محمد بلال اعظم

لائبریرین
دیباچہ

یہ قصّہ پُرانا ہے
جب بعض ہونٹوں نے چاہا
کہ لفظوں کوآواز کی زندگی دیں
توخود اُن کو زہراب پینا پڑ رہا تھا
کہ اہلِ حُکم کو یہ ڈر تھا
یہ الفاظ
آواز کی زندگی سے
کوئی داستاں بن نہ جائیں
۔۔۔اور وہ ہونٹ چپ ہو گئے تھے
سسکتے تڑپتے ہُوئے لفظ
قاتل کی شمشیر سے نیم جاں
مدّتوں تک فراقِ صدا میں
دھڑکتے رہے ہیں
کسے کیا خبر تھی
کہ ان بسملوں کا لہو۔۔۔قطرہ قطرہ
لکیروں کی صورت دمکتا رہے گا
اور اب یہ
لہو کی لکیریں
بجائے خود اک داستاں بن گئی ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
وفا پرست صلیبیں

وہ دن بھی یاد ہیں مجھ کو کہ جب مری دنیا
کہاں کے جسم، کہ سایوں کو بھی ترستی ہے
پھرا ہوں کوچہ بہ کوچہ متاعِ درد لئے
اگرچہ خلق مری سادگی پہ ہنستی ہے

سدا جلاتی رہے مجھے یہ محرومی
وہی تھا میں وہی صحرائے آرزو کے سراب
کوئی نہ تھا کہ میں جس کے حضور نذر کروں
یہ آنسوؤں کے چراغ، یہ شاعری کے گلاب

یہ زخم وہ تھے جو فن کے لئے چراغ بنے
مرا شریکِ سفر بس مرا شعور رہا
کسی سے کر نہ سکا دردِ نارسا کا گلہ
وہ روز و شب تھے کہ تنہائیوں سے چور رہا

رہِ طلب میں پھر اک یہ مقام بھی آیا
کہ دل گرفتہ ہے تُو میری زندگی کے لئے
میں دیکھتا ہوں کہ تیری اداس آنکھوں میں
وفا کی آنچ لئے ہیں عقیدتوں کے دیے

کسے عزیز نہ ہو گی تری طلب کی لگن
ہزار دل پہ پڑی ہو غمِ زمانہ کی دھول
کسے غرور نہ ہو گا اگر تری چاہت
کھِلائے دشتِ تمنّا میں التفات کے پھُول
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
عقیدت

میں کتنی وارفتگی سے اُس کو سُنا رہا تھا
وہ ساری باتیں وہ سارے قصّے
جو اس سے ملنے سے پیشتر
میری زندگی کی حکایتیں تھیں

میں کہہ رہا تھا
کہ اور بھی لوگ تھے
جنہیں مری آرزو تھی مری طلب تھی
کہ جن سے میری محبّتوں کا رہا تعلّق
کہ جن کی مجھ پر عنایتیں تھیں

میں کہہ رہا تھا
کہ اُن میں کچھ کو تو میں نے
جاں سے عزیز جانا
مگر اُنہیں میں سے بعض کو
میری بے دلی سے شکایتیں تھیں

میں ایک اک بات
ایک اک جرم کی کہانی
دھڑکتے دل کانپتے بدن سے سُنا رہا تھا
مگر وہ پتھّر بنی
مجھے اِس طرح سے سُنتی رہی
کہ جیسے مرے لبوں پر
کسی مقدّس تریں صحیفے کی آیتیں تھیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سچ کا زہر

تجھے خبر بھی نہیں
کہ تیری اُداس ادھوری
محبتوں کی کہانیاں
جو بڑی کشادہ دلی سے
ہنس ہنس کے سُن رہا تھا
وہ شخص تیری صداقتوں پر فریفتہ
با وفا و ثابت قدم
کہ جس کی جبیں پہ
ظالم رقابتوں کی جلن سے
کوئی شکن نہ آئی
وہ ضبط کی کربناک شدّت سے
دل ہی دل میں
خموش، چُپ چاپ
مر گیا ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کونسا نام تجھے دُوں؟

