عائشہ عزیز
لائبریرین
29 اور 30
مخدومی رشید احمد صدیقی نے بہت صحیح کہا ہے کہ اقبال پر دنیا کے بڑے مذہب کی گرفت اتنی نہیں جتنی ایک بڑی شخصیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔
اب نفس کتاب سے متعلق چند تصریحات ضروری معلوم ہوتی ہیں، فکری لحاظ سے بھی "اقبال اور مغربی تہذیب و ثقافت" "اقبال اور عصری نظام تعلیم"
"اقبال کا نظریہ علم و فن" "انسانِ کامل اقبال کی نظر میں" "شخصیت اقبال کے تخلیقی عناصر" اس مجموعہ کے اہم مضامین ہیں دونوں مواخر الذکر ترجمے جناب طیب صاحب عثمانی ندوی کے ہیں، جو ان کی کتاب "حدیثِ اقبال" سے لئے گئے ہیں، "اقبال درِ دولت پر" کا ترجمہ مولانا محمد الحسنی مدیر "البعث الاسلامی" کے قلم سے
ہے جو "کاروان مدینہ" سے لیا گیا ہے۔
"روائع اقبال " سلسلے میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس کے اولین مخاطب عرب تھے اور یہ انہیں کو سامنے رکھ کر لکھی گئی تھی، اس لیے اس میں اقبال کے کلام کے وہ حصے خصوصیت سے لئے گئے تھے جو عربوں سے متعلق تھے، مثلاََ "بلاد عرب کے نام" پس چہ بایدکرو کی نظم "حرفے چند با امت عربیہ" کا ترجمہ ہے، مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، طارق کی دعا، ابو جہل کی نوحہ گری، جاہلیت کی باز گشت بھی عربوں سے متعلق ہے، لیکن عجم کے صاحب ذوق بھی ان سے پورا لطف اٹھا سکتے ہیں۔
روائع کا مقصد عرب ممالک میں اقبال کا تعارف تھا، اس لیے ان کے سوانح و افکار کے اجمالی جائزہ کے ساتھ ہی ان کی چند بہترین شاہکار نظموں کا ترجمہ بھی کیا گیا تھا، اس سلسلے میں میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کی بہترین نظمیں اس مجموعہ میں آگئی ہیں "یعنی مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، ابلیس کی مجلس شوریٰ ساقی نامہ ، جاوید نامہ " اور "مثنوی مسافر" کے اہم حصے بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں، اردو میں اس ترجمے کے ترجمے کا زیادہ لطف تو نہیں لیکن مصنف کے جذبات و خیالات کی اہمیت کے پیش نظر اس کا بھی ایک خاص مقام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "روائع اقبال" کی عرب دنیا میں بڑی اہمیت ہے، اس سے پہلے جناب عبد الوہاب عزام۔۔۔ (سفیر مصر) نے اقبال کا عربی میں منظوم ترجمہ کیا تھا اور ایک مصری فاضل عباس محمود نے "تجدید التفکیر الدینی فی الاسلام" بھی لکھی تھی۔
لیکن اقبال کا تعارف نہیں ہوسکا تھا، چنانچہ عالم عربی کے اسلامی ادیب علمی طنطاوی نے مولانا کے نام مجلّہ المسلمون (دمشق) میں ایک کھلا خط شائع کیا جس میں انہیں اس کام کی طرف متوجہ کیا گیا تھا، مولانا نے انہی تقاضوں کے پیش نظر چند مضامین سپرد قلم کیے جو کتاب بن گئے۔ "روائع اقبال" منظوم ترجمہ نہیں لیکن اس کی فصاحت و ادبیت اتنی مسحور کن ہے کہ اسے شعر منشور کہا جاسکتا ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ اردو ترجمہ میں اصل خوبیاں نہیں آسکی ہیں۔
یہ کتاب اقبالیات میں کوئی اہم اضافہ تو نہیں لیکن اقبال کے شائقین کی دلچسپی کی چیز ضرور ہے اور اپنے بعض پہلوؤں خصوصاََ دعوتی طرز فکر کی صحت اور ذوق کی اسلامیت کے لیے ممتاز ہے، ویسے بھی اقبال کے سلسلے میں کوئی حرف آخر کہنے کا دعویٰ کیا بھی نہیں جاسکتا۔
شوق گرزندہ جا دید بنا شد عجب است
کہ حدیث تو دریں یک دو نفس نتواں گفت
شمس تبریز خان، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
یکم ربیع الاول 1389 ہجری
