتا ہے اور حکومتیں ہماری اساس پر حملہ آور ہو کر فیصلے کرتی ہیں تو یہی جماعتیں ہیں جو میدان میں آتی ہیں ۔ پریشانی جب بڑھتی ہے تو عام آدمی انہی کی طرف دیکھتا ہے ۔

عمران خان کو جانے مقبولیت کا زعم تھا یا بیرونی دباؤ زیادہ تھا لیکن جو بھی تھا انہوں نے اپنا بانکپن گنوا دیا ۔ ان کی بصیرت اور دیانت دونوں پر سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ معاشرے کو سکون کی ضرورت ہے ان کے غلط فیصلے سے اسے اضطراب سے دوچار کر دیا ۔ قیامت کو بھی قیادت پڑھنے والے بتائیں ، کیا قیادت اسی کا نام ہے؟ قیادت کو اگر معلوم ہی نہیں ختم نبوت کے معاملے پر سماج کی حساسیت کا عالم کیا ہے تو اس کی بصیرت پر سوال اٹھتا ہے اور اگر وہ اس حساسیت سے آگاہ ہونے کے باوجود بیرونی دباؤ پر اپنے ملک کو ذہنی اذیت اور اضطراب سے دوچار کر دے تو اس کی دیانت سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تمام مذاہب میں کچھ باتیں بالکل خلاف عقل ہوتی ہیں۔ اس مذہب کے پیروکار ان کی توجیہات نکال لیتے ہیں اور دوسرے لوگ حیران ہوتے ہیں۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں
اور ایک "عقل" وہ بھی ہوتی ہے جو ہر مذہب کے ہی خلاف ہوتی ہے ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
قادیانی مسئلے پر سیکولر بیانیہ
(زاہد مغل)

لبرل سیکولر فکر چونکہ فرد کی آزادی کے عقیدے پر ایمان کی دعوت دیتی ہے لہذا اس فکر کے مطابق ریاست کو حق نہیں کہ وہ آزادی کے سواء کسی دوسرے عقیدے کی بنیاد پر یا اس کے فروغ کے لئے افراد کی زندگیوں میں تصرف کرے۔
اس فکر کے مطابق ھیومن رائیٹس وہ قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے جو فرد کی جدوجہد آزادی (سرمایہ) کے فروغ کے لئے سب سے زیادہ مفید ہے۔ لہذا اس فکر کے حامل حضرات کے نزدیک کسی بھی ارادے، چاہے وہ ارادہ خدا کا ہو، فرد کا اور یا کسی گروہ کا (مثلا سو فیصد عوام کا) کو یہ حق نہیں کہ وہ ان حقوق کو معطل کرسکے۔ ہر ارادے پر لازم ہے کہ وہ تنویری مفکرین (enlightenment philosophers) کے وضع کردہ نظریات سے برآمد ہونے والے ان حقوق کی پابندی کرے، ان سے متصادم ہر ارادہ و رائے ظلم و قابل تنسیخ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس نظریاتی فریم ورک کی رو سے کسی ریاست کا غیر ھیومن رائٹس فریم ورک کی بنیاد پر کسی شخص کو کافر قرار دے کر اسے چند ھیومن رائٹس سے محروم کرنا زیادتی ہے۔

چنانچہ پاکستان کے سیکولر طبقات قادیانی مسئلے کو اس بنیاد پر ایڈریس نہیں کرتے کہ انہیں قادیانیوں کے غیر مسلم قرار دئیے جانے سے کوئی علمی مسئلہ لاحق ہے یا وہ انہیں مسلمان قرار دینا چاہتے ہیں، ان کی فکر کی رو سے بھلے سب ہی مسلمان کافر ہوجائیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ کافر یا مسلمان ہونا مساوی طور پر لغو بات ہے۔ ان کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ ریاست نے کسی ایسی فکر کی بنیاد پر فیصلہ ہی کیوں کیا جو ان کی شریعت یعنی ھیومن رائٹس سے متصادم ہے؟​

اس بیان پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ بیانیہ بعینہہ اسی نوعیت کا ایک مذھبی بیانیہ ہے کہ "ریاست کو یہ حق نہیں کہ وہ اسلامی شریعت کے خلاف کوئی قانون وضع کرے، اس پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی پابندی کرے"۔ دوسری بات یہ کہ اسلام تو یہ مطالبہ اصولا اسی نظم اجتماعی سے کرتا ہے جو اس کے ماننے والوں کی رائے سے تعمیر ہوا ہو، اس کے برعکس شریعت ھیومن رائٹس والوں کے مطابق اس دنیا کے سب انسانوں پر لازم ہے کہ وہ اس کی پابندی کریں، چاہے وہ اسے مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شریعت ھیومن رائٹس والوں کے نزدیک ھیومن رائٹس کی شریعت پر عمل نہ کرنے والی ریاست فاشسٹ ریاست ہوتی ہے! شاعر نے اسی کے لئے کہا تھا کہ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا نام خرد۔ اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ملک کے مذھبی سیکولر طبقات ایسے افراد کی گفتگو پر "واہ واہ" کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کونسل ان کے بغیر بھی چل سکتی ہے۔ البتہ ملک کو درپیش معاشی اور اقتصادی بحران سے متعلقہ ان جیسی قابلیت اور کسی کے پاس نہیں۔ کیونکہ ان کا معاشیات میں شعبہ مہارت بالکل وہی ہے جس کا پاکستان کئی دہائیوں سےشکار ہے۔ یعنی مسلسل بڑھتا بیرونی قرضہ، اندرونی گردشی قرضے اور ان قرضوں کے سود کی اقساط۔ جسے اداکرنے کیلئے اور قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔
عاطف میاں حرفِ آخر بھی نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے تمام تجزیے سو فی صد درست ہو سکتے ہیں۔ آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ اپنی ہر بات اور ہر فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لیے حقائق کو فراموش کرنا چھوڑ دیں۔


کوشش کریں کہ یوسف نذر کا آرٹیکل اور اوپر دیا گیا تھریڈ مکمل پڑھ لیں غیر جانبداری سے۔
 
Top