یوں بھی گزری ہے کہ جب درد میں ڈوبی ہوئی شام
گھول دیتی ہے مری سوچ میں زہرِ ایّام
زرد پڑ جاتا ہے جب شہرِ نظر کا مہتاب
خون ہو جاتا ہے ہر ساعتِ بیدار کا خواب
ایسے لمحوں میں عجب لطفِ دل آرام کے ساتھ
مہرباں ہاتھ ترے ریشم و بلّور سے ہاتھ

اپنے شانوں پہ مرے سر کو جھکا دیتے ہیں
جس طرح سالِ اُمید سے بے بس چہرے
دیر تک ڈوبنے والے کو صدا دیتے ہیں

یوں بھی گزری ہےکہ جب قرب کی سرشاری میں
چمک اُٹھتا ہے نگاہوں میں ترے حُسن کا شہر
نہ غمِ دہر کی تلچھٹ نہ شبِ ہجر کا زہر
مجھ کو ایسے میں اچانک ترا بے وجہ سکوت

کوئی بے فیض نظر یا تلوار سی بات
ان گنت درد کے رشتوں میں پرو دیتی ہے
اس طرح سے کہ ہر آسودگی رو دیتی ہے

کونسا نام تجھے دوں مرے ظالم محبوب
تُو ہی قاتل مرا تُو ہی مسیحا میرا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تخلیق

درد کی آگ بجھا دو کہ ابھی وقت نہیں
زخمِ دل جاگ سکے نشترِ غم رقص کرے
جو بھی سانسوں میں گُھلا ہے اُسے عریاں نہ کرو
چپ بھی شعلہ ہے مگر کوئی نہ الزام دھرے

ایسے الزام کہ خود اپنے تراشے ہُوئے بُت
جذبۂ کاوشِ خالق کو نگونسار کریں
مُو قلم حلقۂ ابرو کو بنا دے خنجر
لفظ نوحوں میں رقم مدحِ رخِ یار کریں
رقصِ مینا سے اُٹھے نغمۂ رقصِ بسمل
ساز خود اپنے مغنّی کو گنہگار کریں

مرہمِ اشک نہیں زخمِ طلب کا چارہ
خوں بھی روؤ گے تو کس خاک کی سج دھج ہو گی
کانپتے ہاتھوں سے ٹوٹی ہوئی بنیادوں پر
جو بھی دیوار اٹھاؤ گے وہی کج ہو گی
کوئی پتّھر ہو کہ نغمہ کوئی پیکر ہو کہ رنگ
جو بھی تصویر بناؤ گے اپاہج ہو گی
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ کیسی رُت ہے

یہ کیسی رُت ہے
کہ ہر شجر
صحنِ گلستاں میں
ملول و تنہا سلگ رہا ہے
طیور کب سے چپ چاپ منقار زیرِ پر ہیں
ہوائیں نوحہ کناں
کہ اس باغ کی بہاریں
گئیں تو پھر لوٹ کر نہ آئیں
یہ کیسی رُت ہے
نہ برف باری کے دن
کہ شاخوں کے پیرہن پر
سپیدۂ صبح کا گماں ہو
نہ فصلِ گُل ہے
کہ ہر طرف شورِ جانفروشاں سے
کوئے محبوب کا سماں ہو
نہ دور پت جھڑ کا ہے
کہ بے جان کونپلوں کو
اُمیدِ فردائے مہرباں ہو

یہ کیسی رُت ہے
کوئی تو بولے
کوئی تو دھڑکے
کوئی تو بھڑکے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
گئی رُت

پھر آ گئی ہے، گئی رُت تمہیں خبر بھی نہیں
خبر مجھے بھی نہیں تھی کہ رات پچھلے پہر
کسی نے مجھ سے کہا جاگ اے دریدہ جگر
نشستہ ہے سرِ دہلیز کوئی بام نشیں

