جون ایلیا نفرت - جون ایلیا

حسان خان

لائبریرین
شام ہے اور دل بہت بے آرام ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے جذبات کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی۔ نفرت اس گفتگو کا خصوصی موضوع تھی۔ میں نے اس گفتگو سے بہت استفادہ کیا۔

انسان فطرت کی لاکھوں برس کی ریاضت کا حاصل ہے۔ فطرت انسان کی صورت گری کی منصوبہ بندی میں لاکھوں برس تک رد و بدل کرتی رہی ہے اور تب یہ راست قامت دو پایہ وجود میں آیا ہے۔ میں کبھی کبھی بڑے دکھ کے ساتھ یہ سوچتا ہوں کہ یہ دو پایہ کس قدر بدبخت جاندار ہے اور بدطینت بھی۔ اس کی بدبختی اور بدطینتی کا سب سے بڑا ثبوت وہ جذبہ ہے جس مجرمانہ ترین جذبے کو نفرت کہتے ہیں۔ یہ جذبہ ایک انتہائی مہلک بیماری ہے اور عجب کا مقام ہے کہ مذہب، علم اور فلسفہ بھی اسے اس بیماری سے نجات نہیں دلا سکے۔ نفرت انسان کی سیرت بلکہ فطرت بن چکی ہے۔

انسان ہونا یعنی اشرف المخلوقات ہونا میرا اپنا انتخاب نہیں ہے۔ یہ تو فطرت کا ایک جبر ہے۔ اگر فطرت میری ماہیت تجویز کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھتی کہ تو حیوانوں کی کون سی نوع کا فرد بننے کی خواہش رکھتا ہے تو میں شاید یہ کہتا کہ مجھے مور، فاختہ، کبوتر یا قاز بنایا جائے۔ مجھے قازیں بہت پسند ہیں۔ یہ منظر میرے لیے بہت ہی دلکش رہا ہے کہ شام ہو رہی ہے، موسمِ گرما کا صحن ہے اور قازیں مختلف ہندسی شکلیں بناتی ہوئی جنوب سے شمال کی طرف پرواز کر رہی ہیں اور میرے احساسِ وجود کا ایک عجیب سا طور اُن کے ساتھ پرواز کر رہا ہے۔

شاید آپ کا بھی یہ تجربہ ہو کہ قازوں کی پرواز کے دوران نیلگوں فضا میں ایک عجیب سا جمال اور ملال اور عجیب سی ہم آہنگی کا جاوداں آہنگ بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

بات نفرت کی ہو رہی تھی۔ نفرت ذہن کی ایک انتہائی بے ہنگم نا ہم آہنگی کی مہلک ترین کیفیت ہے۔ یہ انسان کے ذہن کا سب سے زیادہ زہریلا عارضہ ہے۔ نفرت کا تو لفظ ہی ایک بے حد قابلِ نفرت لفظ ہے۔ اس لفظ کا 'نون' نحوست کا 'نون' ہے۔ اس لفظ کی 'فے' فتنے اور فساد کی 'فے' ہے۔ اس کی 'رے' رذالت کی 'رے' ہے۔ اس کی 'تے' تباہی اور تباہ کاری کی 'تے' ہے۔

ایک زمانے میں ہیضہ، تپِ دق اور چیچک ناقابلِ علاج بیماریاں تھیں اور چیچک تو ہلاکت کی دیوی تھی۔ اس لیے اسے 'ماتا' کہا جاتا تھا اور طاعون تو امراض کا 'فرعون' تھا اور اسے موت کے قہر و جبروت کے دیوتا کی حیثیت حاصل تھی۔ اپنے زمانے کے حکیم جالینوس اور حکیم بقراط اس کے قہر و جبروت کے سامنے عاجز تھے۔ لیکن چند مستثنیٰ مثالوں کو چھوڑ کر اس عہد کی طبی دانش نے ان بیماریوں پر پوری طرح قابو پا لیا ہے۔

یہ بات کتنی اداس اور مایوس کر دینے والی بات ہے کہ انسانی دانش اپنی تمام تر معجز نمائی کے باوجود سب سے زیادہ مہیب اور مہلک بیماری یعنی نفرت کا علاج کرنے میں آج تک بری طرح ناکام رہی ہے۔

انسان میں زندہ رہنے کی خواہش کے ساتھ ہی مرنے کا بھی ایک بہت پیچیدہ رجحان پایا جاتا ہے۔ انسانوں کی باہمی محبت زندہ رہنے کی خواہش کی علامت ہے اور ان کی باہمی نفرت مرنے کی خواہش بلکہ مرنے کی شہوت کی علامت۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ محبت زندگی اور زندگی دوستی کا استعارہ ہے اور نفرت موت اور موت پسندی کا۔

