نشان حقیقت کی آرزو --- ڈاکٹر سر محمد اقبال کی نظم کے جواب میں

رانا

محفلین
ابھی قرۃ العین کے کھولے گئے اس دھاگے میں ڈاکٹر سر محمد اقبال کی نظم "کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں" دیکھی تو فورا ہی ذہن ایک دوسری نظم کی چلا گیا جو کافی عرصہ پہلے پڑھی تھی۔ یہ اس نظم کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ موقع محل کی مناسبت سے شئیر کررہا ہوں۔

مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں
جو خلوص دل کی رمق بھی ہے ترے ادعائے نیاز میں

ترے دل میں میرا ظہور ہے ترا سر ہی خود سر طور ہے
تری آنکھ میں مرا نور ہے مجھے کون کہتا ہے دور ہے
مجھے دیکھتا جو نہیں ہے تو، یہ تری نظر کا قصور ہے

مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تری جبین نیاز میں

مجھے دیکھ رفعت کوہ میں مجھے دیکھ پستی کاہ میں
مجھے دیکھ عجز فقیر میں مجھے دیکھ شوکت شاہ میں
نہ دکھائی دوں تو یہ فکر کر کہیں فرق ہو نہ نگاہ میں

مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تری جبین نیاز میں

مجھے ڈھونڈ دل کی تڑپ میں تو مجھے دیکھ روئے نگار میں
کبھی بلبلوں کی صدا میں سن کبھی دیکھ گل کے نکھار میں
میری ایک شان خزاں میں ہے میری ایک شان بہار میں

مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تری جبین نیاز میں

میرا نور شکل ہلال میں مرا حسن بدر کمال میں
کبھی دیکھ طرز جمال میں کبھی دیکھ شان جلال میں
رگ جاں سے ہوں میں قریب تر، ترا دل ہے کس کے خیال میں

مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تری جبین نیاز میں

انتخاب از "درعدن"
 

امان زرگر

محفلین
اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی خوبی ہی یہی ہے کہ وہ دل میں اک تڑپ پیدا کرتے ہیں۔۔ اس جوابی نظم کے شاعر کی طرح ہر دل میں اقبال کو جواب دینے کی سعی ابھرتی ہے اور شاعر کا کمال ہی یہی سعی ابھارنا ہے وگرنہ لا یعنی مصرے تو ہزارہا لکھے لوگوں نے۔۔۔
 
Top