نادیدہ ہمدرد۔۔۔ص 22-41

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
نادیدہ ہمدرد
ص 22-41​



ص 22

ڈاکٹر سجاد لاش کے پوسٹ مارٹم کے لئے تیاری کر رہا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ ڈاکٹر سجاد کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی تھیں۔ آنکھوں سے خوفزدگی کا اظہار ہونے لگا۔ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے میز کی طرف بڑھا اور کانپتے ہوئے ہاتھ سے ریسیور اٹھایا۔ "ہیلو۔۔!"
"کون بول رہا ہے۔!" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"ڈاکٹر سجاد۔۔۔۔!"
"غالباً ہوٹل میزبان والی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے جا رہے ہو۔ کیا خیال ہے۔۔۔۔؟"
"مم۔۔۔۔میں نہیں سمجھا۔۔۔۔!"
"ڈاکٹر سجاد۔۔۔۔میرا خیال ہے کہ دماغ کی شریان پھٹ جانے کی وجہ سے موت واقع ہوئی ہے۔!" دوسری طرف سے کہا گیا۔
"مجھ پر رحم کرو۔۔۔۔!" ڈاکٹر سجاد گڑگڑایا۔
"تمہارا کیا بگڑتا ہے۔۔۔۔!" دوسری صورت میں تم جانتے ہی ہو کہ کیا ہوگا۔!"
"میں۔۔۔۔نے ابھی تک وہی کیا ہے ۔۔۔۔جو تم کہتے رہے ہو۔ لل۔۔۔۔لیکن کب تک۔!"
"بس کچھ دنوں کی اور بات ہے۔۔۔۔اور تمہارا بگڑتا کیا ہے۔!"
"کک۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔۔!"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہونے کی آواز سن کر ڈاکٹر سجاد نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا اور اپنی پیشانی پر پھوٹ آنے والی ننھی ننھی بوندوں کو رومال میں جذب کرنے لگا۔
"مم۔۔۔۔مگر سوال تو یہ ہے۔!" وہ آہستہ سے بڑبڑا کر رہ گیا۔
لاش سردار گڑھ کے ایک متمول آدمی کے بیٹے کی تھی اور اس کا تعلق بر سرِ اقتدار پارٹی سے تھا۔
اس وقت وہ بھی سول ہسپتال ہی میں موجود تھا۔ ڈاکٹر سجاد ایک بار پھر پسینے میں نہا گیا۔ جوں توں کر کے اس نے لاش کا پوسٹ مارٹم کیا تھا اور پھر رپورٹ لکھتے وقت اس کے ہاتھ پر بُری طرح سے کپکپاہٹ طاری ہو گئی تھی۔
رپورٹ مکمل کر کے اس نے ٹائپسٹ کے حوالے کی اور اس سے متعلق ہدایات دیتا ہوا باہر نکلا چلا گیا۔ اسے ایسا ہی لگ رہا تھا جیسے عنقریب نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو جائے گا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 23
اگر گاڑی میں ڈرائیور موجود نہ ہوتا تو شائد اس وقت اسے ٹیکسی کرنی پڑتی۔خود ڈرائیو کرنے کی سکت اس میں نہیں رہی تھی۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح گھر پہنچا۔۔۔۔لیکن ابھی لباس بھی تبدیل نہیں کر پایا تھا کہ کسی کی آمد کی اطلاع ملی۔
"کون ہے۔۔۔۔؟" اس نے ملازم کو گھورتے ہوئے کہا۔" کیا تم سے اسے بتایا نہیں کہ میں پہلے سے وقت کا تعین کئے بغیر نہیں ملتا۔!"
"انگریز عورت ہے جناب۔۔۔۔آپ کا نام لے رہی ہے۔" ملازم نے جواب دیا۔
"اوہ۔۔۔۔ ساجد سے کہو وہ اس سے کہہ دے کہ پانچ بجے سے قبل نہیں مل سکوں گا۔!"
"بہت بہتر جناب۔۔۔۔!" ملازم نے کہا۔
اسکے جانے کے بعد وہ بستر پر گیا ہی تھا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد کسی نے خواب گاہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔!
"کون ہے۔۔۔۔؟" وہ مردہ سی آواز میں بولا۔ " آ جاؤ۔۔۔۔!"
" اس کا بڑا لڑکا ساجد کمرے میں داخل ہوا۔!"
"کیا بات ہے۔۔۔۔؟" ڈاکٹر نے پوچھا۔
"وہ کسی طرح نہیں مانتی۔۔۔۔ فوری طور پر ملنا چاہتی ہے۔ کوئی بہت ہی اہم معاملہ ہے۔!"
"کیا اس نے اپنا وزیٹنگ کارڈ نہیں دیا۔۔۔۔؟"
"نہیں۔۔۔۔اپنے بارے میں وہ صرف آپ کو ہی بتائے گی۔!"
"بہت اچھا۔۔۔۔!" ڈاکٹر طویل سانس لیکر بولا۔ "اسے ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ۔!"
لڑکا چلا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے اس سے اس طرح ملنے کی کوشش کی تھی۔ اس سلسلے میں وہ کسی قدر خائف بھی نظر آنے لگا تھا۔
جلدی جلدی اس نے شب خوابی کا لباس اتار کر دوسرے کپڑے پہنے اور ڈرائینگ روم کی طرف چل پڑا۔
کوئی سفید فام غیرملکی عورت اس کے لئے نئی چیز نہیں تھی۔ لیکن اُسے یاد نہ آ سکا کہ اس عورت کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہو۔ عمر پچیس چھبیس سے زیادہ نہ رہی ہو گی۔ چہرہ دلکش اور جسم دعوتِ نظر دینے والا تھا۔
"کیا ہماری گفتگو کوئی تیسرا بھی سن سکے گا۔!" عورت آہستہ سے بولی۔ اس نے یہ سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 24

انگریزی میں کیا تھا لیکن ڈاکٹر کے اپنے تجربے کے مطابق انگریز نہیں معلوم ہوتی تھی۔
"نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔!" اس نے متحیرانہ انداز میں جواب دیا۔
"میں کیپٹن فیاض کی طرف سے آئی ہوں۔!"
"اوہ۔۔۔۔!" ڈاکٹر سجاد نے طویل سانس لی۔
"وہ معاملے کی نوعیت معلوم کرنا چاہتا ہے۔!" عورت بولی۔
"کسی غیر ملکی کے توسط سے۔" ڈاکٹر نے سوچا اور اس کا ذہن شبہات اور بے یقینی کی دلدل میں پھنسنے لگا۔
عورت اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتاً مسکرا کر بولی۔ " تم سے ملنے والے ہر دیسی آدمی کا تعاقب کیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ تدبیر کی گئی ہے اور ہاں انہیں اس کا علم ہو گیا ہے کہ تم نے اپنے برادرِ نسبتی سے مدد طلب کی ہے۔!"
"نہیں۔۔۔۔!" ڈاکٹر سجاد خوفزدہ انداز میں اچھل پڑا۔
"اس لئے کیپٹن فیاض براہِ راست تم سے رابطہ نہیں رکھے گا اور تم بھی اس سلسلے میں احتیاط برتو گے۔!"
"بب۔۔۔۔بہت اچھا۔۔۔۔!"