بدل چکا تھا سبھی کچھ تمہارے جاتے ہی
فلک کا چاند، زمیں کے گلاب راکھ ہُوئے
وہ راکھ خواب ہُوئی پھر وہ خواب راکھ ہُوئے
تم آ سکو تو میں سمجھوں تمہارے آتے ہی

ہر ایک نقش وہی آج بھی ہے جو کل تھا
یہ راکھ خواب بنے خواب سے گلاب بنے
ہر اک ستارۂ مژگاں سے ماہتاب بنے
برس فراق کا جیسے وصال کا پل تھا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کردار

ہم ابھی ایستادہ تھے
اب سے کچھ پہلے
وفا کے فرش پائندہ پہ
خوش وقتی کے رنگیں شامیانوں کے تلے
اپنے ہاتھوں میں قرار و قول کی شمعیں لیے
آندھیوں میں زلزلوں میں
تا قیامت ساتھ دینے کے لیے
آمادہ تھے
اک دوسرے کے اس قدر دلدادہ تھے

دیکھنے والوں میں شامل
یار بھی اغیار بھی
چند آنکھوں میں نمی
چند آنکھوں میں حقارت، برہمی
چند آنکھوں میں سکوتِ دائمی
جم گئے سائے اُدھر
اور کانپ اُٹھی اس طرف دیوار بھی
دشمنوں کو بھی یقیں
اور بد گماں کچھ ہمنشیں۔۔۔غمخوار بھی
دیکھنے والوں نے دیکھا

کس طرح صدیاں اچانک
ثانیوں میں بٹ گئیں
شامیانیوں کی طنابیں کٹ گئیں

بجھ گئیں شمعیں قرار و قول کی
فرشِ وفا کی سخت و پائندہ سلیں بھی پھٹ گئیں
اور دو پیکر
خود اپنے خنجروں کے وار سے
خاک و خوں میں تر بتر
فرش پر افتادہ تھے
ہم ابھی ایستادہ تھے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
روزنا جرمن نژاد

روزنا جرمن نژاد
اس کے ہونٹوں میں حرارت
جسم میں طوفاں
برہنہ پنڈلیوں میں آگ
نیّت میں فساد
رنگ و نسل و قد و قامت
سرزمین و دین کے سب تفرقوں سے بے نیاز

ہر کسی سے بے تکلّف ایک حد تک دلنواز
وہ سبھی کی ہم پیالہ ہم نفس
عمر شاید بیس سے اوپر برس یا دو برس

روزنا جرمن نژاد
اور دیکھنے والوں میں سب
اس کی آسودہ نگاہی بے محابا میگساری کے سبب
پیکرِ تسلیم و سر تا پا طلب
ان میں ہر اک کی متاعِ گُل
بہائے التفاتِ نیم شب

روزنا جرمن نژاد
اور اس کا دل۔۔۔زخموں سے چُور
اپنے ہمدردوں سے ہمسایوں سے دُور
گھر کی دیواریں نہ دیواروں کے سایوں کا سرور
جنگ کے آتشکدے کا رزق کب سے بن چکا
ہر آہنی بازو کا خوں
ہر چاند سے چہرے کا نور

خلوتیں خاموش و ویراں
اور ہر دہلیز پر اک مضطرب مرمر کا بُت
ایستادہ ہے بچشمِ ناصبور
کون ہے اپنوں میں باقی
توسنِ راہِ طلب کا شہسوار
ہر دریچے کا مقدّر انتظار
اجنبی مہماں کی دستک خواب
شاید خواب کی تعبیر بھی

چند لمحوں کی رفاقت جا وداں بھی
حسرتِ تعمیر بھی
الوداعی شام، آنسو، عہد و پیماں
مضطرب صیّاد بھی نخچیر بھی
کون کر سکتا ہے ورنہ ہجر کے کالے سمندر کو عبور
اجنبی مہماں کا اک حرفِ وفا
نومید چاہت کا غرور