مطابق 19 مئی 1969
مخدومی رشید احمد صدیقی نے بہت صحیح کہا ہے کہ اقبال پر دنیا کے بڑے مذہب کی گرفت اتنی نہیں جتنی ایک بڑی شخصیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔
اب نفس کتاب سے متعلق چند تصریحات ضروری معلوم ہوتی ہیں، فکری لحاظ سے بھی "اقبال اور مغربی تہذیب و ثقافت" "اقبال اور عصری نظام تعلیم"
"اقبال کا نظریہ علم و فن" "انسانِ کامل اقبال کی نظر میں" "شخصیت اقبال کے تخلیقی عناصر" اس مجموعہ کے اہم مضامین ہیں دونوں مواخر الذکر ترجمے جناب طیب صاحب عثمانی ندوی کے ہیں، جو ان کی کتاب "حدیثِ اقبال" سے لئے گئے ہیں، "اقبال درِ دولت پر" کا ترجمہ مولانا محمد الحسنی مدیر "البعث الاسلامی" کے قلم سے
ہے جو "کاروان مدینہ" سے لیا گیا ہے۔
"روائع اقبال " سلسلے میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس کے اولین مخاطب عرب تھے اور یہ انہیں کو سامنے رکھ کر لکھی گئی تھی، اس لیے اس میں اقبال کے کلام کے وہ حصے خصوصیت سے لئے گئے تھے جو عربوں سے متعلق تھے، مثلاََ "بلاد عرب کے نام" پس چہ بایدکرو کی نظم "حرفے چند با امت عربیہ" کا ترجمہ ہے، مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، طارق کی دعا، ابو جہل کی نوحہ گری، جاہلیت کی باز گشت بھی عربوں سے متعلق ہے، لیکن عجم کے صاحب ذوق بھی ان سے پورا لطف اٹھا سکتے ہیں۔
روائع کا مقصد عرب ممالک میں اقبال کا تعارف تھا، اس لیے ان کے سوانح و افکار کے اجمالی جائزہ کے ساتھ ہی ان کی چند بہترین شاہکار نظموں کا ترجمہ بھی کیا گیا تھا، اس سلسلے میں میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کی بہترین نظمیں اس مجموعہ میں آگئی ہیں "یعنی مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، ابلیس کی مجلس شوریٰ ساقی نامہ ، جاوید نامہ " اور "مثنوی مسافر" کے اہم حصے بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں، اردو میں اس ترجمے کے ترجمے کا زیادہ لطف تو نہیں لیکن مصنف کے جذبات و خیالات کی اہمیت کے پیش نظر اس کا بھی ایک خاص مقام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "روائع اقبال" کی عرب دنیا میں بڑی اہمیت ہے، اس سے پہلے جناب عبد الوہاب عزام۔۔۔ (سفیر مصر) نے اقبال کا عربی میں منظوم ترجمہ کیا تھا اور ایک مصری فاضل عباس محمود نے "تجدید التفکیر الدینی فی الاسلام" بھی لکھی تھی۔
لیکن اقبال کا تعارف نہیں ہوسکا تھا، چنانچہ عالم عربی کے اسلامی ادیب علمی طنطاوی نے مولانا کے نام مجلّہ المسلمون (دمشق) میں ایک کھلا خط شائع کیا جس میں انہیں اس کام کی طرف متوجہ کیا گیا تھا، مولانا نے انہی تقاضوں کے پیش نظر چند مضامین سپرد قلم کیے جو کتاب بن گئے۔ "روائع اقبال" منظوم ترجمہ نہیں لیکن اس کی فصاحت و ادبیت اتنی مسحور کن ہے کہ اسے شعر منشور کہا جاسکتا ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ اردو ترجمہ میں اصل خوبیاں نہیں آسکی ہیں۔
یہ کتاب اقبالیات میں کوئی اہم اضافہ تو نہیں لیکن اقبال کے شائقین کی دلچسپی کی چیز ضرور ہے اور اپنے بعض پہلوؤں خصوصاََ دعوتی طرز فکر کی صحت اور ذوق کی اسلامیت کے لیے ممتاز ہے، ویسے بھی اقبال کے سلسلے میں کوئی حرف آخر کہنے کا دعویٰ کیا بھی نہیں جاسکتا۔
شوق گرزندہ جا دید بنا شد عجب است
کہ حدیث تو دریں یک دو نفس نتواں گفت
شمس تبریز خان، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
یکم ربیع الاول 1389 ہجری
مطابق 19 مئی 1969