"اب جلدی سے اصل معاملے کی طرف آ جاؤ۔۔۔۔!"
"مم۔۔۔۔میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔!"
"میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ تم نے کیپٹن فیاض کو تفصیل سے آگاہ نہیں کیا۔!"
"کچھ اشارے کئے تھے شاید وہ سمجھ نہیں سکے۔!" ڈاکٹر سجاد بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"ٹھیک ہے۔۔۔۔ اب وہ میرے توسط سے تفصیل جاننا چاہتا ہے۔!"
ڈاکٹر تھوڑی دیر تک گہری گہری سانسیں لیتا رہا پھر بولا۔ "کوئی ایک ماہ پہلے کی بات ہے کہ ایک لاش پوسٹ مارٹم کے لئے لائی گئی۔ مجھے اس کا پوسٹ مارٹم کرنا تھا۔ ٹھیک اسی وقت فون پر کسی نامعلوم آدمی نے مجھ سے کہا کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں ہارٹ فیلیئر کے علاوہ اور کوئی وجہ ظاہر نہ کی جائے۔ خلاف ورزی کی صورت میں مجھے خود یا میرے کسی بچے کو شارعِ عام پر گولی
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 25

مار دی جائے گی۔ یقین نہ ہو تو مجھے کھڑکی سے باہر دیکھ لینا چاہیئے۔!"
ڈاکٹر سجاد خاموش ہو گیا۔
عورت نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ " تم نے کھڑکی سے کیا دیکھا تھا۔!"
"ایک جیپ نیچے کھڑی ہوئی تھی جس میں تین آدمی بیٹھے تھے۔ خوفناک شکلوں والے اور مجھے اس طرح گھور رہے تھے جیسے قتل کر دینے کے ارادے سے آئے ہوں۔ فون کی گھنٹی پھر بجی۔ اس بار بھی وہی آواز تھی۔ اس نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے پولیس کو مطلع کیا تو انجام بخیر نہ ہو گا۔ گھر کی عورتیں تک اٹھوا لی جائیں گی۔!"
وہ پھر خاموش ہو گیا۔ اس کے چہرے پر کرب کے آثار تھے۔ تھوڑی دیر بعد بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ " آج بھی میں ایسی تویں لاش کا پوسٹ مارٹم کر کے آ رہا ہوں جس سے متعلق مجھے غلط رپورٹ مرتب کرنی پڑی ہے۔!"
"نویں لاش۔۔۔۔؟!"
"ہاں۔۔۔۔ ایک ماہ کے اندر اندر نویں لاش۔۔۔۔!"
"حقیقتاً موت کی وجوہ کیا تھیں۔۔۔۔؟"
"زہر۔۔۔۔ایسا زہر جس کے اثرات دل کے علاوہ اور کہیں نہیں پائے جاتے۔!"
"ساری لاشیں ایسی ہی تھیں۔۔۔۔؟"
"ہاں۔۔۔۔وہ سب ایک ہی قسم کے زہر کے شکار ہوئے تھے۔!"
"لیکن آج والی لاش تو۔۔۔۔!"
"ہاں۔۔۔۔!" وہ ناچتے ناچتے گر کر مرا تھا لیکن یقین کرو کہ وہ بھی اسی زہر کا شکار ہوا تھا۔۔۔۔ اور مجھے فون پر ہدایت ملی تھی کہ رپورٹ میں دماغ کی شریان پھٹ جانے کی کہانی بیان کی جائے۔!"
"اب کچھ اس آواز کے بارے میں بتاؤ جو فون پر تم سے مخاطب ہوتی ہے۔!"
"بالکل ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی مینڈک آدمی کی طرح بولنے لگاہو۔!"
"بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ! ڈاکٹر سجاد! کیا اس نے تمہیں بتایا کہ تم نے کیپٹن فیاض سے مدد طلب کی تھی۔!"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص26

"نہیں۔۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔!"
"حالانکہ وہ کیپٹن فیاض کو دھمکا چکا ہے کہ اگر اس نے اس معاملے میں مداکلت کی تو تم اپنے کنبے سمیت ختم کر دیئے جاؤ گے۔!"
ڈاکٹر سجاد کے پورے چہرے پر پسینہ آ گیا۔
"فکر نہ کرو ڈاکٹر۔۔۔۔!" عورت کچھ دیر بعد بولی۔" بہت احتیاط سے کام لیا جا رہا ہے۔ بالآخر ہم انہیں قابو کر لیں گے۔ ویسے کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کی آواز ریکارڈ کی جا سکے۔!"
"ممکن ہے۔۔۔۔لیکن دوسروں کو علم ہو جائے گا۔ مطلب یہ کہ اس کی کال میرے آفس ہی میں آتی ہے۔ آج تک گھر پر کوئی کال نہیں آئی۔!"
"خیر ہم دیکھیں گے کہ اس کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔۔۔۔!"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

صفدر عمران کو رپورٹ دینا چاہتا تھا کہ شعبدہ گر کے مظاہروں پر فی الحال پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ وہ کہیں بھی اپنا کوئی شو نہیں کر سکتا۔
حسبِ معمول وہ ٹیلی فون آفس پہنچا اور کال بک کرانے کے بعد اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔
بیس منٹ بعد ریسیور اس کے ہاتھ میں تھا اور وہ عبدالمنان کو کال کر رہا تھا۔ بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ دفعتاً سلسلہ منقطع ہو گیا۔
"آپریٹر۔۔۔۔!" صفدر دہاڑا۔ "سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔!"
"یہاں سے تو نہیں ہوا جناب۔۔۔۔!" آپریٹر کی آواز آئی۔ "میں دیکھتا ہوں۔"
اس کے بعد ایک تیسری آواز آئی۔ "وہ نہیں دیکھ سکے گا مسٹر۔ اگر تم اپنی خیریت چاہتے ہو تو سرخ رنگ کی اس گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔ جو باہر کھڑی ہے۔ !"
"کیوں۔۔۔۔ تم کون ہو۔۔۔۔؟" صفدر غرایا۔
"میں کوئی بھی ہوں۔ لیکن تمہارے بھلے کو کہہ رہا ہوں۔ !"
"میں نہیں سمجھا۔۔۔۔۔!"
"اگر تم نے میرے کہنے کے مطابق عمل نہ کیا تو باہر نکلتے ہی تمہارا جسم چھلنی ہو جائے گا۔!"
پھر آپریٹر کی آواز آئی۔"سلسلہ دوبارہ مل گیا ہے جناب۔ آپ گفتگو کیجئے۔!"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 27

دوسری طرف عمران "ہیلو۔۔۔۔ہیلو۔۔۔۔!" کئے جا رہا تھا۔
"میں خطرے میں ہوں!" صفدر نے کہا۔
"وضاحت کرو۔۔۔۔!" دوسری طرف سے عمران کی آواز آئی۔
"ابھی سلسلہ منقطع ہو گیا تھا اور دوسری آواز مجھے مشورہ دینے لگی تھی کہ باہر نکل کر سرخ رنگ کی کار میں بیٹھ جاؤں۔ ورنہ میرا جسم چھلنی کر دیا جائے گا۔ !"