روزنا اب اجنبی کے ملک میں خود اجنبی
پر بھی چہرے پر اُداسی ہے نہ آنکھوں میں تھکن
اجنبی کا ملک جس میں چار سُو
تاریکیاں ہی خیمہ زن
سب کے سایوں سے بدن
روزنا مرمر کا بُت
اور اس کے گرد
ناچتے سائے بہت
سب کے ہونٹوں پر وہی حرفِ وفا
ایک سی سب کی صدا
وہ سبھی کی ہم پیالہ ہم نفس
عمر شاید بیس سے اوپر برس یا دو برس
اس کی آنکھوں میں تجسس اور بس
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
فضا نورد بادل

میں سایۂ نخل میں کھڑا تھا
جب ایک فضا نورد بادل
لہراتا ہُوا نظر پڑا تھا

یوں قلب و جگر سے آگ اُٹھی
برسوں کی طویل تشنہ کامی
یکلخت ہی جیسے جاگ اُٹھی

پل بھر میں بدن دہک رہا تھا
میں سایۂ نخل سے نکل کر
بادل کی طرف لپک رہا تھا

بادل تھا سمندروں کا پیاسا
یہ اس کا کرم کے چند لمحے
وہ مجھ کو بھی دے گیا دلاسا

دل پر لئے داغِ نا مرادی
چاہا کہ پلٹ چلوں ادھر ہی
جس سمت سے درد نے صدا دی

دیکھا تو رُت بھی جا چکی تھی
مایوس کن انتظار کی دھوپ
اس نخلِ وفا کو کھا چکی تھی
٭٭٭

 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
فصلِ رائیگاں

زندگی کے خواب فصلِ رائیگاں
تو دریدہ دل میں آشفتہ بیاں
زندگی کے خواب فصلِ رائیگاں

رائیگاں ہر درد کے سورج کی دھوپ
آبلے ہاتھوں کے ماتھوں کا عرق
گیسوؤں کے ابر ہونٹوں کی شفق
میرے دل کی آگ تیرا رنگ روپ

رائیگاں خونِ وفا کی ندیاں
کشتِ بے حاصل کا حاصل بے نشاں
آنسوؤں کی جھیل دوپہروں کی لُو
جسم شل احساس مردہ دل لُہو

چار جانب ریت کے ٹیلے رواں
کوئی نوحہ گر نہ کوئی چشمِ نم
صرف ہم تو بھی کہاں میں بھی کہاں
جیسے ویرانے میں لاشیں بے اماں

بے کفن، بے گور، رزقِ کرگساں
اور یہ یادیں بھی کچھ لمحوں کی ہیں
جس طرح صحرا میں قدموں کے نشاں
جس طرح تعزیتی خاموشیاں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سلامتی کونسل

پھر چلے ہیں مرے زخموں کا مداوا کرنے
میرے غمخوار اُسی فتنہ گرِ دہر کے پاس
جس کی دہلیز پہ ٹپکی ہیں لہو کی بوندیں
جب بھی پہنچا ہے کوئی سوختہ جاں کشتۂ یاس
جس کے ایوانِ عدالت میں فروکش قاتل
بزم آرا و سخن گسترو فرخندہ لباس
ہر گھڑی نعرہ زناں "امن و مساوات کی خیر"
زر کی میزان میں رکھے ہُوئے انسان کا ماس

کون اس قتل گہہِ ناز کے سمجھے اسرار
جس نے ہر دشنہ کو پھُولوں میں چھپا رکھا ہے
امن کی فاختہ اُڑتی ہے نشاں پر لیکن
نسلِ انساں کو صلیبوں پہ چڑھا رکھا ہے
اس طرف نطق کی بارانِ کرم اور ادھر
کاسۂ سر سے مناروں کو سجا رکھا ہے

جب بھی آیا ہے کوئی کشتۂ بیداد اُسے
مرہمِ وعدۂ فردا کے سوا کچھ نہ ملا
یہاں قاتل کے طرفدار ہیں سارے قاتل
کاہشِ دیدۂ پُر خوں کا صلہ کچھ نہ ملا
کامر کوریا ویت نام دومنکن کانگو
کسی بسمل کو بجز حرفِ دعا کچھ نہ ملا

