دخل در معقولات کے لیے پیشگی معذرت۔
ایک اچھے خاصے معلوماتی مضمون کو آپ نے آخری پیراگراف میں کچھ مخصوص نتائج اخذ کر کے اِس کا رُخ یکسر ہی موڑ دیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ اپنے اس مضمون کو اس نہج پر رکھتے کہ ساری اقوامِ عالم اور مذاہبِ عالم اپنے اپنے مخصوص مذہبی و غیر مذہبی، ثقافتی اور روایتی تہوار صدیوں سے مناتے آ رہے ہیں اور دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے مسلمان بھی اس سے مبرا نہیں ہیں، جیسے ایران میں کچھ اور تہوار ہیں تو برصغیر میں کچھ اور، مصر میں کچھ اور ہونگے تو انڈونیشیا میں کچھ اور وغیرہ وغیرہ، پھر شاید صحیح معنوں میں یہ مضمون تاریخی اور تحقیقی کہلوانے کا حقدار ہوتا، ابھی تو بس کچھ زاہد خشک والا ہی معاملہ ہے