نعتیہ قصیدہ۔ خالد علیم

الف عین

لائبریرین
نعتیہ قصیدہ

(تمہیدی غزل)
دیتا ہوا رات کو درس فنا آفتاب
صبح جمال یقیں لے کے چلا آفتاب
شرق سے نکلا ادھر لے کے نوید سحر
محو طواف حرم شب کو رہا آفتاب
دیکھ اے چشم فلک وادی فاران سے
روشنیوں کے جلوس لے کے اٹھا آفتاب
تیرگی ذہن میں نورفشاں ہے سحر
دل کے دریچے سے ہے چہرہ کشا آفتاب
غم کے اندھیروں میں ہے جلوہ نما داغ عشق
چشم جہاں سے کبھی چھپ نہ سکا آفتاب
اُس کے اجالوں سے ہے شمس و قمر کو فروغ
اُس کی کرن ماہتاب اُس کی ضیا آفتاب
دل کے شبستاں میں ہے اُس کی ضیاؤں سے نور
سقف تمنا پہ ہے جلوہ نما آفتاب
خالد آشفۃ کر اُس کا قصیدہ رقم
نوکِ قلم سے تراش ایک نیا آفتاب


***

پردۂ آفاق میں ڈوب گیا آفتاب
ہونے لگا خیمہ زن شب کا طلسمِ حجاب
چلنے لگی دہر میں بادِ سمومِ فریب
پھیل گئی چارسو تیرگیِ اضطراب
بڑھنے لگی ہر طرف قہر و ہلاکت کی لہر
گرنے لگی جبر کی برق سراپا عتاب
گل کدۂ زیست تھا دشت سکوت ضمیر
خامش و بے صوت و رنگ مثل شبستانِ غاب
عقل و خرد پر محیط وہم و گماں کا فسوں
حسن نظر بھی سراب نور سحر بھی سراب
کبر و رعونت تمام قلب و نظر کے امام
ذہن بشر پر مدام مرگ خودی کا سحاب
بادیہ گردان دہر جن کے لیے صبح و شام
کذب و دغا ہم سفر جور و جفا ہم رکاب
جبر غلامی میں تھا ہر بشر ناتواں
اور ضعیفوں پہ تھا ظلم و ستم بے حساب
بندہ مجبور پر یہ ستم ناروا
ایک مسلسل سزا ایک سراپا عذاب
سینہ آدم میں تھی آتش ایمان سرد
نار جہنم کا تھا بولہبی الۃاب
فتنہ گری سو بہ سو راہزنی کو بہ کو
وائے جہان خراب! وائے جہان خراب!
ظلمت اوہام میں قافلہ بے درا
ڈھونڈ رہا تھا ابھی خیمہ شب کی طناب
تیرگی کفر تھی تا بہ اُفق سرگراں
نور ہدایت ادھر کھانے لگا پیچ و تاب
ہونے لگی یک بیک شب کی ردا تار تار
بطن حرا سے اٹھی اک سحر انقلاب
ہونے لگا چارسو روشنیوں کا عمل
اور اُترنے لگا چہرۂ شب کا نقاب
تیرہ و تاریک رات ڈھلنے لگی نور میں
لیلی شب کا غرور ہونے لگا آب آب
فرش زمیں پر بچھی کاہکشاں کی بساط
خاک عرب بن گئی آئنہ ماہتاب
ہونے لگا ضو فشاں ذرہ ہر رہ گزر
محو طرب ہو گئے چرخ پہ نجم و شہاب
عرش ہوا نغمہ خواں جھکنے لگا آسماں
اور زمین حجاز ہو گئی گردوں رکاب
غنچے لہکنے لگے دشت مہکنے لگے
اور نکھرنے لگا رنگ قبائے گلاب
گنگ زبانوں سے بھی نغمے ابلنے لگے
اور مچلنے لگا مردہ رگوں میں شباب
کس کا ہوا ہے وردو کون ہوا جلوہ گر
اپنے جلو میں لیے مطلع صد آفتاب
دشت جہاں میں ہوا اُس کا قدم شب چراغ
جس کو خدا نے دیا ہر دو جہاں کا نصاب

