اک انسان
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صبح سویرے بس اسٹاپ پر کھڑے ہونا بھی ایک دلچسپ تجربہ ہوتا ہے۔ طرح طرح کے کردار اپنی اپنی منزلوں پر پہنچنے کیلئے ایک مرکز پر جمع ہوتے ہیں۔ آج بھی ایسے ہی چند دلچسپ کرداروں کے ہمراہ میں اپنی بس کا انتظار کررہا تھا اور ساتھ ساتھ اُن لوگوں کو دلچسپی سے دیکھ کر انتظار کا کرب بھی کم کررہا تھا۔ کچھ لوگوں کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں مگر وہ جاگ نہیں رہے تھے شائد بعض اوقات جاگنا بھی مجبوری بن جاتا ہے!! بعض تو ایسے تھے جنہوں نے منہ دھونا بھی گوارا نہیں کیا، مردوں میں یہی خرابی ہے۔ خواتین منہ نہ بھی دھوئیں تو اُن کا میک اپ ساری کمی پوری کردیتا ہے۔ بس اسٹاپ پر کھڑے یہ 20,25 کردار کم تھے کہ ایک سب سے نمایاں اور الگ کردار اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ خراماں خراماں چلتا ہوا آنے لگا۔ نگاہیں زمین پر گاڑے چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتا ہوا وہ بھی اس مرکز کی طرف آرہا تھا، پہلی نظر میں ہی متاثر کرنے والی شخصیت کا مالک وہ کردار مکمل طو رپر غلاظتوں میں لپٹا ہوا تھا!! چلتی پھرتی کچرہ کنڈی۔ وہی چرسی، موالی جو سڑکوں پر جابجا نظر آتے ہیں، جن پر نظر پڑتے ہی انسان اپنی نظریں اچھے نظاروں کیلئے سمیٹ کر اُن سے منہ پھیر لیتا ہے لیکن کوئی تو خاص بات تھی اس میں کہ وہ اُن سے بے حد الگ تھا، شاید یہ کہ میں نے آج تک اِس جیسے جتنے دیکھے تھے یہ اُن سب کا سردار تھا، اُن سب سے بڑھ کر غلیظ ترین!! لمبے لمبے اُلجھے ہوئے بال، جسم پر تہہ در تہہ میل، گندے کپڑوں کا پورا لنڈا بازار سجا رکھا تھا جسم پر، جانے کب سے نہیں نہایا ہوگا۔ مجھے اُس سے شدید گھن آرہی تھی اور میں اپنی توجہ کسی اور جانب کرنا چاہتا تھا لیکن وہ میرے دماغ پر قابض ہوچکا تھا، نگاہیں کہیں اور بھی کروں تو اُسی کا خیال.... اتنا گندہ ہے کہ سمندر میں بھی پھینک دو تو خود صاف ہونے کی بجائے سمندر ہی گدلا کردے!! لمبے بال کیچڑ میں اٹے ہوئے لٹیں بنائیں اُس کے وجود کے ارد گرد سنپولوں کی طرح لپٹے ہوئے تھے، چہرے پر میل کی اتنی تہیں کہ جانے کتنی بار منہ دھویا جائے تو اصل چہرہ برآمد ہو!!
وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا میری ہی جانب چلا آرہا تھا، میں نے ایک عجیب بات نوٹ کی!! دنیا کے اُس گندے ترین شخص سے بچنے کی کوئی بھی کوشش نہیں کررہا تھا بلکہ وہ خود ہی اُجلے چہروں اور خوشبو میں لپٹے لبادے اُوڑھے انسانوں سے بچ کر چل رہا تھا، مجھے ہنسی آگئی کہ عجیب شخص ہے غلاظتوں سے خود اٹا ہوا ہے، پاک صاف انسانوں کو اُس سے بچنا چاہئے کہ کہیں کوئی ہلکی سی ٹکر اُن کے وجود کو بھی اس غلیظ کے بدبودار کردار سے داغ دار نہ کردے، شائد خود کو مہاراج سمجھ رہا ہے!! خود کے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے؟ میری نظر سے دیکھتا تو معلوم ہوتا کہ مجھے اُس شخص سے کتنی گھن آرہی تھی اور میں اُسے دنیا کا غلیظ ترین انسان قرار دے چکا تھا، چلتی پھرتی ان جیسی کچرہ کنڈیوں کا ٹھکانہ بھی وہی ہوتا ہے بلکہ مجھے تو لگتا ہے یہ بھی کسی محبت کا ثبوت ہوگا جسے کچرے میں پھینک کر ضائع کردیا گیا!!.... حرام زادہ!!
