فرحت کیانی
لائبریرین
نادیدہ ہمدرد
ص 22-41
ص 22
ڈاکٹر سجاد لاش کے پوسٹ مارٹم کے لئے تیاری کر رہا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ ڈاکٹر سجاد کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی تھیں۔ آنکھوں سے خوفزدگی کا اظہار ہونے لگا۔ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے میز کی طرف بڑھا اور کانپتے ہوئے ہاتھ سے ریسیور اٹھایا۔ "ہیلو۔۔!"
"کون بول رہا ہے۔!" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"ڈاکٹر سجاد۔۔۔۔!"
"غالباً ہوٹل میزبان والی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے جا رہے ہو۔ کیا خیال ہے۔۔۔۔؟"
"مم۔۔۔۔میں نہیں سمجھا۔۔۔۔!"
"ڈاکٹر سجاد۔۔۔۔میرا خیال ہے کہ دماغ کی شریان پھٹ جانے کی وجہ سے موت واقع ہوئی ہے۔!" دوسری طرف سے کہا گیا۔
"مجھ پر رحم کرو۔۔۔۔!" ڈاکٹر سجاد گڑگڑایا۔
"تمہارا کیا بگڑتا ہے۔۔۔۔!" دوسری صورت میں تم جانتے ہی ہو کہ کیا ہوگا۔!"
"میں۔۔۔۔نے ابھی تک وہی کیا ہے ۔۔۔۔جو تم کہتے رہے ہو۔ لل۔۔۔۔لیکن کب تک۔!"
"بس کچھ دنوں کی اور بات ہے۔۔۔۔اور تمہارا بگڑتا کیا ہے۔!"
"کک۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔۔!"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہونے کی آواز سن کر ڈاکٹر سجاد نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا اور اپنی پیشانی پر پھوٹ آنے والی ننھی ننھی بوندوں کو رومال میں جذب کرنے لگا۔
"مم۔۔۔۔مگر سوال تو یہ ہے۔!" وہ آہستہ سے بڑبڑا کر رہ گیا۔
لاش سردار گڑھ کے ایک متمول آدمی کے بیٹے کی تھی اور اس کا تعلق بر سرِ اقتدار پارٹی سے تھا۔
اس وقت وہ بھی سول ہسپتال ہی میں موجود تھا۔ ڈاکٹر سجاد ایک بار پھر پسینے میں نہا گیا۔ جوں توں کر کے اس نے لاش کا پوسٹ مارٹم کیا تھا اور پھر رپورٹ لکھتے وقت اس کے ہاتھ پر بُری طرح سے کپکپاہٹ طاری ہو گئی تھی۔
رپورٹ مکمل کر کے اس نے ٹائپسٹ کے حوالے کی اور اس سے متعلق ہدایات دیتا ہوا باہر نکلا چلا گیا۔ اسے ایسا ہی لگ رہا تھا جیسے عنقریب نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو جائے گا۔