ہیں لبریز آہوں سے ٹھنڈی ہوائیں
اداسی میں ڈوبی ہوئی ہیں گھٹائیں
محبت کی دنیا پہ شام آ چکی ہے
سیہ پوش ہیں زندگی کی فضائیں
مچلتی ہیں سینے میں لاکھ آرزوئیں
تڑپتی ہیں آنکھوں میں لاکھ التجائیں
تغافل کے آغوش میں سو رہے ہیں
تمہارے ستم اور میری وفائیں
مگر پھر بھی اے میرے معصوم قاتل
تمہیں پیار کرتی ہیں میری دعائیں
وہ وقت مری جان بہت دور نہیں ہے
جب درد سے رک جائیں گی سب زیست کی راہیں
اور حد سے گزر جائے گا اندوہِ نہانی
تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں
چھن چائیں گے مجھ سے مرے آنسو مری آہیں
چھن جائے گی مجھ سے مری بے کار جوانی
شاید مری الفت کو بہت یاد کرو گی
اپنے دلِ معصوم کو ناشاد کرو گی
آؤ گی مری گور پہ تم اشک بہانے
نوخیز بہاروں کے حسیں پھول چڑھانے
شاید مری تربت کو بھی ٹھکرا کے چلو گی
شاید مری بے سود وفاؤں پہ ہنسو گی
اس وضع کرم کا بھی تمہیں پاس نہ ہوگا
لیکن دلِ ناکام کو احساس نہ ہوگا
القصہ ماآل غمِ الفت پہ ہنسو تم
یا اشک بہاتی رہو، فریاد کرو تم
ماضی پہ ندامت ہوتمہیں یا کہ مسرت
خاموش پڑا سوئے گا وا ماندۂ الفت
رسیلے ہونٹ، معصومانہ پیشانی، حسیں آنکھیں
کہ میں اک بار پھر رنگینیوں میں غرق ہو جاؤں!
مری ہستی کو تیری اک نظر آغوش میں لے لے
ہمیشہ کے لیے اس دام میں محفوظ ہو جاؤں
ضیائے حسن سے ظلماتِ دنیا میں نہ پھر آؤں
گزشتہ حسرتوں کے داغ میرے دل سے دھل جائیں
میں آنے والے غم کی فکر سے آزاد ہو جاؤں
مرے ماضی و مستقبل سراسر محو ہو جائیں
مجھےوہ اک نظر، اک جاودانی سی نظر دے دے
مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو
ابھی تک دل میں تیرے عشق کی قندیل روشن ہے
ترے جلووں سے بزمِ زندگی جنت بدامن ہے
مری روح اب بھی تنہائی میں تجھ کو یاد کرتی ہے
ہر اک تارِ نفس میں آرزو بیدار ہے اب بھی
ہر اک بے رنگ ساعت منتظر ہے تیری آمد کی
نگاہیں بچھ رہی ہیں راستہ زرکار ہے اب بھی
مگر جانِ حزیں صدمے سہے گی آخرش کب تک
تری بے مہریوں پر جان دے گی آخرش کب تک؟
تری آواز میں سوئی ہوئی شیرینیاں آخر
مرے دل کی فسردہ خلوتوں میں جا نہ پائیں گی
یہ اشکوں کی فراوانی سے دھندلائی ہوئی آنکھیں
تری رعنائیوں کی تمکنت کو بھول جائیں گی
پکاریں گے تجھے تو لب کوئی لذت نہ پائیں گے
گلو میں تیری الفت کے ترانے سوکھ جائیں گے
مبادا یاد ہائے عہدِ ماضی محو ہو جائیں
یہ پارینہ فسانے موج ہائے غم میں کھو جائیں
مرے دل کی تہوں سے تیری صورت دُھل کے بہ جائے
حریم عشق کی شمع درخشاں بجھ کے رہ جائے
مبادا اجنبی دنیا کی ظلمت گھیر لے تجھ کو!
مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو
نیم شب، چاند خود فراموشی
محفلِ ہست و بود ویراں ہے
پیکرِ التجا ہے خاموشی
بزم انجم فسردہ ساماں ہے
آبشارِ سکوت جاری ہے
چار سو بے خودی سی طاری ہے
زندگی جزوِ خواب ہے گویا
ساری دنیا سراب ہے گویا
سورہی ہے گھنے درختوں پر!
چاندنی کی تھکی ہوئی آواز
کہکشاں نیم وا نگاہوں سے
کہہ رہی ہے حدیثِ شوقِ نیاز
سازِ دل کے خموش تاروں سے
چھن رہا ہے خمارِ کیف آگیں
آرزو، خواب، تیرا روئے حسیں
گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں
ریاضِ زیست ہے آزردہء بہار ابھی
مرے خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی
جو حسرتیں ترے غم کی کفیل ہیں پیاری
ابھی تلک مری تنہائیوں میں بستی ہیں
طویل راتیں ابھی تک طویل ہیں پیاری
اداس آنکھوں تری دید کوترستی ہیں
بہارِ حسن ، پہ پابندیء جفا کب تک؟
یہ آزمائشِ صبرِ گریز پا کب تک؟
قسم تمہاری بہت غم اٹھا چکا ہوں میں
غلط تھا دعویِء صبرو شکیب، آجاو
قرارِ خاطرِ بیتاب، تھک گیا ہوں میں
تہِ نجوم ، کہیں چاندنی کے دامن میں
ہجومِ شوق سے اک دل ہے بے قرار ابھی
خمارِ خواب سے لبریز احمریں آنکھیں
سفید رخ پہ پریشان عنبریں آنکھیں
چھلک رہی ہے جوانی ہر اک بنِ مو سے
رواں ہو برگِ گلِ تر سے جیسے سیلِ شمیم
ضیاء مہ میں دمکتا ہے رنگِ پیراہن
ادائے عجز سے آنچل اُڑا رہی ہے نسیم
دراز قد کی لچک سے گداز پیدا ہے
ادائے ناز سے رنگِ نیاز پیدا ہے
اداس آنکھوں میں خاموش التجائیں ہیں
دل حزیں میں کئی جاں بلب دعائیں ہیں
تہِ نجوم کہیں چاندنی کے دامن میں
کسی کا حسن ہے مصروف انتظار ابھی
کہیں خیال کے آباد کردہ گلشن میں
ہے ایک گل کہ ہےناواقفِ بہار ابھی
جو پھول سارے گلستاں میں سب سے اچھا ہو
فروغِ نور ہو جس سے فضائے رنگیں میں
خزاں کے جورو ستم کو نہ جس نے دیکھا ہو
بہار نے جسے خونِ جگر سے پالا ہو
وہ ایک پھول سماتا ہے چشمِ گلچیں میں
ہزار پھولوں سے آباد باغِ ہستی ہے
اجل کی آنکھ فقط ایک کو ترستی ہے
کئی دلوں کی امیدوں کا جو سہارا ہو
فضائے دہر کی آلودگی سے بالا ہو
جہاں میں آکے ابھی جس نے کچھ نہ دیکھا ہو
نہ قحط عیش و مسرت ، نہ غم کی ارزانی
کنارِ رحمتِ حق میں اسے سلاتی ہے
سکوتِ شب میں فرشتوں کی مرثیہ خوانی
طواف کرنے کوصبح بہار آتی ہے
صبا چڑھانے کو جنت کے پھول لاتی ہے