نبوی مسکراہٹیں

نبوی مسکراہٹیں
دین سے وابستہ لوگوں اور دینی پیشواؤں کام نام آتے ہی عموما کسی خشک مزاج شخصیت کا خاکہ ذہن میں آتا ہے جس کے چہرے پر کسی نے مسکراہٹ دیکھی ہو، نہ وہ ہنستا ہو، نہ کسی کے ساتھ گھلتا ملتا ہو،لیکن رہبر کامل صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زندگی ان چیزوں سے پاک تھی۔ وہ (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)اپنے صحابہ کے ساتھ گھل مل کر رہتے تھے، ہلکا پھلکا مزاح بھی فرما لیا کرتے تھے۔ عظیم کارنامے انجام دینے والی شخصیت کے لیے یہ ایک لازمی وصف ہے کہ وہ فرائض حیات کے بوجھ کو اپنے تبسم سے گوارا بنا دےاور ساتھیوں کے دلوں میں گھر کر لے۔ چنانچہ چہرہ مبارک پر ایک مسکراہٹ رہتی تھی۔ توازن و اعتدال کے ساتھ مزاح فرماتے تھے اور مجلس میں شگفتگی کی فضا پیدا کر دیتے۔لیکن مزاح کا رنگ آٹے میں نمک کی طرح ہلکا رہتا اور اس میں بھی نہ تو خلاف حق کوئی بات شامل ہوتی، نہ کسی کی دلآزاری کی جاتی، نہ ٹھٹھے لگا کر ہنسنا معمول تھا، غنچوں کاسا تبسم ہوتا جس میں زیادہ سے زیادہ دانتوں کے کیلے دکھائی دیتے، حلق نظر نہ آتا۔ عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
((((( [ARABIC]ما رأيت أحداً أكثرَ تَبسماً مِن رَسولُ الله ُ صَلى الله عِليهِ وسَلَّم[/ARABIC] ::: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے زیادہ کسی کو مسکراتے نہیں دیکھا )))))
(سنن ترمذی کتاب المناقب عن رسول اللہ باب فی بشاشۃ النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، تحقيق الألباني :صحيح مختصر الشمائل ( 194 ) ، المشكاة ( 5829 / التحقيق الثانى)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے عظیم الشان مقام کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مزاح فرما لیتے تھے ان کی یہ مبارک اور مہربان عادت دیکھ کر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو تعجب ہواتو عرض کیا ::: """ یارسول الله إنك تداعبنا ::: اے اللہ کے رسول آپ ہمارے ساتھ مزاح بھی فرماتے ہیں ؟ """ تو اِرشاد فرمایا (((((نعم غير أني لا أقول إلا حقاً ::: جی ہاں (میں مذاق کرتا ہوں ) لیکن میں حق (بات)کے علاوہ کچھ اور نہیں کہتا )))))
(سنن ترمذی کتاب البر و الصلۃ عن رسول اللہ باب ما جاء فی المزاح۔تحقيق الألباني :صحيح ، الصحيحة ( 1726 ) ، مختصر الشمائل المحمدیۃ للالبانی ص 125)
بسا اوقات ایسا واقعہ بیان فرماتے جس میں مزاح اور تربیت دونوں کی آمیزش ہوتی اور اپنی اثر انگیزی کی وجہ سے وہ سامعین کی یادداشت کا حصہ بن جاتا۔بطور مثال درج ذیل واقعہ ملاحظہ کیجیے جس میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ، اس کی رحمت و مغفرت کا بیان بھی ہے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آنے کا سامان بھی۔
ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((([ARABIC] إني لأعلم أول رجل يدخل الجنة وآخر رجل يخرج من النار : يؤتى بالرجل يوم القيامة فيقال : اعرضوا عليه صغار ذنوبه ويخبأ عنه كبارها . فيقال له : عملت يوم كذا كذا وكذا وهو مقر لا ينكر وهو مشفق من كبارها فيقال : أعطوه مكان كل سيئة حسنة . فيقول : إن لي ذنوبا لا أراها ههنا :::[/ARABIC]
