اسکین دستیاب نورتن

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 175

الحاصل وہ سادہ لوح تلاش بسیار اور تجسس بے شمار سے ایک پر زن علامہ دھر اور دلالہ عصر کو اپنے گھر میں بلا لایا۔ غرض اُس دایہ کاملہ نے ہر ایک کل سے اس بے کل کو دیکھا تو کوئی کل بے کل کو دیکھا تو کوئی کل بے کل نہ پائی۔ ہ ماجرا حیرت افزا وہ دایہ قابلہ دیکھ کر اُس بیمار مکار سے یوں حرف زن ہوئی کہ اے افسر مکازاں و اے رھبر بدکاراں! تو نے آزار مکاید سے اس بے چارے کو کیوں دق کیا ہے؟ یہ بات اس دایہ صاحب کرامات کی سن کر وہ زن پُر فن کہنے لگی "اے دایہ گراں مایہ! میری بیماری پُر فطرت کا یہ باعث ہے کہ اس بدبخت کو میری عصمت اور نیک بختی کا مطلق اعتبار نہ تھا۔ ہر چند کہ مرد کی آج تک شکل نہیں دیکھی۔ اس بات کا خدا دانا اور بینا ہے، مگر یہ میرے سامنے بڑا بول بولا ہے؛ سو اس کا نتیجہ ایک ایک ذرہ دکھایا چاہتی ہوں، اس میں کچھ کیوں نہ ہو" یہ کلام اُس دل آرام کا وہ دایہ کاملہ سن کر بولی کہ اے کد بانو یہ کتنی بری بات ہے، الحال میں تیرے شریک حال ہوں۔ غرض وہ دایہ اُس بیمار بے قرار کے پاس سے اُٹھ کر اس جوان بدگمان کے قریب آکر کہنے لگی کہ اے عزیز ناچیز! تو نے ایسی عورت خوبصورت، ماہ طلعت کو یوں گھلا گھلا کے تمام کیا: مصرع
افسوس ہے صد ہزار افسوس

بقول آں کہ: شعر
طالع بد کا نہ کیوں کر پھیر ہو
ماہ رُو پر جس کے یہ اندھیر ہو

اس کے جواب میں وہ بدگمان کہنے لگا کہ اے
 
Top