فرحت کیانی
لائبریرین
قائدِاعظم کی قبر پر
قائدِ اعظم کی تربت سے ابھی آیا ہوں میں
نظم کی لڑیوں میں کچھ موتی پرو لایا ہوں میں
میں گیا تھا پھول لے کر وہ تو سب مرجھا گئے
آپ بھی سنیے کہ آنسو آنکھ میں کیوں آ گئے
چند کلیاں فرش پر بکھری تھیں مرجھائی ہوئی
قبرِ قائد پر تھی ایک اُجڑی دلہن آئی ہوئی
آرسی کے آئینے میں بال تھا آیا ہوا
جگمگاتی کہکشاں کا رنگ کجلایا ہوا
قبر سے مٹی اٹھا کر مانگ میں بھرتی تھی وہ
رُخ پہ گھونگھٹ کو گرا کر بین یوں کرتی تھی وہ
سونے والے میں تمہارے خواب کی تعبیر ہوں
قائدِ اعظم میں وہ جاگیر ہوں تصویر ہوں
شاعرِ مشرق نے جس کی مانگ میں افشاں بھری
قائدِ ملت سے جس کے ہاتھ میں مہندی رچی
گیت وحدت کا میری شادی کے دن گایا گیا
چاند اور تارے کا آنچل مجھ پہ لہرایا گیا
میں کہ یکجہتی کے گہنوںسے ہوئی آراستہ
عزم و ایثار و اخوت سے ہوئی پیراستہ
تھے کروڑوں مرد و زَن شامل میری بارات میں
سچ کی کلیاں سی کِھلی تھیں خون کی برسات میں
نعر
میرا ڈولا گھر میں لا کر آپ جا کر سو گئے
آپ کے جاتے ہی اس گھر میںاندھیرے ہو گئے
بعد میں کچھ رنگ بدلا اس طرح حالات کا
جس طرح بارات میں نوشہ نہ ہو بارات کا
قائدِ اعظم گئے تو ہو گیا سونا وطن
قائدِملت گئے تو اِس طرح اُجڑا چمن
باغبانوں نے گلستاں کی بہاریں لوٹ لیں
کچھ لٹیروں نے شبستاں کی بہاریںلوٹ لیں
جو بھی آیا جھولیاں پھولوں سے بھر کر لے گیا
اور کوئی بلبلوں کے پر کتر کر لے گیا
بلبلوں کےگیت جگنو کی چمک تک لے گئے
قطر
خون پی پی کر چمن کا وہ سکندر بن گئے
خان زادوں نے مجھے لونڈی بنایا بعد میں
ہر سیا ست دان نے مجھ کو نچایا بعد میں
مشرق و مغرب میں میرا بانکپن لُوٹا گیا
تیری محنت کی کمائی کا چمن لُوٹا گیا
عظمتیں اسلاف کی سورج صفت ڈھلتی رہیں
کرسیوں کی آرزو میں کرسیاں چلتی رہیں
الغرض اس کشمکش میں مشرقی حصہ گیا
آج میرے واسطے اک دردِ دائم رہ گیا
تیرے کچھ بیٹوں نے اپنی ماں کا زیور کھو دیا
ایک گوہر کان میں ہے ایک گوہر کھو دیا
حیف اس گھر کے اجڑنے پر کوئی رویا نہیں
تیرے بیٹے کہہ رہے ہیں ہم نے کچھ کھویا نہیں
کلام: مشیر کاظمی
قائدِ اعظم کی تربت سے ابھی آیا ہوں میں
نظم کی لڑیوں میں کچھ موتی پرو لایا ہوں میں
میں گیا تھا پھول لے کر وہ تو سب مرجھا گئے
آپ بھی سنیے کہ آنسو آنکھ میں کیوں آ گئے
چند کلیاں فرش پر بکھری تھیں مرجھائی ہوئی
قبرِ قائد پر تھی ایک اُجڑی دلہن آئی ہوئی
آرسی کے آئینے میں بال تھا آیا ہوا
جگمگاتی کہکشاں کا رنگ کجلایا ہوا
قبر سے مٹی اٹھا کر مانگ میں بھرتی تھی وہ
رُخ پہ گھونگھٹ کو گرا کر بین یوں کرتی تھی وہ
سونے والے میں تمہارے خواب کی تعبیر ہوں
قائدِ اعظم میں وہ جاگیر ہوں تصویر ہوں
شاعرِ مشرق نے جس کی مانگ میں افشاں بھری
قائدِ ملت سے جس کے ہاتھ میں مہندی رچی
گیت وحدت کا میری شادی کے دن گایا گیا
چاند اور تارے کا آنچل مجھ پہ لہرایا گیا
میں کہ یکجہتی کے گہنوںسے ہوئی آراستہ
عزم و ایثار و اخوت سے ہوئی پیراستہ
تھے کروڑوں مرد و زَن شامل میری بارات میں
سچ کی کلیاں سی کِھلی تھیں خون کی برسات میں
نعر
ۂ تکبیر کی شہنائیوں میں آئی تھی
خون اور تلوار کی پرچھائیوں میں آئی تھیمیرا ڈولا گھر میں لا کر آپ جا کر سو گئے
آپ کے جاتے ہی اس گھر میںاندھیرے ہو گئے
بعد میں کچھ رنگ بدلا اس طرح حالات کا
جس طرح بارات میں نوشہ نہ ہو بارات کا
قائدِ اعظم گئے تو ہو گیا سونا وطن
قائدِملت گئے تو اِس طرح اُجڑا چمن
باغبانوں نے گلستاں کی بہاریں لوٹ لیں
کچھ لٹیروں نے شبستاں کی بہاریںلوٹ لیں
جو بھی آیا جھولیاں پھولوں سے بھر کر لے گیا
اور کوئی بلبلوں کے پر کتر کر لے گیا
بلبلوں کےگیت جگنو کی چمک تک لے گئے
قطر
ۂ شبنم کے چہروں کی دَمک تک لے گئے
چند بے دینوں کے گھر سونے کے مندر بن گئےخون پی پی کر چمن کا وہ سکندر بن گئے
خان زادوں نے مجھے لونڈی بنایا بعد میں
ہر سیا ست دان نے مجھ کو نچایا بعد میں
مشرق و مغرب میں میرا بانکپن لُوٹا گیا
تیری محنت کی کمائی کا چمن لُوٹا گیا
عظمتیں اسلاف کی سورج صفت ڈھلتی رہیں
کرسیوں کی آرزو میں کرسیاں چلتی رہیں
الغرض اس کشمکش میں مشرقی حصہ گیا
آج میرے واسطے اک دردِ دائم رہ گیا
تیرے کچھ بیٹوں نے اپنی ماں کا زیور کھو دیا
ایک گوہر کان میں ہے ایک گوہر کھو دیا
حیف اس گھر کے اجڑنے پر کوئی رویا نہیں
تیرے بیٹے کہہ رہے ہیں ہم نے کچھ کھویا نہیں
کلام: مشیر کاظمی