محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
تیز گرمی میں ٹھنڈا مٹکا
از محمد خلیل الرحمٰن
اِک مسافر غریب بے چارا
تھک چُکا تھا وہ پیاس کا مارا
شام سے پہلے گھر پہنچنا تھا
تیز گرمی سے پھر بھی بچنا تھا
دھوپ تھی تیز، لُو بھی چلتی تھی
ریت اُڑتی تھی، آگ جلتی تھی
راستے میں اُسے نظر آیا
اک گھنے پیڑ کا سایا
پیڑ کے نیچے جونہی وہ پہنچا
ایک مٹکا اُسے نظر آیا
ساتھ رکھا تھا آبخورا بھی
یعنی مٹی کا اِک کٹورا بھی
شُکر دب کا ادا کیا اُس نے
ٹھنڈا پانی جو پی لیا اُس نے
پانی پی کر اُسے خیال آیا
ذہن میں اُسکے یہ خیال آیا
کیسی گرمی ہے!, لُو بھی چلتی ہے
جیسے چولھے میں آگ جلتی ہے
پھر بھی پانی ہے کِس قدر ٹھنڈا
راز یہ کیوں سمجھ نہیں آتا
پاس رکھا ہوا تھا جو مٹکا
بات اِس کی سُنی تو یوں بولا
کارنامے ہیں یہ تو مٹی کے
میں بنایا گیا تھا مٹی سے
جب کہ مٹی کا اِک گھڑا ہوں میں
مجھ کو معلوم ہے کہ کیا ہوں میں
یوں ہمہ وقت ٹھنڈا رہتا ہوں
دھوپ، گرمی شتاب سکتا ہوں
لوگ ایسے ہی اچھے رہتے ہیں
گرم سہہ کر جو ٹھنڈے رہتے ہیں
از محمد خلیل الرحمٰن
اِک مسافر غریب بے چارا
تھک چُکا تھا وہ پیاس کا مارا
شام سے پہلے گھر پہنچنا تھا
تیز گرمی سے پھر بھی بچنا تھا
دھوپ تھی تیز، لُو بھی چلتی تھی
ریت اُڑتی تھی، آگ جلتی تھی
راستے میں اُسے نظر آیا
اک گھنے پیڑ کا سایا
پیڑ کے نیچے جونہی وہ پہنچا
ایک مٹکا اُسے نظر آیا
ساتھ رکھا تھا آبخورا بھی
یعنی مٹی کا اِک کٹورا بھی
شُکر دب کا ادا کیا اُس نے
ٹھنڈا پانی جو پی لیا اُس نے
پانی پی کر اُسے خیال آیا
ذہن میں اُسکے یہ خیال آیا
کیسی گرمی ہے!, لُو بھی چلتی ہے
جیسے چولھے میں آگ جلتی ہے
پھر بھی پانی ہے کِس قدر ٹھنڈا
راز یہ کیوں سمجھ نہیں آتا
پاس رکھا ہوا تھا جو مٹکا
بات اِس کی سُنی تو یوں بولا
کارنامے ہیں یہ تو مٹی کے
میں بنایا گیا تھا مٹی سے
جب کہ مٹی کا اِک گھڑا ہوں میں
مجھ کو معلوم ہے کہ کیا ہوں میں
یوں ہمہ وقت ٹھنڈا رہتا ہوں
دھوپ، گرمی شتاب سکتا ہوں
لوگ ایسے ہی اچھے رہتے ہیں
گرم سہہ کر جو ٹھنڈے رہتے ہیں
آخری تدوین: