نظم --- (آنسُو)

محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

یہ جو ہیں خاکستری نمکین سے
جو گرے ہیں آنکھ سے دل گیر کی
یہ فقط پانی کے ہی قطرے نہیں
یہ خدا کی قیمتی سوغات ہیں

حد سے جب بڑھنے لگے ہے دردِ دل
آنسوؤں میں ڈھل کے بہہ جاتا ہے یہ
گر خدا کا یہ نہ بندوبست ہو
غم کلیجہ چیر دیں مغموم کا

توبہ کرتے شرم سے روتے ہوئے
جب گنہگاروں کی آنکھوں سے بہیں
تو دعائے مغفرت بنتے ہیں یہ
ان کی بخشش کی وجہ بنتے ہیں یہ

جب گریں مسکین کی آنکھوں سے یہ
ہیں خدا کے عرش کو دیتے ہلا
جابر و قہار منصف سے یہاں
ظالموں کو پھر نہیں ملتی اماں

یہ بہیں غم خوار کی آنکھوں سے جب
تعزیت مرحوم کی کرتے ہوئے
حوصلہ دیتے ہیں دکھ سہنے کا یہ
بانٹ لیتے ہیں یہ غم دل گیر کا

خوبصورت آنکھ سے گرتے ہیں جب
موتیوں سے قیمتی ہوتے ہیں یہ
ایسے ہر آنسو میں یہ تاثیر ہے
موم کردیتا ہے پتھر دل کو یہ
 

الف عین

لائبریرین
چار چار مصرعے کے بندوں میں وزن کے علاوہ کچھ اور نظم نہیں نظر آتا پھر بند کیوں؟ نظ
کا تاثر بھی ایسا ہے کہ با قاعدہ مقفیٰ مصرعے ہوں اور کسی خاص نمونے کے
( انگریزی کے مطا بق
xay a
a b a b
a b b a)
تو بہتر لگے گی
کئی مصرعے روانی چاہتے ہیں
 
چار چار مصرعے کے بندوں میں وزن کے علاوہ کچھ اور نظم نہیں نظر آتا پھر بند کیوں؟ نظ
کا تاثر بھی ایسا ہے کہ با قاعدہ مقفیٰ مصرعے ہوں اور کسی خاص نمونے کے
( انگریزی کے مطا بق
xay a
a b a b
a b b a)
تو بہتر لگے گی
کئی مصرعے روانی چاہتے ہیں
محترم استاد الف عین صاحب! راہنمائی کا شکریہ ! آپ کی ہدایات کی روشنی میں دوبارہ کوشش کی ہے ۔ آپ سے نظر ثانی کی درخواست ہے۔

یہ جو ہیں خاکستری نمکین سے
جو گرے ہیں آنکھ سے دل گیر کی
یہ فقط قطرے نہیں ہیں آب کے
ارمغاں ہیں خالق و تواب کے

حد سے بڑھنے جب لگے ہے دردِ دل
آنسوؤں میں ڈھل کے بہہ جاتا ہے یہ
یہ خدائی نظم ہے تسکین کا
تا کہ پھٹ جائے نہ دل غمگین کا

توبہ کرکے شرم سے روتے ہوئے
عاصیوں کی آنکھ سے جب یہ بہیں
تو دعائے مغفرت کرتے ہیں یہ
ان کی بخشش کی وجہ بنتے ہیں یہ

مونس و غم خوار کی آنکھوں سے گر
حوصلہ دیتے ہوئے بہنے لگیں
دم دلاسہ بن کے یہ معصوم کا
بانٹ لیتے ہیں یہ غم مغموم کا

نازنیں کی آنکھ سے گرتے ہیں جب
موتیوں سے قیمتی ہوتے ہیں یہ
ایسے ہر آنسو میں ہے تاثیر یہ
عاشقوں کا دے کلیجہ چیر یہ
 

الف عین

لائبریرین
محترم استاد الف عین صاحب! راہنمائی کا شکریہ ! آپ کی ہدایات کی روشنی میں دوبارہ کوشش کی ہے ۔ آپ سے نظر ثانی کی درخواست ہے۔

یہ جو ہیں خاکستری نمکین سے
جو گرے ہیں آنکھ سے دل گیر کی
یہ فقط قطرے نہیں ہیں آب کے
ارمغاں ہیں خالق و تواب کے
'کسی دلگیر کی آنکھوں' کہا جائے تو بہتر ہے
چوتھا مصرع بہت عربی زدہ ہو گیا
حد سے بڑھنے جب لگے ہے دردِ دل
آنسوؤں میں ڈھل کے بہہ جاتا ہے یہ
یہ خدائی نظم ہے تسکین کا
تا کہ پھٹ جائے نہ دل غمگین کا
پہلا مصرع روانی چاہتا ہےجیسے
حد سے جب بڑھنے لگے دل کی چبھن (یا کچھ اور)
توبہ کرکے شرم سے روتے ہوئے
عاصیوں کی آنکھ سے جب یہ بہیں
تو دعائے مغفرت کرتے ہیں یہ
ان کی بخشش کی وجہ بنتے ہیں یہ
شرم سے روتے ہوئے، توبہ کے ساتھ
عاصیوں کی آنکھ سے بہتے ہیں جب
....
ان کی بخشش کا یہ بنتے ہیں سبب
(وجہ کا درست تلفظ ہ ساکن کے ساتھ ہے، درد کی طرح)
مونس و غم خوار کی آنکھوں سے گر
حوصلہ دیتے ہوئے بہنے لگیں
دم دلاسہ بن کے یہ معصوم کا
بانٹ لیتے ہیں یہ غم مغموم کا
... آنکھوں سے جب
دم دلاسہ عجیب ترکیب ہے، اسے کچھ اور طرح کہو
معصوم کا؟ ضروری نہیں ہے کہ جسے تسلی دی جائے، وہ معصوم ہی ہو
نازنیں کی آنکھ سے گرتے ہیں جب
موتیوں سے قیمتی ہوتے ہیں یہ
ایسے ہر آنسو میں ہے تاثیر یہ
عاشقوں کا دے کلیجہ چیر یہ
نازنیں کی بجائے کچھ اور لفظ لاؤ، اور یہاں بھی "آنکھوں" کہو
مقفیٰ مصرعے رواں نہیں یوں کہیں تو؟
ایسے ہر آنسو میں یہ تاثیر ہے
عاشقوں کا جو کلیجہ چیر دے
یا قوافی ہی بدل دو، ہے اور دے میں حرکات مختلف ہیں اگرچہ کچھ لوگ درست مان لیتے ایسے قوافی کو
 
یہ جو ہیں خاکستری نمکین سے
جو گرے ہیں آنکھ سے دل گیر کی
یہ فقط قطرے نہیں ہیں آب کے
ارمغاں ہیں خالق و تواب کے

'کسی دلگیر کی آنکھوں' کہا جائے تو بہتر ہے
چوتھا مصرع بہت عربی زدہ ہو گیا
اشک یہ خاکستری نمکین سے
جو گرے دل گیر کی آنکھوں سے ہیں
یہ فقط قطرے نہیں ہیں آب کے
یہ ہیں تحفے خالق و تواب کے

حد سے بڑھنے جب لگے ہے دردِ دل
آنسوؤں میں ڈھل کے بہہ جاتا ہے یہ
یہ خدائی نظم ہے تسکین کا
تا کہ پھٹ جائے نہ دل غمگین کا

پہلا مصرع روانی چاہتا ہےجیسے
حد سے جب بڑھنے لگے دل کی چبھن (یا کچھ اور)
حد سے دل کا درد بڑھنے جب لگے
آنسوؤں میں ڈھل کے بہہ جاتا ہے یہ
یہ خدائی نظم ہے تسکین کا
تا کہ پھٹ جائے نہ دل غمگین کا

توبہ کرکے شرم سے روتے ہوئے
عاصیوں کی آنکھ سے جب یہ بہیں
تو دعائے مغفرت کرتے ہیں یہ
ان کی بخشش کی وجہ بنتے ہیں یہ

شرم سے روتے ہوئے، توبہ کے ساتھ
عاصیوں کی آنکھ سے بہتے ہیں جب
....
ان کی بخشش کا یہ بنتے ہیں سبب
(وجہ کا درست تلفظ ہ ساکن کے ساتھ ہے، درد کی طرح)
توبہ کرتے شرم سے روتے ہوئے
جب کسی عاصی کی آنکھوں سے بہیں
تو دعائے مغفرت کرتے ہیں یہ
ان کی بخشش کا سبب بنتے ہیں یہ

مونس و غم خوار کی آنکھوں سے گر
حوصلہ دیتے ہوئے بہنے لگیں
دم دلاسہ بن کے یہ معصوم کا
بانٹ لیتے ہیں یہ غم مغموم کا

... آنکھوں سے جب
دم دلاسہ عجیب ترکیب ہے، اسے کچھ اور طرح کہو
معصوم کا؟ ضروری نہیں ہے کہ جسے تسلی دی جائے، وہ معصوم ہی ہو
مونس و غم خوار کی آنکھوں سے جب
حوصلہ دیتے ہوئے بہنے لگیں
یہ دلاسہ بنتے ہیں معصوم کا
بانٹ لیتے ہیں یہ غم مغموم کا

نازنیں کی آنکھ سے گرتے ہیں جب
موتیوں سے قیمتی ہوتے ہیں یہ
ایسے ہر آنسو میں ہے تاثیر یہ
عاشقوں کا دے کلیجہ چیر یہ

نازنیں کی بجائے کچھ اور لفظ لاؤ، اور یہاں بھی "آنکھوں" کہو
مقفیٰ مصرعے رواں نہیں یوں کہیں تو؟
ایسے ہر آنسو میں یہ تاثیر ہے
عاشقوں کا جو کلیجہ چیر دے
یا قوافی ہی بدل دو، ہے اور دے میں حرکات مختلف ہیں اگرچہ کچھ لوگ درست مان لیتے ایسے قوافی کو
بہہ رہے ہوں جب حسیں آنکھوں سے یہ
موتیوں سے قیمتی ہوتے ہیں یہ
دیکھ کر یہ خوبصورت چشمِ تر
جان و دل کو واردیں آشفتہ سر

سر الف عین صاحب! دوبارہ کوششش کی ہے۔ مہربانی فرماکر اپنی رائے سے نوازیں۔
 

الف عین

لائبریرین
اور کوئی مشورے نہیں دے رہا ہے آج کل، عظیم ، شکیل احمد خان23 ؟ اس وجہ سے میں نے بھی یہاں آنا کم کم کر دیا تھا ۔ بہر حال
پہلے بند میں "کسی" کے بغیر مجھے صرف دلگیر پسند نہیں
اور نہ تواب جیسا خالص عربی لفظ
دوسرا بند ٹھیک ہے
تیسرے میں "سبب بنتے" میں تنافر کی وجہ سے ، اور 'تو' کے طویل کھنچنے کے سقم کی وجہ سے میں نے دو مصرعوں کی تجویز رکھی تھی جن کو قبول نہیں کیا گیا، یعنی جب اور سبب قوافی رکھے جا سکتے ہیں
چوتھے میں معصوم لفظ مجھے قابل قبول نہیں لگ رہا
آخری بند میں
پہلے دونوں مصرعوں میں" یہ" ردیف لگ رہی ہے
 
اور کوئی مشورے نہیں دے رہا ہے آج کل، عظیم ، شکیل احمد خان23 ؟ اس وجہ سے میں نے بھی یہاں آنا کم کم کر دیا تھا ۔ بہر حال
پہلے بند میں "کسی" کے بغیر مجھے صرف دلگیر پسند نہیں
اور نہ تواب جیسا خالص عربی لفظ
دوسرا بند ٹھیک ہے
تیسرے میں "سبب بنتے" میں تنافر کی وجہ سے ، اور 'تو' کے طویل کھنچنے کے سقم کی وجہ سے میں نے دو مصرعوں کی تجویز رکھی تھی جن کو قبول نہیں کیا گیا، یعنی جب اور سبب قوافی رکھے جا سکتے ہیں
چوتھے میں معصوم لفظ مجھے قابل قبول نہیں لگ رہا
آخری بند میں
پہلے دونوں مصرعوں میں" یہ" ردیف لگ رہی ہے
محترم سر الف عین صاحب ! آپ کی تجاویز کے مطابق دوبارہ کوشش کی ہے۔ ترتیب بھی آپ کے فرمان کے مطابق بدل دی ہے -
x a y a

کرب میں ڈوبے ہوئے انسان کی
آنکھ سے بہتا ہوا پانی ہیں یہ
ہیں مگر تحفہ خدا کی ذات کا
درد کے تریاق کا ثانی ہیں یہ

حد سے دل کا درد بڑھ جائے اگر
غم سے پھٹ سکتا ہے دل غمگین کا
آنسوؤں میں ڈھل کے بہہ جاتا ہے یہ
یہ خدائی نظم ہے تسکین کا

مونس و غم خوار بہتی آنکھ سے
دے اگر پُرسہ کسی مرحوم کا
غمزدہ کو حوصلہ دیتے ہوئے
بانٹ لیتے ہیں یہ غم مغموم کا

شرم سے روتے ہوئے، توبہ کے ساتھ
عاصیوں کی آنکھ سے بہتے ہیں جب
تو دعائے مغفرت کرتے ہیں یہ
ان کی بخشش کا یہ بنتے ہیں سبب

وصل کی شب حالِ دل کہتے ہوئے
جب کسی کی آنکھ سے بہتے ہیں یہ
جو زباں سے ہو نہیں سکتا بیاں
خامشی سے وہ بھی کہہ دیتے ہیں یہ

موتیوں سے قیمتی ہوجائیں یہ
جب حسیں آنکھوں سے یہ بہنے لگیں
دل ربا کے آنسوؤں میں ہے اثر
عاشقوں کا یہ کلیجہ چیر دیں
 
آخری تدوین:
Top