***

ہاں وہ رسولؐ انام سرورؐ عالی جناب
بحر رسالت کا وہ اک گہر انتخاب
سائرؐ ہفت آسماں طائرؐ سدرہ مکاں
خاتم ؐ وحی و صحف ملہمؐ ام الکتاب
سیدؐ اہل حرم راہنمائے امم
تاجورؐ محترم خسروِ گردوں رکاب
خرد و کلاں کا ہے وہ ہم قدمِ بے مثال
گمشدگاں کا ہے وہ راہبر لاجواب
اُس کے خصائل بلند اُس کے شمائل عظیم
اُس کے مقامات ہیں بے بدل و بے حساب
روکش مہتاب شب اُس کی ردائے سیاہ
مطلع خورشید صبح اُس کا رُخِ مستطاب
اُس کا نفس مشکبو اُس کی نظر گل فشاں
اُس کا تکلم لطیف اُس کا تبسم گلاب
اُس کی ادا دلنشیں اُس کی ردا عنبریں
اُس کا دہن انگبیں اُس کا سخن مشک ناب
اُس کا بیاں جاں فروز اُس کی زباں دلنواز
اُس کا پیام الہدیٰ اُس کا کلام الکتاب
وہ ہے رفیع المقام وہ ہے بلیغ الکلام
وہ ہے فصیح البیاں، صاحب فصل الخطاب
وہ ہے لسان العرب وہ ہے بیان العجم
دانش و علم و حکم اُس سے کریں اکتساب
وہ شہؐ والا صفات جس کی قلمرو میں ہے
حلم سعادت نشاں علم فضیلت مآب
وہ نظر کیمیا جس سے زمانے میں ہے
صبح یقیں جاوداں شام توہم حباب
وہ نگہ التفات جس کی عطاؤں سے ہے
ایک جہاں مستفیض ایک جہاں فیضیاب
اُس کی سخا یم بہ یم اُس کا کرم جو بہ جو
موج مئے سلسبیل اُس کے دہن کا لعاب
مونسؐ افسردگاں ہمدمؐ آزردگاں
چارہؐء غم خوردگاں شافعؐ یوم الحساب
چارہ گرؐ دردمند دادرسِؐ مستمند
گاہ انیسؐ یتیم گاہ جلیسؐ مصاب
گاہ رؤفؐ و رحیمؐ گاہ وسیمؐ و قسیمؐ
گاہ فہیمؐ و علیمؐ گاہ مجیبؐ و مجابؐ
گاہ حمودؐ و حمیدؐ گاہ سعودؐ و سعیدؐ
گاہ مزکیؐ لقب گاہ مطیبؐ خطاب
اُس کا خرام جمیل حسن سحر کی دلیل
بادِ بہار آفریں جس سے کرے انتساب
اُس کے قدم کا فروغ گردِ رہِ کہکشاں
اُس کے نقوشِ دوام جلوہ کونین تاب
جلوہ گہ قدسیاں اُس کا درِ آستاں
گل کدہ رنگ و نور شہر رسالت مآبؐ
جاہ و جلالِ حضورؐ جس کے مقابل حقیر
دبدبہ کیقباد سطوت افراسیاب
وارث اقلیم خلد اُس کے اطاعت گزار
تاجورانِ زماں اُس کے عبید و رقاب
کارگہِ زیست میں اُس کی رضا کے بغیر
کون ہوا سرخرو کون ہوا کامیاب
اُس نے مدوَن کیا ضابطہ زندگی
اہل جہاں کو دیا ایک مکمل نصاب
مردہ دلوں کو دیا درسِ حیات آفریں
بھٹکے ہوؤں کے لیے کھول دی راہ صواب
اُس کا ورودِ سعید کرنے لگا دہر میں
سلسلہ جور کو برہم و ناکامیاب
ضربت توحید سے گرنے لگے بت کدے
مٹنے لگا خاک میں لات و ہبل کا شباب
نور فشاں ہو گیا اُس کا ید مستنیر
تیرگی جبر و جور کھونے لگی آب و تاب
بن گئی ارضِ حجاز رشک سپہر کبود
ہونے لگی مشت خاک ہم نفس آفتاب
ٹوٹ گیا ہر طرف جبر و ستم کا فسوں
چھانے لگے چارسو لطف و کرم کے سحاب
کارگہِ دہر سے دورِ جہالت گیا
کھلنے لگے ہر طرف فکر و بصیرت کے باب
اُس کے کمالات کا کس سے ہوا ہے شمار
اُس کی فتوحات کا کون لگائے حساب
اُس کے مقامات کا کون احاطہ کرے
کس سے بیاں ہو سکے مدح رسالت مآبؐ
معترف عجز ہیں خامہ و قرطاس بھی
لا نہ سکے گا شعور اُس کے محاسن کی تاب
اُس کا فراق، اُس کی یاد، اُس کا غم جاں نواز
قلب و نظر کے لیے کیف و کم اضطراب
صاحب عذب البیاں جس کی عذوبت سے ہے
میری شراب سخن رشک لعاب ذباب
اُس کی محبت سے ہے معتبر و محترم
میرا وجود و عدم میرا حضور و غیاب
اُس کے کرم سے ہوئی میرے سخن کی نمود
میری نظر کو ملا اذن شکست حجاب
اُس کی ثنا سے ملی زندگی جاوداں
ورنہ فنا کے سوا کیا ہے وجود حباب
اُس کی عطا سے حکم میرے زبان و قلم
میری صدا دل فروز، میری نوا سینہ تاب
بارگہِ قدس میں اُس کی شفاعت سے ہو
میرا عمل مستحب، میری دعا مستجاب
 

الف عین

لائبریرین
یہ پاکستانی شاعر ہی ہیں۔ پہلے میں ان کے نام سے بھی واقف نہ تھا۔ لیکن نوید صادق کے توسط سے ہی ان کی کتاب شام، شفق، تنہائ ملی تھی جو میری لائبریری میں بھی شامل ہے اور شاید نا مکمل یہاں بھی۔ ان کی شاعری مجھے بھی پسند آئ۔ اب ان کی نعوت کی کتاب محامد کی فائل ملی ہے جو ای بک بنا چکا ہوں، اگلے مرحلے میں اپ لوڈ کرنے کے لیے۔
 
Top