نظم... دوستو میں اجڑتا رہا عمر بھر... ناصر زیدی...!

متلاشی

محفلین
دوستو میں اجڑتا رہا عمر بھر​
تم کو لیکن میں آباد کرتا رہا​
میں تمہارے جمالِ چمن کے لئے​
اپنےگلشن کو برباد کرتا رہا​
تم کو سایہ فراہم کیا دھوپ میں​
خود سلگتا رہا ہوں شجر کی طرح​
سچ تو یہ ہے کہ میں ہم قدم ہی رہا​
ہر سفر میں غبارِ سفر کی طرح​
مجھ کو جس دم تمہاری ضرورت پڑی​
یوں ملے جیسے تم جانتے ہی نہیں​
کیا ستم ہے کہ تم عالمِ درد میں​
میری آواز پہچانتے ہی نہیں​
تم نہیں ہو مرے ساتھ تو کیا ہوا​
یہ تمہارا کرم تو مرے ساتھ ہے​
تم نے بخشا ہے جو مجھ کو غم دوستو​
وہ بھی میرے لیے ایک سوغات ہے​
ہر قدم پر مصائب کے طوفان ہیں​
دشتِ ہستی کے سب فاصلے ہیں کڑے​
مجھ کو آواز دینا مرے دوستو​
تم کو جس دم بھی میری ضرورت پڑے​
میری الفت ملے گی تمہیں بے غرض​
میرے جذبوں کو تم بے ریا پاؤ گے​
ہر قدم پر میرے بے وفا ساتھیو​
اپنے ناصر کو تم با وفا پاؤ گے​
ناصر زیدی​
 

الف عین

لائبریرین
عام طور پر غزل یا نظم کا پہلا مصرع بطور عنوان دے دیا جاتا ہے، یہ رجحان ادب کے ساتھ روا نہیں رکھا جانا چاہئے۔ عنوان نہ معلوم ہو تو ’ایک نظم‘ کہنا کافی ہے۔
 
Top