قصرِ انصاف کی زنجیر ہلانے والو
کجکلاہوں پہ قیامت کا نشہ ہے طاری
اپنی شمشیر پہ کشکول کو ترجیح نہ دو
دم ہو بازو میں تو ہر ضربِ جنوں ہے کاری
اس جزیرہ میں کہیں نور کا مینار نہیں
جس کے اطراف میں اک قلزمِ خوں ہے جاری
"جوہرِ جامِ جم ازکانِ جہانِ دگراست
تُو توقّع زگلِ کوزہ گراں می داری"
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نوحہ گر چُپ ہیں

نوحہ گر چُپ ہیں کہ روئیں بھی تو کس کو روئیں
کوئی اس فصلِ ہلاکت میں سلامت بھی تو ہو
کونسا دل ہے جس کے لئے آنکھیں کھولیں
کوئی بسمل کسی شب خوں کی علامت بھی تو ہو

شکر کی جا ہے کہ بے نام و نسب کے چہرے
مسندِ عدل کی بخشش کے سزاوار ہُوئے
کتنی تکریم سے دفنائے گئے سوختہ تن
کتنے اعزاز کے حامل یہ گنہگار ہُوئے

یوں بھی اس دور میں جینے کا کسے تھا یارا
بے نوا بازوئے قاتل سے گلہ مند نہ ہوں
زندگی یوں بھی تو "مفلس کی قبا" تھی لیکن
دلفگاروں کے کفن میں بھی تو پیوند نہ ہوں

ناوکِ ظّلِ الہٰی اجل آہنگ سہی
شکر کی جا ہے کہ سونے کی اَنی رکھتے ہیں
جاں گنوائی بھی تو کیا مدفن و مرقد تو ملا
شاہِ جم جاہ طبیعت تو غنی رکھتے ہیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
قاتل

قاتل چُپ ہے
خوں آلودہ ہاتھ میں اب تک
خنجر تھر تھر کانپ رہا ہے
لوگوں کا انبوہ اُسے
گھیرے میں لے کر
چیخ رہا ہے
یہ قاتل ہے
یہ قاتل ہے
خاک اور خوں میں لت پت لاش
کے ہونٹوں پر
اک بات جمی ہے
یہ قاتل ہے
لیکن کس کا
یہ اپنی تخلیق کا قاتل
اس نے خود کو قتل کیا ہے
لوگوں کا انبوہ مگر
کب سُنتا ہے
کون ہے قاتل
کس نے
کس کو قتل کیا ہے؟
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نہیں ہے یوں

نہیں ہے یوں کہ مرا دُکھ مری حدود میں ہے
نہ صرف دل ہی دریدہ نہ صرف جاں ہی فگار
نہ صرف دیکھتی آنکھوں میں حسرتوں کا دھواں
نہ صرف ہاتھ شکستہ نہ سر پہ زخم ہزار

جو یوں بھی ہو تو بڑی بات ہے تری قربت
تری وفا تری چاہت تری مسیحائی
ہر ایک زخم کو دھو دے شفیق ہاتھوں سے
ہر ایک درد کو چن لے تری دل آرائی

مگر یہ درد یہ دُکھ کب مری حدود میں ہے
کہاں نہیں مرا پیکر ہاں نہیں یہ فغاں
تو اک وجود کو زندہ تو کر چکے لیکن
ہر اک صلیب پہ میرا ہی جسم آویزاں

ہر ایک تیرِ ستم پر مرا لہو لرزاں
کسے کسے تُو بچائے گی اے مری درماں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کُشان بی بی1؎

تو جب
بمبریت کے قاتل پہاڑوں کی صلیبوں سے اُتر آئے
تو یہ جانا
کہ ہم دشتِ عدم کو پار کر آئے
ہر اک کے پاؤں چھلنی جسم شل
اعضا تھکن سے چُور
لیکن سب
ہراسِ مرگ سے بے جان۔۔۔بے حس تھے
سبھی یوں زرد رُو جیسے
ابھی تک آسمانوں کے سفر سے لوٹ کر
رُوحیں نہیں آئیں
چلو ہم سب کے سب زندہ ہیں
جیسے بھی ہیں یکجا ہیں
ضیاؔ، باسطؔ، سعیدؔ اور میں