"نہایت معقول مشورہ تھا۔۔۔۔ تم بُرا کیوں مان گئے۔!"
"میں خطرے میں ہو۔۔۔۔یہ مذاق نہیں ہے۔!"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہونے کی آواز آئی۔
تھوڑی دیر بعد وہ باہر نکلا۔ آس پاس کئی گاڑیاں موجود تھیں۔ لیکن سرخ کار سیڑھیوں کے قریب ہی موجود تھی۔
ایک آدمی ڈرائیونگ سیٹ پر تھا اور دوسرا پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولے کھڑا صفدر کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ اس کا بایاں ہاتھ پتلون کی جیب میں تھا اور جیب کسی قدر بھری ہوئی تھی۔
صفدر اس کا مطلب اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس جیب سے بے آواز فائر بھی ہو سکتا تھا۔
"وہ انہیں تیکھی نظروں سے دیکھتا ہوا سرخ کار کے قریب پہنچ گیا۔!"
"لفٹ دینے کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔!" وہ مسکرا کر بولا۔ "یہاں سے مجھے ٹیکسی ملنے میں دشواری پیش آتی۔!"
وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر دوسری طرف اس انداز سے کھسک گیا جیسے اس آدمی کیلئے جگہ بنا رہا ہو۔!"
وہ اچھل کر اس کے برابر بیٹھا ہی تھا کہ گاڑی تیزی سے آگے بڑھ گئی۔
کوئی سخت چیز صفدر کے داہنے پہلو میں چبھ رہی تھی۔ وہ چپ چاپ بیٹھا اپنے چہرے پر لا پرواہی کا تاثر پیدا کرتا رہا۔ پھر تھوڑی دیر بعد بولا تھا۔ "کیا میں سگریٹ پی سکتا ہوں؟"
"چپ چاپ بیٹھے رہو۔!" وہ آدمی سرد لہجے میں بولا۔
صفدر نے شانوں کو جنبش دی اور منہ پھیر کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ گاڑی شہر سے ویرانے کی طرف جا رہی تھی۔ سڑک کے دونوں اطراف پہاڑوں کے سلسلے پھیلتے چلے گئے تھے۔ صفدر کو اصل معاملے کا علم نہیں تھا وہ تو صرف ریکھا چودھری کی تلاش میں آیا تھا اور عمران ہی کے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 28
مشورے پر ٹیلی فون آفس سے اسے اس کے بارے میں رپورٹ دیتا رہا تھا۔ اگر وہ معاملہ اتنا ہی اہم تھا تو فون پر رپورٹ کیوں طلب کی گئی تھی اور جناب نے کتنے مزے سے فرمایا تھا چڑھ جا بیٹا سولی پر۔ پتا نہیں یہ لوگ کون ہیں اور اب اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
غالباً آٹھویں میل پر گاڑی دفعتاً رک گئی تھی اور اس آدمی نے ایک لفافہ اسے تھماتے ہوئے کہا تھا۔ "گاڑی سے اُتر جاؤ۔!"
"یہاں۔۔۔۔؟!" صفدر چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا۔
"اترو۔۔۔۔!" دائیں پہلو سے چبھنے والی سخت سی چیز کا دباؤ بڑھ گیا۔
صفدر نے دوسری طرف کا دروازہ کھولا اور گاڑی سے اتر گیا۔ انجن بند نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے اترتے ہی گاڑی تیزی سے آگے بڑھ گئی۔
اب وہ ہونقوں کی طرح منہ کھولے کھڑا تھا۔ پھر ایک جیپ تیزی سے اس کے قریب ہی سے گزری اور وہ چونک کر اس لفافے کو گھورنے لگا جو اسے دیا گیا تھا۔
وہیں کھڑے کھڑے اس نے لفافہ چاک کیا۔ انگریزی حروف میں ٹائپ کیا ہوا خط تھا۔
"فوراً واپس جاؤ۔۔۔۔اور عمران سے کہہ دو کہ اس چکر میں نہ پڑے۔ ورنہ اس کی لاش کا بھی پتہ نہ چلے گا۔ ہمارا سربراہ سردار گڈھ کے معاملات میں غیر متعلق لوگوں کی مداخلت برداشت نہیں کر سکتا۔ تم نے دیکھ ہی لیا ہو گا کہ ہمارا سربراہ کتنا طاقت ورہے۔ کچھ ٹیلی فون آفس ہی کی بات نہیں۔ تم جہاں سے بھی رپورٹ بھیجنا چاہو گے ہمارے سربراہ کے علم میں پہلے آجائے گی۔ آج ہی واپس جاؤ۔۔۔۔اگر زندگی عزیز ہو۔
ایک ہمدرد!"​
صفدر نے طویل سانس لی اور آہستہ آہستہ سے منہ چلانے لگا۔ اب سوال یہ تھا کہ شہر کس طرح جائے۔ اتنی دیر میں صرف وہی دو گاڑیاں اس سڑک پر نظر آئی تھیں۔
پھر وہ پیدل ہی شہر کی طرف چل پڑا۔ شاید آدھے گھنٹے بعد ایک ٹرک دکھائی دیا تھا اور یہ شہر ہی کی طرف جا رہا تھا۔
ٹرک ڈرائیور کو یہ باور کرانے میں بھی کچھ وقت صرف ہوا کہ وہ سچ مچ قابلِ رحم ہے۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح شہر پہنچا تھا اور پھر اس فکر میں پڑ گیا تھا کہ آج ہی کی فلائٹ سے اپنے شہر
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 29
پہنچ جائے۔ خدا خدا کر کے دوسری صبح تیں بجے ایئرپورٹ پر اس کا جہاز اترا تھا اور صفدر سوچنے لگا تھا کہ کیوں نہ اسی وقت عمران کے فلیٹ پر پہنچ کر اُسے بور کیا جائے۔ اس سلسلے میں وہ جھنجھلاہٹ بروئے کار آئی جو اصل معاملات سے لاعلمی کی بناء پر پیدا ہوئی تھی۔
ٹیکسی ساڑھے تین بجے عمران کی قیام گاہ کے قریب پہنچی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس وقت وہ یقینی طور پر عمران کو جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دے گا۔
تین منٹ تک کال بیل کا بٹن دباتے رہنے کے بعد دروازہ کھلا تھا۔ سلیمان دروازے میں کھڑا اسے چندھیائی ہوئی آنکھوں سے دیکھے جا رہا تھا۔
"پیچھے ہٹو۔۔۔۔!" صفدر اسے دھکا دیتا ہوا بولا۔
"جج۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔تشریف لایئے۔۔۔۔ صاحب سو رہے ہیں۔!"
"جگا دو۔۔۔۔!"
"یہ میں نہییں کر سکوں گا جناب۔ آپ ہی اٹھائیے۔ دروازہ بولٹ کئے بغیر سوتے ہیں۔!"
پھر جیسے ہی وہ خواب گاہ کی طرف بڑھا تھا عمران کی آواز آئی تھی۔ "آخاہ آپ ہیں۔!"