بے شک میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا اور اس شخص کو بھی جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا، جسے قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا “اس کے چھوٹے گناہ اس پر پیش کرو” اوراس کے بڑے گناہ اس سےاوجھل رکھ کر کہا جائے گا “فلاں دن تو نے فلاں فلاں کام کیا تھا نا؟”۔ وہ اقرار کرے گا اور انکار نہیں کر سکے گا۔ اور بڑے گناہوں کے پیش کیے جانے سے ڈر رہا ہو گا۔ پھر حکم ہو گا “ہر گناہ کے بدلے میں اسے ایک نیکی دے دو”۔ اس پر وہ بول اٹھے گا “ابھی تو میرے اور گناہ بھی باقی ہیں جنہیں میں یہاں دیکھ ہی نہیں رہا”۔))))) ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ((((([ARABIC]فلقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك حتى بدت نواجذه [/ARABIC] ::: میں نے دیکھا کہ (یہ بات بیان فرماتے ہوئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک ان کے (سامنے والےنوکیلے درمیانی دو داتنوں کے دائیں بائیں والے)دانت مبارک نُمایاں ہو گئے )))))
(مسند احمد بن حنبل/ مسند الانصار /حدیث ابی ذر الغفاری رضی اللہ عنہ۔ مختصر الشمائل ٕالمحمدیہ للالبانی /ص 121)
بڑے بڑے کام کرنے والے لوگ بالعموم رابطہ عام کے لیے وقت نہیں نکال سکتے اور نہ ہر طرف توجہ دے سکتے ہیں۔ بعض بڑے لوگوں میں خلوت پسندی اور خشک مزاجی پیدا ہو جاتی ہے اور کچھ تکبر کا شکار ہو کر اپنے لیے ایک عالم بالا بنا لیتے ہیں مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم انتہائی عظمت کے مقام پر فائز ہو کر بھی اپنے ساتھیوں میں گھل مل جاتے تھے۔تکبر، علیحدگی پسندی کا شائبہ تک نہ تھایہاں تک کہ بچوں سے بھی مزاح فرما لیتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی ابوعمیر نےنعیر نامی پرندہ پال رکھا تھا جو مر گیا۔ ابوعمیر اس کے مرنے پر مغموم تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم انہیں بہلانے کے لیےبطور مزاح فرماتے جاتے تھے:
((((([ARABIC] يا أبا عمير ما فعل النغير[/ARABIC] ::: اے ابو عمیر، کیا کیا نغیر نے”؟)))))
(سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ علی البسط۔ مختتصر الشمائل المحمدیہ للالبانی ص 125)
اس کا اصل لطف عربی عبارت میں ہی ہے۔ عمیر اور نغیر کے ہم قافیہ ہونے سے مزاح کی صورت پیدا ہو گئی ہے۔
بے تکلفی کا یہ عالم فقط قریبی احباب کے ساتھ ہی نہ تھا بلکہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی شفقت اور محبت کا دائرہ اپنے ہر چھوٹے بڑےساتھی کو گھیرے میں لیے ہوا تھا۔ زاہر نامی ایک بدوی صحابی تھے جو دیہات سے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے لیے مخلصانہ جذبے سے ہدیہ لایا کرتے تھے۔ پھر جب وہ واپسی کا ارادہ کرتے تو نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ان کے لیے کچھ سامان تیار کرا دیتے اور اظہار محبت کے طور پر فرماتے کہ “زاہر ہمارا دیہات ہے اور ہم اس کا شہر ہیں”۔ یہ زاہر ایک دن بازار میں کچھ سامان بیچ رہے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا تو چپکے سے پیچھے جا کر آنکھوں پر ہاتھ دیے اور پوچھا “بتاؤ میں کون ہوں؟”وہ پہلے تو کچھ نہ سمجھے، پھر جب معلوم ہوا تو فرط اشتیاق میں نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سینے سے اپنے کندھے ملتے رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے (مزاحًا) فرمایا: “کوئی ہے جو اس غلام کو خریدتا ہو”۔زاہر کہنے لگے “اے اللہ کے رسول! مجھے جیسے ناکارہ غلام کو جو خریدے گا گھاٹے میں رہے گا”۔ فرمایا “تم اللہ کے ہاں ناکارہ نہیں ہو”۔( مختصرالشمائل المحمدیہ للالبانی )
الفاظ کی طرز ادائیگی بدلنے سےبعض اوقات مفہوم بھی بدل جاتا ہے جس کا بروقت اور برجستہ استعمال چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ لے آنے کا سبب بن جایا کرتا ہے۔ اسوہ حسنہ سے ایسی ہی ایک خوبصورت مثال ملاحظہ کیجیے:
