واصف حسین واصف کے کچھ اشعار

فہیم

لائبریرین
تری محبت میں جل رہا ہوں
میں قطرہ قطرہ پگھل رہا ہوں
یہ کون مجھ کو بدل رہا ہے
میں کس سانچے میں ڈھل رہا ہوں
میں اپنے اندر ہوں اک سمندر
میں اپنے اندر ابل رہا ہوں
تمام دنیا کو ہے شکایت
میں تیری دنیا بدل رہا ہوں
تو پوچھ لے اپنے رتجگوں سے
تمہاری پلکوں پہ جل رہا ہوں
اسے سناتا ہوں اپنی الجھن
میں جس کی الجھن کا حل رہا ہوں
وہ زاویوں کو بدل رہی ہے
میں دائروں سے نکل رہا ہوں
گناہ بھی کرسکا نہ کوئی
میں کس قدر بے عمل رہا ہوں
 

فہیم

لائبریرین
دل تھام کے بیٹھا ہوں تو اب پوچھ رہے ہیں
وہ مجھ سے مرے غم کا سبب پوچھ رہے ہیں
یہ سادہ دلی ہے کہ جو ناقد تھے وفا پر
اب ہم سے وفا کرنے کا ڈھب پوچھ رہے ہیں
کیا خوب مرے غم کی تلافی ہے کہ مجھ سے
رونے کا سبب خندہ بہ لب پوچھ رہے ہیں
 

فہیم

لائبریرین
ایک تو اس کو بھلانے میں بہت دیر لگی
اور پھر دل کو منانے میں بہت دیر لگی
منزلیں دیر سے ملنے کا سبب تھا کوئی
بوجھ اتنا تھا، اٹھانے میں بہت دیر لگی
رنگ بدلے، کبھی اس شخص نے تیور بدلے
اس لیے عکس بنانے میں بہت دیر لگی
میں تو مدت سے مرے دوست جنوں یافتہ ہوں
تم کو الزام لگانے میں بہت دیر لگی
ہم نے قطرے سے گہر ہونے کا منظر دیکھا
گو کہ پتھر کو رُلانے میں بہت دیر لگی
میں ترے واسطے گلدستے سجا لاتا، مگر
گردشِ وقت کو جانے میں بہت دیر لگی
 
Top