نہیں معلوم مجھے اُس سے اتنی نفرت کیوں ہورہی تھی، مگر دل ہی دل میں موٹی سی گالی دینے کے بعد میرے چہرے پر مسکراہٹ کے اثرات آنے لگے جسے میں نے جمائی کے انداز میں منہ کھول کر زائل کردیا!! غلاظتوں کا ڈھیر پاک صاف انسانوں سے بچتا بچاتا میرے نزدیک ہی پہنچ چکا تھا، میں نے دیکھا کہ اُس گندے وجود کے میل سے اٹے ہونٹ مسلسل ہل رہے ہیں، تجسس ہوا کہ کہیں میں دل میں اور یہ زبان سے!! وہ دوسرے انسانوں سے تو بچ بچ کر چل رہا تھا لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ میری ہی سمت آرہا ہے، اُس کے مسلسل ہلتے ہوئے ہونٹوں نے مجھے تشویش میں مبتلا کردیا تھا اور میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ اُس کی گندی زبان سے غلاظتوں کا کیا سامان اُمڈ رہا ہے؟؟ وہ میرے بالکل نزدیک آچکا تھا، میں ذرا سا ہٹ گیا لیکن میری پوری توجہ اُس کے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کی طرف تھی کہ میں بھی تو دیکھوں یہ کیا بکواس کررہا ہے!! .... اچانک مجھے اپنے کانوں میں سیسہ گرتا ہوا محسوس ہوا جو میرے پورے وجود کو جھلسا رہا تھا، الفاظ تھے کہ کوئی ترازو!! غلاظتوں کا محور اُلٹ رہا تھا، میری اتنی سوچوں کا اتنی باتوں کا فقط چھ الفاظ میں جواب اور وہ بھی اتنا سخت!! وہ مسلسل ایک جملے کا ورد کرتا ہوا میرے سامنے سے گزر رہا تھا، اور اپنے وجود کی ساری گند مجھ پر اُنڈیل رہا تھا....
تن میرا.... من تیرا.... اِک جیسا!!
ہم نظاروں کے قیدی ہیں، چہرے دیکھ کر شرافت کا اندازہ لگانے والے، وضع قطع دیکھ کر کردار کا تعین کرنے والے، لفظوں سے سچائی پرکھنے والے، ہمیں کسی کا گندہ وجود ”نظر“ آجاتا ہے مگر اپنا آپ نہیں دیکھ پاتے!! ہمیں کسی کی بھینگی آنکھیں، لولے ہاتھ، لنگڑی ٹانگیں نظر آجاتی ہیں مگر ہم پھر بھی نہیں جان پاتے کہ وہ ہے کون؟ ہمیں یہ تو دکھائی دیتا ہے کہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا!! مگر ہمیں یہ نظر نہیں آتا کہ چربی کے جس ڈھیلے سے ہم دیکھ رہے ہیں اُس کے پیچھے کون سی طاقت ہے؟ مجھے کوئی سمجھائے کہ ”من“ کیا ہوتا ہے.... روح کس شئے کا نام ہے؟ مجھے بتلاﺅ کہ وہ کیسی ہوتی ہے؟ کیسے ایک انسان کے جسم میں موجود ہے کہ جب نکلتی ہے تو وجود پر کہیں نشان تک نہیں پڑتا؟ وہ کسی خاص عضو پر بیٹھی حکمران ہے یا پورے وجود میں گھلی ہوئی ہے؟ کسی کمپیوٹر چپ کی طرح لگی ہوئی ہے یا میرے وجود کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے؟ تم نے میرے تن کے کپڑے بنا کر اُسے سب کے سامنے برہنہ ہونے سے بچالیا میری اُس روح کیلئے کیا کرسکتے ہو؟ کچھ بھی نہیں!! شائد ہم اپنے اس وجود جسے تم حقیقت اور میں ”عکسِ حقیقت“ کہتا ہوں کیلئے تو کچھ کرسکتے ہیں، ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہیں، یہ جسم گھائل ہو تو مرہم رکھ سکتے ہیں لیکن اُس ”حقیقت“ جس کا سایہ اور عکس ہمارا وجود ہے اُس کیلئے ہمیں خود ہی کچھ کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ کوئی نہیں جان سکتا!! کسی دوسرے کی اُس تک رسائی نہیں ہوتی، بس ہم جان سکتے ہیں کہ وہ کتنی میلی ہوچکی ہے؟ کتنی غلاظتوں میں اٹی ہے؟ ہم بس ایک دوسرے کی حقیقتوں کا عکس دیکھ سکتے ہیں، اندازے، گمان!!.... حقیقت تو فقط ہم جانیں اور ہمارا رب جانے....!!