ہمارا میزباں کب سے نہ جانے
گھر کے دروازے کُھلے چھوڑے
سبک شہتیر کے پُل پر ہمارا منتظر تھا
اس کو یہ معلوم تھا
ہم اجنبی مہماں
سیاحت کے لئے کن مشکلوں سے
ہفت خواں طے کر کے
اِس وادی میں آئیں گے
چناروں کے بلند اشجار
انگوروں کی بیلیں
چار سُو سبزہ
ہوائیں بید مشک و عود و مُر کی خوشبوؤں سے
چُور بوجھل
طائرانِ خوشنما و خوش نوا۔۔۔بے کل
سبک رفتار چشموں کی تہوں میں
پتّھروں کا نیل و یاقوت سا چھل بل
ادھر کچھ دور بُزغالوں کے گلے
نوجواں چرواہیوں کے دودھیا چہروں کی صورت
برف سے شفاف و دل آرا
فضا حیرت فزا۔۔۔سحر آفریں دنیا
"مژہ برہم مزن تا نشکنی رنگِ تماشا را"
ہمارا میزباں مفلس تھا
لیکن شام کو خوانِ ضیافت دیکھ کر
ہم خس بد نداں تھے
کشادہ طشت میں بزغالۂ بریاں
بطک میں آبِ تاک
اور کشتیوں میں ڈھیر سیبوں کے
الاؤ میں دہکتی آگ
کتنی گرم کتنی خوبصورت تھی

مگر ہم منتظر اس پَل کے تھے
جب کافرستاں کی جواں پریاں
زمینی خُلد کی حوریں
دف و مردنگ کی تھاپوں پہ رقصاں
اپنے محبوبوں کی فرقت کے
نشیلے گیت گائیں گی
الف لیلہ کے شہزادوں کی صورت
ہم میں ہر اک
اس طلسماتی فضا کے سحر میں گُم تھا
بتانِ آذری کا رقص جاری تھا
سیہ ملبوس میں لپٹے ہُوئے
مرمر کے بُت
مہتاب سے پیکر
سبھی باہوں میں باہیں ڈال کر زنجیر کی صورت
کماں کی شکل میں جُنباں
کہ جیسے دیوتاؤں کے رتھوں کی گھوڑیاں
وحشت سے پا کُو باں
دف و مامہ و مردنگ کے آہنگ میں
آہستہ آہستہ
کھنکتے قہقہے۔۔۔محجوب آوازیں بھی
شامل ہو گئیں آخر
کہ جیسے نقرئی گھنگرو
اچانک جھنجھنا اُٹھیں
سبھی غارت گرِ تمکین و ہوش و دشمنِ ایماں
ہر اک فتنہ گرِ دوراں
مگر وہ سر گروہِ ناز نیناں
غیرتِ ناہید
جانِ حلقۂ خوباں
کشان بی بی
قد و قامت قیامت
جُنبشیں جادو
بدن طوفاں
ضیاؔ کردار میں گوتم
مجسّم صدق و ایثار و وفا
درد آشنا و نفس کُش ہمدم
لہو اس کا بھی اس شعلے نے گرمایا
مگر سب ساتھیوں سے کم
بتانِ آذری رقصاں
مگر باسطؔ جو اک فنکار
لیکن شکوہ سنجِ زندگی ہر دم
قلم اس کا دُر افشان و گہر تحریر
لیکن خود تہی داماں
شکستہ دل
خود اپنے فن سے اپنے آپ سے نالاں
یہاں دنیا کے غم بھُولا ہُوا
بسمل
ہر اک پیکر پہ سو سو جان سے قرباں
سعیدؔ اک کم نظر جذبات کا پُتلا
مہندس
اور فقط جسموں کا سوداگر
جو اپنے ساتھیوں سے بھی چھپا کر ساتھ لایا تھا
کئی تحفے
ملمّع کی ہوئی انگوٹھیاں
جھوٹے نگوں کے ہار
دل آویز آوازے
کسی ماہر شکاری کی طرح
اپنی کمند و دام پر نازاں
ہر اک پر سحر طاری تھا
بتانِ آذری کا رقص جاری تھا