دروازے کو دھکا دے کر وہ خواب گاہ میں داخل ہوا۔ عمران پالتی مارے مسہری پر براجمان نظر آیا۔
"کہئے۔۔۔۔ کیا وہ سرخ گاڑی آپ کو یہاں تک پہنچا گئی ہے۔۔۔۔؟"
" اس لفافے سمیت۔۔۔!" صفدر نے جیب سے لفافہ نکال کر عمران کے آگے پھینکتے ہوئے کہا۔
"تشریف رکئے۔۔۔۔ یا کہئے تو بستر کا انتظام کر دیا جائے۔!"
"کہیں میں پاگلوں کی طرح چیخنے نہ لگوں۔۔۔۔!"
" تب تو پھر زنجیروں کا انتظام کرنا پڑے گا۔ " عمران نے لفافے سے برآمد ہونے والے خط کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہا۔
صفدر خاموشی سے اسے گھورے جا رہا تھا اور وہ کسی تحیر زدہ بچے کے سے انداز میں خط پڑھ رہا تھا۔
"بیحد شریف لوگ معلوم ہوتے ہیں۔!" وہ صفدر کی طرف دیکھ کر بولا۔ "کیا خیال ہے تمہارا؟"
" اس بار آپ نے سچ مچ گردن ہی کٹوا دی ہوتی۔!"
"وہم ہے تمہارا۔ ویسے میں پوری کہانی سننا پسند کروں گا۔ بیٹھ جاؤ۔۔۔۔!"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 30
“اچھی بات ہے۔ یہ میں بعد میں بتاؤں گا کہ وہم کیوں ہے میرا۔ پہلے آپ کہانی سن لیجئے۔“ صفدر نے کہا اور سرخ گاڑی والا واقعہ دہرانے لگا۔
“کیا خیال ہے تمھارا کہ میں نے تمہیں ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔!“ عمران اس کے خاموش ہو جانے پر بولا تھا۔
“کون تھا۔۔۔۔ جو مجھے اس الجھاوے سے نکال لیتا۔!“
“اگر وہ اس مسخرے پن پر نہ اتر آتے تب بھی تم محفوظ ہی رہتے۔ میں نے تمہیں بھیجا ہی اس لئے تھا کہ ان کی نظروں میں آ جاؤ۔۔۔۔ اب میں اتنا بھی عقل مند بھی نہیں ہوں کہ تم سے فون پر رپورٹ مانگتا۔ دراصل یہی اندازہ کرنا تھا کہ وہ کتنے باخبر ہیں اور ان کا پھیلاؤ کس نوعیت کا ہے۔!“
“تو گویا۔۔۔میں پہلے ہی پہچانا گیا تھا۔!“
“یقیناً ۔۔۔۔کیونکہ تم میرے ساتھ بہت زیادہ دیکھے جاتے ہو۔ ویسے مجھے علم ہو چکا ہے کہ سرخ کار تمہیں سنسان سڑک پر چھوڑ کر کہاں گئی تھی۔ عقلمند آدمی یہ کام کسی ایسے آدمی سے بھی لے سکتا تھا جو کبھی میرے قریب نہ آیا ہو۔!“
“اس کا یہ مطلب ہوا کہ مجھے قربانی کا بکرا بنا کر آپ نے صحیح معلومات حاصل کی ہیں۔!“
“آٹھ آدمی ہر وقت تمہاری نگرانی کرتے تھے اور یہاں میری نگرانی ہو رہی ہے۔ لیکن میں فی الحال انہیں نہیں چھیڑنا چاہتا جو میری نگرانی کر رہے ہیں۔!“
“سوال تو یہ ہے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟“
“دلچسپ کہانی ہے۔!“ عمران نے کہا اور تکئے کے نیچے چیونگم کا پیکٹ تلاش کرنے لگا۔
“کہانی جناب۔۔۔۔چیونگم سے مدارات نہ کیجئے۔!“
“میں بہت تھکا ہوا ہوں۔!“
“چیونگم تھکن بھی دور کر دیتی ہے۔!“ وہ صفدر کی طرف ایک پیس بڑھاتا ہوا بولا۔
کچھ دیر دونوں احمقوں کے سے انداز میں چیونگم کچلتے رہے۔ پھر عمران نے کہا۔ “اس کہانی کا تعلق کیپٹن فیاض سے ہے!“
کہانی دہرا چکا تو ہنس کر بولا۔ “ اب عالم یہ ہے کہ فیاض کے آدمی بھی میری نگرانی کر رہے


ص 31

ہیں کہ میں کہیں سردار گڈھ نہ چلا جاؤں۔!“
“یعنی وہ اس حد تک خائف ہے۔!“ صفدر ہنس پڑا۔
“کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے وہ اپنے لئے خائف نہیں ہے۔!“
“تو اس کا وہ عزیز سردار گڈھ ہی میں رہتا ہے۔!“
“ہاں۔۔۔۔!“
“ریکھا چودھری کا کیا قصہ ہے۔ کیا فیاض کے عزیز کو آپ جانتے ہیں۔!“
“کیوں نہیں۔۔۔۔ آج ہی اس کی کہانی بھی مجھ تک پہنچی ہے۔ اس کے بارے میں جولیا نے معلومات فراہم کی ہیں لیکن وہ میک اپ میں تھی۔!“
“وہ میک اپ میں تھی اور میں یوں ہی دار پر چڑھا دیا گیا۔!“ صفدر نے بُرا مان کر کہا۔
“اگر وہ میک اپ میں نہ ہوتی تو کوئی سرخ گاڑی اسے افق کے پار ہی لے جاتی۔ تمہاری طرح لفافہ نہ لاتی میرے لئے۔!“
“خیر۔۔۔۔خیر۔۔۔۔فیاض کے عزیز کی کہانی کیا ہے۔۔۔۔؟“
“سردار گڈھ کا سول سرجن ہے ڈاکٹر سجاد۔۔۔۔!“
“اوہو۔۔۔۔نام تو سنا ہوا سا لگتا ہے۔!“
پھر عمران اسے بالتفصیل بتانے لگا تھا کہ ڈاکٹر سجاد کیوں خائف ہے اتنے میں کسی نے خواب گاہ کے دروازے پر دستک دی۔
“کون ہے۔۔۔۔؟“ عمران چونک کر بولا۔
دروازہ کھلا تھا اور سلیمان کافی کی ٹرے اٹھائے ہوئے اندر آیا تھا۔
“کمال ہے بھئی۔!“ عمران کے لہجے میں حیرت تھی۔ “تم اس گھر میں بہت مقبول معلوم ہوتے ہو۔ مجھے کبھی چار بجے صبح کافی نہیں ملی۔!“
صفدر مسکرا دیا۔ لیکن سلیمان کا منہ پھولا ہوا تھا۔ وہ کچھ نہ بولا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص32
“ابے تو خود کیوں پاؤروٹی بنا ہوا ہے۔!“ عمران نے سلیمان کو گھورتے ہوئے کہا۔
“روٹیاں لگ گئی ہیں۔!“ سلیمان نے جلے کٹے لہجے میں کہا۔
“بھائی میں نے کافی کی فرمائش تو نہیں کی تھی۔ تم خوامخواہ خفا ہو رہے ہو۔!“
“اس کی بات نہیں ہے صاحب ۔۔۔۔!“ سلیمان بدستور منہ چڑھائے ہوئے بولا۔ “جب آپ نے گھنٹی بجائی۔ اس وقت خواب دیکھ رہا تھا کہ میں صاحب کے ساتھ بازار گیا ہوں اور صاحب میرے لئے سوٹ کا کپڑا خریدنے والے تھے۔ جیب سے پرس نکالا ہی تھا کہ آنکھ کھل گئی۔!“
