نا معلوم : ٹوٹ گئے سیال نگینے، پھوٹ بہے رخساروں پر

سید زبیر

محفلین
انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
تم کیا سمجھو تم کیا جانو بات میری تنہائی کی
کون سیاہی گھول رہا تھا وقت کے بہتے دریا میں
میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہرجائی کی
ٹوٹ گئے سیال نگینے، پھوٹ بہے رخساروں پر
دیکھو میرا ساتھ نہ دینا بات ہے یہ رسوائی کی
وصل کی رات نجانے کیوں اسرار تھا ان کو جانے پر
وقت سے پہلے ڈوب گئے، تاروں نے بڑی دانائی کی
اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی
 

شمشاد

لائبریرین
انہوں نے ایک مشاعرے میں جب یہ غزل پڑھی تھی تو آخری مصرعے پر ان کے ایک شاعر دوست نے ترمیم کر کے یُوں پڑھا تھا :

اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز قتیل شفائی کی
 
Top