[ARABIC]أن رجلا استحمل رسول الله صلى الله عليه وسلم . فقال[/ARABIC] ::: انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے سواری مانگی، تو (مزاحاً ) اِرشاد فرمایا ((((( [ARABIC]إني حاملك على ولد ناقة [/ARABIC]::: میں تمہیں اونٹی کے بچے پر سوار کروں گا ))))) تو ا س شخص نے کہا """ [ARABIC]يا رسول الله ما أصنع بولد الناقة ؟[/ARABIC] ::: اے اللہ رسول! اونٹی کے بچے کو لے کر میں کیا کروں گا؟""" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((((( [ARABIC]وهل تلد الإبل إلا النّوق ؟ [/ARABIC]::: ہر اونٹ کسی اونٹی کا بچہ ہی تو ہوتا ہے))))) (سنن ترمذی کتاب البر والصلۃ عن رسول اللہ۔ باب ما جاء فی المزاح۔ مختصرالشمائل المحمدیہ للالبانی ص 126)
اسی طرح کی ایک دوسری مثال درج ذیل واقعے میں ملتی ہے:
حسن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک بوڑھی عورت نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی “اے اللہ کے رسول! دعا کیجیے کہ اللہ مجھے جنت میں داخل کر دے” تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ((((([ARABIC] يا أم فلان إن الجنة لا تدخلها عجوز[/ARABIC] ::: اے فلاں کی ماں! جنت میں تو کوئی بوڑھی عورت داخل نہیں ہو گی))))) وہ یہ سن کر رونے لگیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےحاضرین سے فرمایا:
((((( [ARABIC]أخبروها أنها لا تدخلها وهي عجوز إن الله تعالى يقول """ إنا أنشأناهن إنشاء فجعلناهن أبكارا عربا أترابا [/ARABIC] ::: اسے بتاؤ کہ وہ اس حال میں جنت میں نہیں جائے گی کہ وہ بوڑھی ہو ( یعنی اللہ تعالیٰ جنتی عورتوں کو جوان کر کے اس میں داخل کرےگا) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “ہم نے اٹھایا ان (جنتی) عورتوں کو ایک اچھی اٹھان پر، پھر کیا انکو کنواریاں، پیار دلانے والیاں، ہم عمر))))) (الشمائل المحمدیہ للامام الترمذی باب ما جاء فی صفۃ مزاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ۔ مختصر الشمائل المحمدیہ للالبانی ص 128 )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی حیات مبارکہ سے لی گئی یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ مسلمان کی زندگی کا ہر پہلو معتدل ہوتا ہے۔ وہ دنیا کی رنگینیوں میں اس طرح نہیں کھو جا تا کہ آخرت کو فراموش کر دے تو دوسری جانب اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدوں کا خیال رکھتے ہوئےجائز تفریح اور خوش مجلسی سے بھی مستفید ہوتا ہے۔ انسانیت کا کوئی تصور ہم جذبات کو الگ رکھ کر نہیں کر سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ان نام نہاد بڑے لوگوں میں سے نہ تھے جو سنگ دل اور تغافل کیش ثابت ہوتے ہیں۔بعد کے لوگوں کو اس رنگ مزاح کا حال سن کر تعجب ہوتا ہے۔ کیونکہ اکثر متقیوں اور اللہ کی عبادت کرے والوں کی رونی صورتیں اور خشک طبیعتیں لوگوں کے سامنے رہی ہیں اور عموما دین و مذہب کے ساتھ خشک مزاجی کا تصور موجود رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا شوق عبادت، اللہ تعالیٰ کے لیے ان کی خشیت اور رسالت کی بھاری ذمےد اریوں کا خیال کیا جائے تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی اس قدر مصروف ، اعلیٰ ترین اور مکمل ترین تقویٰ والی زندگی میں بھی ان مسکراہٹوں کے لیے کیسے جگہ پیدا فرمائی۔ ایسی ہمہ گیری اور توازن یقینًا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بلند منصب ہی کے شایان شان ہو سکتا تھا۔ یہ واقعات جہاں ہمارے لیے مزاح کی جائز صورتوں کی وضاحت کرتے ہیں وہیں ان میں یہ سبق بھی پوشیدہ ہے کہ متوازن زندگی کا ایک لازمی جز جائز تفریحات ہیں۔ یہ جز ساقط ہو جائے تو زندگی بوجھ بن جاتی ہے اور جس نظام میں جائز تفریحات کی گنجائش نہ رکھی گئی ہو اسے کوئی معاشرہ زیادہ دیر تک نہیں اٹھا سکتا۔
اپنے روابط کو ای میل کرنے کے لیے اس مضمون کاپی ڈی ایف برقی نسخہ یہاں سے اتاریے۔
 

فرخ

محفلین
جزاک اللہِ خیراً و کثیراًٍ
بہت خوبصورت تحریر اور پڑھ کر بہت مزا آیا۔
 
Top