ضیاؔ حیرت میں گم
باسطؔ زخود رفتہ
سعیدؔ افسوں زدہ
میں بُت
کشان بی بی کے لب
کلیوں کی صورت نیم وا
اور ہم فقط
آواز کی خوشبو سے پاگل
لذّتِ معنی سے نا محرم
زبانِ یار کیلاشی و ما از حرفِ بیگانہ
(ہمارے میزباں نے ترجمانی کی)
کشان بی بی یہ کہتی ہے
"مرے محبوب تو اک دستۂ مُر ہے
کہ جو راتوں کو مری چھاتیوں کے درمیاں
خوشبو لُٹاتا ہے
مری ہمجولیو!
بستی کے سارے نوجوانوں میں
مرا محبوب پیارا
جس طرح بن کے درختوں میں ہو نخلِ سیب استادہ
مرا محبوب
جیسے جھاڑیوں کے درمیاں کوئی گلِ سوسن
مرا محبوب مجھ سے کل ملا تھا
اُس نے مجھ سے خوب باتیں کیں
وہ کہتا تھا کہ اے میری پری
اے نازنین
اب تو مری بستی کو میرے ساتھ چل
برسات کا موسم چلا
بادل برس کر کھل چکے
انگور اور سیبوں کی مٹی جاگ اٹھی
اے کوہساروں کی چکوری
تو نہ جانے کن پہاڑوں کی دراڑوں میں چھپی ہے
آ مرے ہمراہ چل پیاری

بتانِ آذری کا رقص جاری تھا
فضا پر سحر طاری تھا
ہر اک کی آنکھ میں تل کی طرح
وہ کافرستاں کی قلو پطرہ
مگر ہم میں کوئی سیزر نہ انتونی
ضیاؔ گوتم سہی
لیکن کشاں بی بی
وہ کافر جو ضیاؔ کو بھی نہ سونپی جائے ہے مجھ سے
نہ جانے کس طرح یہ شب ڈھلی
لیکن سحر دم
جب پرندوں کے چہکنے کی صدا آئی
کشان بی بی
سیہ ملبوس میں لپٹی
جبیں پر کوڑیوں کا تاج
گالوں پر گھنی زلفیں
کنیزوں کی طرح اپنی رفیقوں کو لیے
رخصت ہُوئی ہم سے
بصد اندازِ استغنا و دارائی
تو ہم سارے تماشائی تھے پتّھر
اور پتّھر تھے تماشائی

1؎ کافرستان کی ایک لڑکی
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
خواب جھُوٹے خواب

خواب جھوٹے خواب میرے خواب تیرے خواب بھی
درد کی لذّت بھی دھوکہ قرب کا غم بھی فریب
بے قراری بھی نمائش خام یارائے شکیب
تشنگی کی آگ بھی قاتل شرابِ ناب بھی

میں نے جس دریا کی وسعت دیکھ کر چاہا اُسے
وہ تو میری موجۂ غم سے بھی تھا پایاب تر
تُو بڑھی جن ساحلوں کی سمت مجھ کو دیکھ کر
تشنگی اُن کی بجھا سکتا نہیں سیلاب بھی

واہموں میں مبتلا ہم آج تک سمجھا کیے
تیرا آئینہ بھی سورج میرے پتّھر بھی گلاب
آؤ اب تسلیم کر لیں سب غلط باتیں کہیں
کاغذی ہیں پھول میرے تیرے دریا بھی سراب
خواب جھوٹے خواب میرے خواب تیرے خواب بھی
٭٭٭
 
Top