نصرت فتح علی میرے رشک قمر

قیصرانی

لائبریرین
میرے رشکِ قمر تو نے پہلی نظر
جب نظر سے ملائی مزہ آ گیا
برف سی گر گئی کام ہی کر گئی
آگ ایسی لگائی مزہ آ گیا
جام میں گھول کر حسن کی مستیاں
چاندنی مسکرائی مزہ آ گیا
چاند کے سائے میں اے میرے ساقیا
تو نے ایسی پلائی مزہ آ گیا
نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا
بزمِ رندان میں ساغر کھنکنے لگے
مے کدے پہ برسنے لگی مستیاں
جب گھٹا گِھر کے چھائی مزہ آ گیا
بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے
اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ ان کی لڑی جو میری آنکھ سے
دیکھ کر یہ لڑائی مزہ آ گیا
آنکھ میں تھی حیا ہر ملاقات پر
سرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر
اس نے شرما کے میرے سوالات پہ
ایسے گردن جھکائی مزہ آ گیا
شیخ صاحب کا ایمان بک ہی گیا
دیکھ کر حسنِ ساقی پگھل ہی گیا
آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے
مٹ گئی پارسائی مزہ آ گیا
اے فنا شکر ہے آج بادِ فنا
اس نے رکھ لی میرے پیار کی آبرو
اپنے ہاتھوں سے اس نے میری قبر پر
چادرِ گل چڑھائی مزہ آ گیا
میرے رشکِ قمر تو نے پہلی نظر
جب نظر سے ملائی مزہ آ گیا
 
Top