یہ ایک قابلِ شرم اور الم ناک حقیقت ہے کہ آج کا انسان بھی اپنے تمام تر علم اور تہذیب کے باوصف طرح طرح کی نفرتوں، غلیظ نفرتوں میں مبتلا ہے۔ لسانی نفرت، نسلی نفرت، مذہبی نفرت، وطنی نفرت اور تہذیبی نفرت۔ ایک زمانے میں یا یوں سمجھ لو کہ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے چند سال بعد تک نفرتوں کی اتنی قسمیں نہیں پائی جاتی تھیں، جتنی قسمیں آج یعنی علم اور تہذیب کے سب سے زیادہ ارجمند دور میں پائی جاتی ہیں۔ یہ کس قدر حیران کن اور ملال انگیز حقیقت ہے کہ انسان اپنے انتہائی شاندار اوج اور عروج کے عہد میں شاید پہلے سے کہیں زیادہ کٹھل، کٹھور اور سینہ زور ہو گیا ہے۔

سوچنا یہ ہے کہ ان انواع و اقسام کی نفرتوں کو جنم دینے اور پالنے پوسنے والے لوگ کون ہیں۔ وہ لوگ کون ہیں جنہوں نے زبان اور تہذیب کے نام پر مختلف گروہوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنا دیا ہے۔ یہاں میں اپنی گفتگو کو پاکستان کے دائرے میں محدود رکھ کر اپنے احساس کا یا اپنے نفس کی اذیت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔

وہ لوگ جنہوں نے زبان اور تہذیب کے نام پر مختلف گروہوں کے درمیان زہر ناک نفرتوں کو فروغ دیا ہے، وہ عوام میں سے نہیں ہیں، خواص میں سے ہیں۔ بات کو ہیر پھیر سے کیا کہنا۔ سیدھی سچی اور کھری بات یہ ہے کہ وہ اس بدبخت ترین ملک کے شاعروں، ادیبوں، عالموں اور دانشوروں کے زمرے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اس زمرے کے کوئی کم تعداد کے لوگ نہیں ہیں۔ یہاں یہ بات پوری طرح جان لی جانی چاہیے کہ اس ملک کے عوام (نیز عوام الناس) کا جرم اور جنایت کے اس کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کہیں یہ لوگ بھی اس کاروبار اور بیوپار میں لگ جاتے تو یہ ملک باقی ہی نہ رہ سکتا۔ یہی تو وہ عالی مرتبت اور سامی منزلت لوگ ہیں جن کا ہر گروہ سے زیادہ احترام کیا جانا چاہیے۔

ایک عام آدمی کا، ایک مزدور، کاریگر اور کسان کا اس بے ہودہ بحث سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ سندھ کی تہذیب زیادہ قدیم ہے یا سمیری تہذیب۔ پہیا بابل کی ایجاد ہے یا عیلام کی۔ آگے چلیے، وارث شاہ بڑے شاعر تھے یا شاہ لطیف، میر تقی میر بڑے شاعر تھے یا خوش حال خاں خٹک۔ ہماری تہذیب کے نمائندے صرف اسی قبیل کے افراد کے درمیان موازنہ فرمائی تک محدود نہیں رہتے، ان کی قوم پرستی یا قومیت پرستی کی 'معاملہ فہمی' اس نوع کے بے حد اہم قضیے بھی فصیل کر لینا چاہتی ہے کہ سلطانہ ذاکو زیادہ جیالا تھا یا مبین ڈاہری؟

تہذیب اور نفرت میں تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ اگر کوئی شخص تہذیب کے تنوع کی بنیاد پر یعنی تہذیبوں کی گوناگونی کی نسبت سے انسانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرتا ہے تو وہ شخص ہرگز دانشور نہیں ہو سکتا۔ اسے صرف ایک لقندر اور لفنگا سمجھا جانا چاہیے۔ اگر تہذیب اپنے صحیح النسب مفہوم میں تہذیب ہو تو پھر وہ دانش کا ثمرہ ہے اور دانش انسانیت کے رشتے کو جوڑتی ہے، توڑتی نہیں۔ توڑ ہی نہیں سکتی ورنہ اسے دانش نہیں کہا جائے گا۔ پھر وہ بے دانشی ٹھہرے گی اور ہمیں اور تمہیں بے دانشی کے بے ہودہ کیشی اور بے ہودہ کوشی کے خلاف، نفرت کے خلاف فیصلہ کن لڑائی لڑنا ہے۔

(سسپنس ڈائجسٹ، نومبر ۲۰۰۷)
 
آہ:(کیا یاد دلا دیا حسان بھائ۔
جون ایلیا مرحوم کس خوبصورتی سے ہمارے معاشرتی تضادات اور برائیوں کو نمایاں کیا کرتے تھے۔
مجھے ان کا وہ انشائیہ سب سے پسند ہے "نظر آنا"۔جس کے آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ "لعنت ہو ایسے نظر آنے پر"

ایک تجویز ہے۔ایک علیحدہٰ دھاگے میں جون ایلیا کے "انشائیے" جمع کر دیے جائیں تو کیسا رہے گا
 

حسان خان

لائبریرین
ایک تجویز ہے۔ایک علیحدہٰ دھاگے میں جون ایلیا کے "انشائیے" جمع کر دیے جائیں تو کیسا رہے گا

میں نے کل وارث بھائی کو تجویز دی تھی کہ اس نثری زمرے میں جون ایلیا کا بھی ایک سابقہ بنا دیا جائے، تاکہ بعد میں جون ایلیا کے سارے انشائیے ایک ساتھ تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ :)
 
Top