“کھل گئی نا۔۔۔۔ابے تو خواب میں بھی اب مجھ سے کچھ نہیں وصول کر سکتا۔ عمران نے قہقہہ لگایا۔
“کیوں۔۔۔۔اب کیا مصیبت آ گئی ہے۔!“
“ ایک ہفتے سے مسلسل ۔۔۔۔ دال ترکاری کھلائے چلا جا رہا ہے۔!“
“میں کیا کروں۔۔۔۔گوشت والوں نے ہڑتال کر رکھی ہے۔!“
“بیسن کی پھلکیوں میں شوربہ لگا دیا کر اور پھلکی کے اندر پتھر کا ایک ٹکڑا بھی رکھ دیا کر تاکہ ہڈی کا بھی مزا آ جائے۔!“
سلیمان نے کافی کی پیالی صفدر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔“ بس آج کل صبح سے شام تک بیٹھے گوشت کی نقل تیار کرتے رہتے ہیں۔ میں تو نہیں پکا سکتا ۔اڑہر کی دال کے کوفتے۔!“
“مچھلی اور مرغ میں کیا قباحت ہے۔!“ صفدر بولا۔
“مچھلی کی شکل دیکھ کر پتہ نہیں کون یاد آنے لگتی ہیں اور مرغ بدتمیز ہوتا ہے۔!“ سلیمان نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
“نہیں ہوتا۔۔۔۔؟“ عمران نے غصیلے لہجے میں پوچھا۔
“ہوتا ہو گا صاحب۔۔۔۔ لیکن آپ انڈہ بھی تو نہیں کھاتے۔!“
“یہ نام مجھے پسند نہیں ہے۔۔۔۔واہ۔۔۔۔انڈہ بھی کوئی نام ہوا۔!“
“بینگن بھی اسی لئے نہیں کھاتے۔!“ سلیمان نے صفدر کی طرف دیکھ کر کہا اور عمران کی طرف کافی کی پیالی بڑھائی۔
“اچھا اب دفع ہو جاؤ۔!“
سلیمان چلا گیا اور ڈاکٹر سجاد کی بات پھر چھڑ گئی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 33
“اس کیس میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ لوگ بڑے جیالے ہیں۔ اس حد تک بیباک کہ قانون کے محافظوں کو بھی چیلنج کر سکتے ہیں۔ لیکن ان اموات کی اصل وجہ چھپانا چاہتے ہیں۔!“
“واقعی یہ حیرت انگیز بات ہے۔!“ صفدر سر ہلا کر بولا۔
“جب انہیں یقین ہے کہ پولیس ان تک نہیں پہنچ سکے گی تو اموات کی وجہ ظاہر ہو جانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔!“
صفدر مستفسرانہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
“اب آؤ زہر کی طرف۔۔۔۔ کوئی نامعلوم قسم کا زہر ہے۔ ڈاکٹر سجاد اسے کوئی نام نہیں دے سکا۔ پھر اس کے اثرات دل ہی تک محدود رہتے ہیں۔ معدے یا شریانوں میں اس کا سراغ نہیں ملتا اور ڈاکٹر سجاد یہ بتانے سے بھی قاصر رہا تھا کہ زہر جسموں کے اندر کس طرح داخل ہوا تھا اب تم مجھے کچھ بتاؤ کیونکہ آخری آدمی تمہارے سامنے ہی مرا تھا۔!“
“میرے سامنے مرا نہیں تھا۔ صرف گرا تھا۔۔۔۔ پہلے بھی کئی گر چکے تھے۔ اسٹیج کا پردہ کھینچ دیا گیا تھا اور قریباً پندرہ منٹ بعد موت کا اعلان کیا گیا تھا۔!“
“رقص کے دوران ان کا درمیانی فاصلہ کتنا رہا ہو گا۔۔۔۔؟“
“یہی کوئی تین چار فٹ۔۔۔۔!“
“ذہن پر زور دے کر بتاؤ کہ گرنے سے قبل کیا وہ فاصلہ کسی قدر کم بھی ہوا تھا۔!“
“یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا۔ ظاہر ہے اس کی طرف توجہ نہیں تھی۔!“
عمران تھوڑی دیر تک خاموشی سے کافی کی چسکیاں لیتا رہا پھر آہستہ سے بولا۔ “یہ لڑکی ریکھا چودھری خدوخال کے اعتبار سے یہاں کی باشندہ نہیں معلوم ہوتی۔!“
“آپ تصویر کی بناء پر کہہ رہے ہیں، صد فیصد یہیں کی پیداوار ہے۔!“
“چلو۔۔۔۔ خیر۔۔۔۔!“
“لیکن جس کے پرس سے وہ تصویر برآمد ہوئی تھی اس کے لئے آپ نے کیا کیا۔!“
“کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ اس کی شخصیت پر تو لڑکی ہی روشنی ڈال سکے گی۔!“
“تو آپ یہیں بیٹھے بیٹھے کام چلائیں گے۔!“
“اب تم خود ہی دیکھو دو اطراف سے گھرا ہوا ہوں۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 34
“کہیں یہ حرکت اسی لئے تو نہیں کی گئی کہ آپ اسی شہر تک محدود ہو کر رہ جائیں۔ ظاہر ہے کہ فیاض ہر گز نہ چاہے گا کہ آپ شہر چھوڑ دیں۔!“
“پتا نہیں۔۔۔۔ بھلا ابھی کیا کہا جا سکتا ہے۔!“
ٹھیک اسی وقت پھر کسی نے باہر سے کال بیل کا بٹن دبایا تھا۔
“اب کون ہے۔۔۔۔؟“ عمران بڑبڑایا۔
تھوڑی دیر بعد سلیمان پھر کمرے میں داخل ہوا اور کاغذ کا ایک پُرزہ عمران کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔ “صدیقی صاحب دے گئے ہیں۔!“
“کون صدیقی صاحب۔۔۔۔؟“
“تیسری منزل پر رہتے ہیں۔ ان کے یہاں کسی نے فون کر کے یہ نمبر دیا ہے کہ آپ فوراً اس نمبر پر رِنگ کر لیں۔!“
عمران نے پُرزے کو غور سے دیکھا اس پرچھ ہندسوں کا ایک نمبر تحریر تھا۔
“انہوں نے کال کرنے والے کا نام نہیں بتایا۔!“
“نہیں۔۔۔۔ بیچارے گھبرائے ہوئے تھے ان کی نیند بھی خراب ہوئی۔!“
“آچ چھا۔۔۔۔!“ عمران اٹھتا ہوا بولا۔ “دیکھتا ہوں کہ اس نمبر پر کون نالائق ہے جس نے براہِ راست بور کرنے کی بجائے میرے ایک شریف پڑوسی کو بھی بور کیا۔!“
سٹنگ روم میں آ کر اس نے فون پر وہ نمبر ڈائیل کیا۔ دوسری طرف سے ریسیور اٹھانے کی آواز کے بعد “ہیلو“ سنائی دی اور یہ “ہیلو“ کیپٹن فیاض کی ہیلو کے علاوہ اور کسی کی نہیں ہو سکتی تھی۔
“یہ کیا حرکت تھی۔۔۔۔؟“ عمران غرایا۔
“مجبوری۔۔۔۔میں بہت پریشان ہوں۔۔۔۔!“
“اسی پریشانی میں تمہارے آدمیوں نے میری نگرانی شروع کر دی ہے۔ شائد اس وقت بھی تین آدمی آس پاس موجود ہیں۔!“
“اب کوئی بھی نہیں ہے۔۔۔۔سب ہٹا لئے گئے۔ میں تم سے مدد کا طالب ہوں لیکن ایک تجویز کے ساتھ۔!“
“میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ تجویز بھی پیش کرو۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 35
“بے حد احتیاط کی ضرورت ہے ۔!“
“یقیناً ہے! لیکن تم بول کہاں سے رہے ہو اور یہ کس احمق کا نمبر ہے جس نے اس وقت تمہارے ہاتھوں بور ہونا پسند کیا ہے ۔!“
“میں گھر سے فون نہیں کرنا چاہتا تھا ۔!“
“تمہارا مطلب ہے کہ تمہارا فون ٹیپ کیا جا سکتا ہے ۔!“
“ہاں۔۔۔۔یہ ممکن ہے!“
“تو پھر میرا فون بھی ٹیپ کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ وارننگ تمہارے لئے نہیں بلکہ میرے لئے تھی۔!“
“اوہ۔۔۔۔ مجھے اس کا دھیان ہی نہیں رہا۔!“
“احمق نہ بنو۔۔۔۔کل مجھ سے مل لو۔۔۔۔یہیں آ جاؤ۔۔۔۔ کوئی کمسن حسینہ بھی نہیں ہو کہ تمہارے والدین بُرا مان جائیں گے۔ اس خدائی فوجدار کو جھک مارنے دو کس نے تمہیں اس حال کو پہنچا دیا ہے۔!“
“اچھا۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔میں خود ہی آؤں گا۔!“
“دوسری بات یہ کہ میں کیپٹن فیاض نہیں ہوں۔!“ عمران نے کہا۔
“کک۔۔۔۔کیا مطلب۔۔۔۔؟“
“تم میرے باپ کی آواز بنا کر کیپٹن فیاض کو دھوکا دے سکتے ہو۔ لیکن کیپٹن فیاض بن کر مجھے دھوکا نہیں دے سکتے۔!“
“یہ کیا بکواس ہے۔۔۔۔؟“
“جو کوئی بھی تمہارا باس ہو اس کو مطلع کردو کہ عمران کو چھیڑنے کا انجام بُرا ہو گا۔!“
دوسری طرف سے قہقہے کی آواز آئی۔ لیکن یہ کسی عورت کا قہقہہ تھا۔
“ہائیں۔۔۔۔ہائیں۔۔۔۔کیا ہسٹریا کی مریضہ بھی ہو۔!“
“عمران ڈارلنگ۔۔۔۔تم واقعی کمال کے آدمی ہو۔!“ دوسری طرف سے کہا گیا۔ اس بار بھی نسوانی ہی آواز تھی۔
“آ جاؤ۔۔۔۔اسی بات پر۔۔۔۔گرماگرم کافی پلاؤں گا۔!“
“آ جاؤں۔۔۔۔؟“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص36
“یقیناً۔۔۔۔آوازوں کی نقالی میں جو کچا پن ہے میری مدد سے دور کر لو۔۔۔۔!“
“اب اپنی آواز کی نقل سنو۔۔۔۔!“
اس بار اس نے سچ مچ عمران کی نقل اتار کر رکھ دی تھی۔
عمران نے الوؤں کی طرح دیدے لجائے اور پھر چہکار کر بولا۔ “بس اب آ ہی جاؤ۔۔۔۔ویسے مجھے یقین ہے کہ تم اپنے باس کی شخصیت سے آگاہ نہ ہو گی۔!“
“یہ حقیقت ہے مسٹر علی عمران اگر تم مجھے گرفتار بھی کرا دو تو بات صرف میری ہی حد تک رہ جائے گی۔ اُس پر کوئی ہاتھ بھی نہ ڈال سکے گا۔!“
“ظاہر ہے کہ میں تمہیں گرفتار کرانے کی کوشش نہ کروں گا۔ جبکہ ان چار آدمیوں کو کئی دن سے برداشت کر رہا ہوں جو دن رات میرے پیچھے لگے رہتے ہیں۔!“
“سچ مچ بہت باخبر آدمی ہو۔ اچھا صبح سات بجے فلاڈلفیا میں میرے ساتھ ناشتہ کرو۔!“
“منظور۔۔۔۔لیکن میں تمہیں پہچانوں گا کس طرح۔۔۔۔؟“
“میں تو تمہیں پہچانتی ہوں۔ خود مل لوں گی۔ اس کی فکر نہ کرو۔ لیکن ایک بار پھر آگاہ کردوں کہ میری گرفتاری سے تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچ سکے گا۔!“
“لعنت بھیجو فائدے پر۔۔۔۔میں عموماً گھاٹے کے سودے کیا کرتا ہوں۔!“
“اچھا بس۔۔۔۔!“ دوسری طرف سے آواز آئی۔ “صبح سات بچے فلاڈلفیا میں ملاقات ہو گی دوسری منزل کے لاؤنج میں۔۔۔۔!“
“بائی۔۔۔۔بائی۔۔۔۔!“ کہہ کر عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔


۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک سات بجے وہ فلاڈلفیا کی دوسری منزل کے لاؤنج میں پہنچ گیا تھا لیکن یہاں اسے کوئی بھی نہ دکھائی دیا۔ کچھ دیر انتظار کر لینے میں کیا حرج ہے۔ اس نے سوچا۔
شائد 22 منٹ بعد بائیں جانب والے کمرے سے ایک خوبصورت لڑکی برآمد ہوئی تھی۔ دیسی ہی تھی لیکن بلاؤز اور اسکرٹ میں ملبوس تھی۔
عمران کو دیکھ کر مسکرائی اور سر کو خفیف سی جنبش دے کر اس کی طرف بڑھتی چلی آئی۔
“یہ ایک یادگار ملاقات ثابت ہوگی مسٹر علی عمران۔۔۔۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 37
“یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا۔!“
“ناشتہ کمرے میں کریں گے۔ روم سروس کو فون کر چکی ہوں۔!“
“ضرور۔۔۔۔ضرور۔۔۔۔!“ عمران اٹھتا ہوا بولا۔
وہ اس کا بازو پکڑے ہوئے کمرے میں لائی اور دروازہ بولٹ کر دیا۔
“دروازہ کھلا رکھو۔۔۔۔شاید مجھے بھاگنا پڑے۔!“ عمران احمقانہ انداز میں بولا۔
“میں نہیں سمجھی تم کیا کہنا چاہتے ہو۔!“
“خیر خیر۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد تم خود ہی نکال باہر کرو گی۔ ویسے میں صرف وہ تجویز معلوم کرنے آیا ہوں جو تم بحثیت کیپٹن فیاض پیش کرنے والی تھیں۔!“
“اوہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔اچھا ہی ہوا کہ تم بروقت ہوشیار ہو گئے تھے۔!“
“میں نے پوچھا تھا تجویز کیا تھی۔۔۔۔؟“
“ناشتے کے بعد۔۔۔۔فی الحال تم خاموش بیٹھے رہو اور میں تمہیں دیکھتی ہوں۔!“
“کیا رکھا ہے مجھ میں۔۔۔۔!“
“کم ازکم دو من گوشت تو ضرور نکلے گا۔!“
“اوہ تو کیا تم قصابوں کے کاز سے غداری کرنے کا ارادہ رکھتی ہو۔۔۔۔؟“
اتنے میں کسی نے دروازے پر دستک دی۔
لڑکی نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور ایک ویٹر ناشتے کی ٹرالی دھکیلتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔
“ناشتے کے دوران میں خاموشی رہی۔ کبھی کبھی عمران اُسے بڑے مغموم انداز میں دیکھ کر ٹھنڈی سانس لیتا۔ ویٹر کے رخصت ہونے کے بعد گفتگو کا آغاز کیا تھا۔
“یہ بڑی عجیب بات ہے۔!“ دفعتاً عمران بولا۔ “میرا نام علی عمران ہے اور تمہارا عالیہ عمرانہ۔!“
“ارے۔۔۔۔ارے۔۔۔۔تم نے میرا نام بھی بدل دیا۔!“
“دائیں طرف سے عالیہ اور بائیں طرف سے عمرانہ لگتی ہو۔!“
“میں تمہیں اپنا نام ہر گز نہیں بتاؤں گی۔!“
“مت بتاؤ۔۔۔۔میرے لئے یہی کافی ہے کہ کبھی میری والد صاحب بن جاتی ہو اور کبھی کیپٹن فیاض۔۔۔۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ تمہیں نقل اتارنے کے مواقع کب اور کیسے ملے۔۔۔۔۔؟“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 38
“بے شمار اہم شخصیتوں کی آوازوں کے ٹیپ میرے پاس موجود ہیں۔ میں انہیں ریکارڈ پر چڑھا کر مشق کیا کرتی ہوں۔!“
“ٹیپ تمہارے باس نے مہیا کئے ہوں گے۔!“
“ظاہر ہے۔۔۔۔!“
“اچھا تو پچھلی رات کیا تجویز تھی میرے لئے۔!“
“یہی کہ میں بحثیت کیپٹن فیاض تمہیں مشورہ دیتی کہ میک اپ کر کے گھر سے باہر نکل آؤ۔ کسی جگہ ایک خالی گاڑی تمہاری منتظر ہوگی۔ اسی وقت سردار گڈھ روانہ ہو جاؤ۔!“
“مقصد۔۔۔۔؟“
“اس سے زیادہ اور کچھ نہیں جانتی۔ لیکن یہ ضرور بتاؤں گی کہ اس وقت کیوں مل بیٹھی ہوں۔!“
“ارے تم تو بتانے کی مشین معلوم ہوتی ہو۔۔۔۔ضرور بتاؤ۔۔۔۔!“
“باس کی طرف سے یہ بھی ہدایت ملی تھی کہ اگر تم اس فون کال سے دھوکہ نہ کھاؤ تو میں تم سے گھل مل جاؤں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کروں کہ تم کس حد تک جانتے ہو۔!“
“اچھا۔۔۔۔!“ عمران نے احمقانہ انداز میں حیرت ظاہر کی۔
“ہاں۔۔۔۔!“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔
“تم نے مجھ پر اتنی مہربانی کی ہے تو میں بھی تم سے کچھ نہ چھپاؤں گا تاکہ ہماری دوستی دن دونی رات چوگنی ترقی کرے مجھے تمہاری ناک کی نوک بہت اچھی لگتی ہے۔!“
“شکریہ۔۔۔۔! ہاں تو یہ بتاؤ کہ تم نے اپنے ایک دوست کو سردار گڈھ کیوں بھیجا تھا۔۔۔۔؟“
“میں اتنا احمق نہیں ہوں۔ لیکن تمہاری ناک کی نوک کی وجہ سے سب کچھ بتا دوں گا۔ کیا تم مجھے اپنی ناک پر انگلی رکھنے کی اجازت دے سکتی ہو۔۔۔۔؟“
“ بہت زیادہ چالاک بننے کی کوشش نہ کرو۔میں خود ہی بتائے دیتی ہوں کہ میری ناک مصنوعی ہے اور میں اس وقت میک اپ میں ہوں۔ اصلی شکل کچھ اور ہے۔!“
“مجھے تو یہی اچھی لگتی ہے۔ لہٰذا میں اصلی شکل کے چکر میں نہیں پڑوں گا۔ خیر تو سنو میری کہانی۔!“
وہ اسے اس پرس کے بارے میں بتانے لگا جو اسے غلے کے گودام میں ملا تھا۔
“پرس سے دو رسیدیں نکلی تھیں جو سردار گڈھ کے دو تجارتی اداروں سے تعلق رکھتی
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 39

تھیں۔ غالباً ان سے شرابیں اور ادویات خریدی گئی تھیں اور ریکھا چودھری کی تصویر بھی برآمد ہوئی تھی۔ سردار گڈھ سے اندازہ لگایا کہ وہ کیپٹن فیاض کا سالا ڈاکٹر سجاد ہی ہو سکتا ہے۔ جو کسی قسم کی مشکلات میں پڑا ہوا ہے۔!“
“پھر ڈاکٹر سجاد نے کیا بتایا۔۔۔۔؟“
“کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔میں نے فون پر بڑی صفائی سے کہہ دیا کہ اُسے کوئی پریشانی نہیں۔ کسی نے بے پر کی اڑائی ہوگی۔ اگر تم اس سلسلے میں کچھ بتا سکو تو مشکور ہوں گا۔!“
“سنو۔۔۔۔پیارے دوست میں کچھ بھی نہیں جانتی۔۔۔۔میرے لئے ڈاکٹر سجاد بھی نیا نام ہے۔ مجھے تم سے صرف یہ پوچھنے کو کہا گیا تھا کہ تمہارا دوست سردار گڈھ کیسے جا پہنچا تھا۔!“
“اوہ۔۔۔۔تب تو میں بالکل اُلو ہوں۔ میں نے تمہیں یہ سب کچھ کیوں بتا دیا۔!“
“میری ناک کی نوک پسند ہے نا تمہیں۔!“
“اچھا اب تم یہ بتاؤ کہ ریکھا چودھری اور پروفیسر ایکس کے بارے میں کیا جانتی ہو۔!“
“یہ نام بھی میرے لئے نئے ہیں۔!“
“وہ ایک شعبدہ گر ہے اور ریکھا چودھری اس کی اسسٹنٹ ہے۔!“
“تو تم مجھ سے زیادہ ہی جانتے ہو۔ لیکن یہ تو بتاؤ کہ تم خود ہی سردار گڈھ کیوں نہیں گئے تھے۔!“
“چار آدمی ہر وقت میری نگرانی کرتے ہیں۔ یہ تو ہیں کیپٹن فیاض کے آدمی اور تمہارے پاس بھی کچھ لوگ ہیں۔ دونوں یہی چاہتے ہیں کہ میں سردار گڈھ نہ جاؤں۔!“
“بڑی عجیب بات ہے۔!“
“مجھے خومخواہ چھیڑا گیا ہے۔ نہ کسی کے لینے میں نہ کسی کے دینے میں۔!“
“اسی لئے میں چاہتی ہوں کہ تم صرف مجھ سے لین دین رکھو۔۔۔۔!“
“کیا بیچتی ہو۔۔۔۔؟“
“درد سر اور الجھنیں۔۔۔۔!“
“چلو۔۔۔۔یہ بھی ٹھیک ہے۔ جب ضرورت ہو گی تم سے ضرور رجوع لاؤں گا۔!“ دفعتاً وہ اٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی دروازے کے قریب پہنچی اور ایک دم دروازہ کھول دیا پھر باہر نکل کر لاؤنج میں ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔ اس کے بعد وہ کمرے میں پلٹ آئی تھی۔ دروازہ بند کر کے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 40
عمران کی طرف مڑی اور اس طرح ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی جیسے دیر تک اسے خاموش رکھنا چاہتی ہو۔
عمران ہونقوں کی طرح اسے دیکھے جا رہا تھا۔پھر وہ تیزی سے میز کی طرف آئی تھی اور اپنے وینٹی بیگ سے ڈائری اور قلم نکال کر کچھ لکھنے لگی تھی۔ عمران خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ لکھنا بند کر کے اس نے ڈائری سے ورق پھاڑا تھا اور عمران کی طرف بڑھا دیا۔
“خدا کے لئے مجھے اور میرے باپ کو بچا لو۔ ہم اس مردود کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ وہ میرے پاب کی کسی ایسی کمزوری سے واقف ہو گیا ہے۔ جس کی بناء پر میرا باپ بلیک میل ہونے پر مجبور ہے۔ جب تم ان سے ملو گے تو تمہیں اندازہ ہو گا کہ وہ کتنے معزز آدمی ہیں۔ میں تم سے کسی نہ کسی طرح رابطہ قائم رکھوں گی۔ اور موقع ملتے ہی تمہیں اپنے باپ کے پاس لے چلوں گی۔ بلیک میلنگ کی کہانی اس وقت سے شروع ہوئی تھی جب میں صرف ایک چھوٹی سی بچی تھی۔ میری ماں مر چکی تھیں۔ باپ نے میری پرورش اسی انداز میں کی جس انداز میں۔۔۔۔ اس بلیک میلر نے چاہا۔ میں اس کے خون کی پیاسی ہوں۔ کیا تم میری مدد کرو گے؟ اگر اس سے خوف زدہ ہو گئے ہو تو ابھی بتا دو تاکہ میں اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں کہ تم میرے کسی کام آ سکتے ہو۔!“
عمران نے تحریر کے اختتام پر ٹٹولنے والی نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ براہِ راست اس کی آنکھوں میں دیکھے جا رہی تھی۔
عمران نے اس کے ہاتھ سے قلم لے کر پرچے کی پشت پر لکھا۔
“میں تو صرف اپنے دوست کیپٹن فیاض سے عاجز ہوں کہ تعلقات کی بناء پر دھونس جماتا رہتا ہے۔ جہاں تک تمہارے باس کا تعلق ہے اس جیسے نہ جانے کتنوں کو ٹھکانے لگا چکا ہوں۔ تمہاری مدد ضرور کروں گا۔۔۔۔وعدہ۔۔۔۔!“
لڑکی نے اسے پڑھ کر بے اختیارانہ انداز میں عمران کا ہاتھ چوم لیا۔ اس کی آنکھوں میں دو موٹے موٹے قطرے جھلکنے لگے تھے۔ سگریٹ لائٹر سے اس پرزے کو جلانے کے بعد اس نے اس کی راکھ بھی مسل کر ایش ٹرے میں ڈال دی۔
“اچھا۔۔۔۔مسٹر علی عمران۔۔۔۔بہت بہت شکریہ۔۔۔۔!“ وہ اونچی آواز میں بولی۔
“ایک بار پھر میں آپ کو آگاہ کر دوں کہ اس تنظیم میں میری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آپ
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 41

جب چاہیں خود کو گرفتاری کے لئے پیش کر دوں۔۔۔۔!“
“قطعی ضروری نہیں۔۔۔۔ میں صرف ہاتھی کا شکار کرتا ہوں۔ میں دیکھوں گا مجھے سردار گڈھ جانے سے کون روک سکتا ہے۔ تمہارے باس کو اپنی بے بسی سے لطف اندوز نہ ہونے دوں گا اور کچھ۔۔۔۔“
“نہیں بس۔۔۔۔! ہو سکتا ہے کہ ہماری ملاقات دوبارہ بھی ہو۔!“
“ تم نہایت اطمینان سے میرے فلیٹ میں آ سکتی ہو۔ اس کی ضمانت دیتا ہوں کہ میرے آدمی تعاقب نہیں کریں گے۔!“ عمران اٹھتا ہوا بولا۔ “اگر تم دیکھنا چاہو تو اس وقت بھی دیکھ سکتی ہو کہ کتنی گاڑیاں میری گاڑی کا تعاقب کر رہی ہیں۔“
“مجھے یقین ہے۔۔۔۔ایسا ضرور ہوگا۔!“
“لیکن میں صرف ہاتھیوں کا شکار کرتا ہوں۔ گیڈروں پر ہاتھ ڈال کر کیا کروں گا۔!“
وہ کمرے سے نکل کر لاؤنج میں پہنچا ہی تھا کہ ایک آدمی کو تیزی سے زینوں کیطرف مڑتے دیکھا۔
اس نے پلٹ کر لڑکی کے کمرے کی جانب دیکھا۔ وہ باہر نہیں آئی تھی۔ شائد اس کے باہر نہیں آئی تھی۔ شائد اس کے نکلتے ہی دروازہ بند کر لیا تھا۔ عمران نے مایوسانہ انداز میں سر کو جنبش دی اور جیب میں چیونگم کا پیکٹ تلاش کرنے لگا۔ بڑی آہستگی سے زینے طے کر کے وہ نیچے پہنچا تھا اور گاڑی میں بیٹھ کر پھر فلیٹ کی طرف روانہ ہو گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔
سردار گڈھ کے پولیس ہیڈکوارٹر کے ایک کمرے میں پروفیسر ایکس اور ریکھا چودھری سے پوچھ گچھ ہو رہی تھی۔ پروفیسر ایکس کے چہرے پر کچھ ایسے تاثرات تھے جیسے اس کی بڑی توہین ہو رہی ہے۔ موڈ بھی جارحانہ تھا۔
“میرا نام پروفیسر ایکس ہے!“ دفعتاً وہ غرایا۔ “ آخر آپ لوگ میرا اصل نام کیوں جاننا چاہتے ہیں۔!“
“یہ ضروری ہے۔!“ ڈی ایس پی اسے گھورتا ہوا بولا۔
“میں سردار گڈھ میں پندرہ سال سے مقیم ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی دو چار ماہ کے لئے دوسرے ممالک کے دورے پر چلا جاتا ہوں۔ یہاں مجھے بےشمار لوگ جانتے ہیں۔!“
“ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بیحد اہم معاملہ ہے۔ مرنے والا ایک ایڈمیسٹریٹر کا لڑکا تھا۔!“
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top