میری کہانی

شمشاد

لائبریرین
نوریز بھائی منٹو تو معاشرے کا ایسا بے رحم سرجن تھا جو انستیھزا دیئے بغیر آپریشن کر دیا کرتا تھا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ کہانی کسی سوال کا جواب لگ رہی ہے:)
میری کہانی

ہم تین بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ دو بہنیں بڑی ہیں اور ایک چھوٹی، میں تیسرے نمبر پر ہوں۔ بڑی بہن جسے میں آپی کہتا ہوں اور دوسری بہن جسے میں باجی کہتا ہوں، ان دونوں کی عمروں میں دس سال کا فرق ہے، میں باجی سے دو سال اور چھوٹی بہن مجھ سے دو سال چھوٹی ہے۔

میری دو مائیں ہیں، ایک میری ماں جس نے مجھے جنم دیا اور دوسری میری بڑی بہن، آپی۔ آپی نے صرف مجھے دودھ نہیں پلایا، باقی مجھے پالنے پوسنے والی وہی ہے۔ وہ اسطرح کہ میری پیدائش پر میری ماں بیمار ہو گئیں اور بستر سے لگ گئیں اور تقریباً سال بھر بستر سے ہی لگی رہیں۔پھر مزید سال بھر بعد چھوٹی بہن اس دنیا میں آ گئی، تو میری ماں کی توجہ نوزائیدہ کی طرف ہو گئی اور میں آپی ہی کی نگہداشت میں رہا۔ پانچ سال کی عمر تک میں آپی کو ہی ماما کہتا رہا۔

میرے والد ایک ایسے سرکاری محکمے میں، جہاں عوام سے روز مرہ کے معاملات میں واسطہ پڑتا ہے، ایک عام سے ملازم ہیں۔ اس محکمے میں رشوت عام ہے اور میرے والد اب تک تین دفعہ رشوت نہ لینے کے جرم میں عارضی طور پر معطل ہو چکے ہیں۔ جی ہاں رشوت نہ لینے کے جرم میں۔ ہے ناں عجیب بات۔ ساتھ میں کام کرنے والے ان کی رشوت نہ لینے کی عادت سے تنگ ہیں۔ میرے والد سائل کا کام ایمانداری اور قانون کے مطابق کرتے ہیں۔ اگر کام جائز ہے تو بغیر کسی رشوت کے، بغیر کسی سفارش کے کر دیتے ہیں، جبکہ دوسرے ساتھی کام بگاڑ کر رشوت طلب کرتے ہیں یا پھر اوپر سے کوئی سفارش آ جائے تو کام کرتے ہیں۔ بلکہ ناجائز کام بھی کرتے ہیں۔ ساتھی باہمی سازش کر کے میرے والد کو تین دفعہ جھوٹے کیسوں میں پھنسا چکے ہیں، تین دفعہ معطل ہوئے، تین دفعہ انکوائری ہوئی اور اللہ کے فضل و کرم سے ہر دفعہ جیت سچ کی ہوئی۔ تیسری انکوائری کے بعد بڑے بابو نے ان کو ڈیپارٹمنٹ کے اس شعبے میں ٹرانسفر کر دیا، جہاں عوام کے آنے جانے کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ میرے والد کی لگی بندھی تنخواہ سے گھر کا گزارہ چلتا ہے۔ الحمد للہ، روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر لیتے تھے۔ اللہ کے سوا کبھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئی تھی۔

آپی کی شادی ۲۶ سال کی عمر میں ہوئی۔ میں اس وقت ۱۴ سال کا تھا۔ آپ کی رخصتی پر آپی اتنا نہیں روئی تھیں، جتنا میں رویا تھا۔ وہ میری ماں بھی ہے اور دوست بھی ہے۔ انہوں نے کبھی بھی مجھے نہ کبھی مارا نہ ڈانٹا، ہمیشہ پیار سے سمجھایا۔ میں اپنی ہر بات آپی سے کر لیتا تھا۔ اس وقت میں میٹرک میں تھا۔ سولہ سال کی عمر میں میں نے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کر لیا تھا۔ گو کہ میں نے میٹرک میں فزکس کیمسٹری پڑھی تھی لیکن بورڈ کے امتحان میں رائل ڈویژن میں پاس ہوا تھا۔ رائل ڈویژن سمجھتی ہیں ناں آپ، یعنی کہ تھرڈ ڈویژن اور نمبر اتنے کم تھے کہ کسی کالج نے داخلے کے لائق ہی نہیں سمجھا۔ مجبوراً پرائیوٹ کالج، جو کہ شام کی شفٹ میں کھلتے ہیں، میں داخلہ لیا۔ اوکھے سوکھے ہو کر بارہ جماعت پاس کر لیں۔ اب آگے پڑھنے کا مسئلہ تھا۔ کالج کے ساتھیوں سے مشورہ کر کے اسی کالج میں بی اے میں داخلہ لے لیا۔ آپی کی شادی ہو چکی تھی، باجی نے پڑھنا چھوڑ دیا تھا، چھوٹی البتہ اسکول جاتی تھی۔ خیال تھا کہ میٹرک کے بعد اسے بھی اسکول سے اٹھا لیا جائے گا۔ کم آمدنی میں یہی خرچے برداشت سے باہر ہوتے نظر آ رہے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ مکان اپنا تھا اور کرائے کے جھنجٹ سے آزاد تھے۔ آج سے چار سال پہلے تک گھر میں صرف ایک سیل فون تھا، وہ بھی پرانے ماڈل کا اور وہ والد صاحب استعمال کرتے تھے۔ کالج آنے جانے کے لیے ایک پرانی بائیسکل خرید لی تھی۔ میرے لیے وہی مرسیڈیز کار سے کم نہ تھی۔ اس سے پہلے میں ابو کی ہی بائیسکل استعمال کرتا تھا۔ صبح وہ اس پر دفتر جاتے تھے اور شام کو میں اس پر کالج جاتا تھا۔ کالج میں اردو کے جو استاد تھے، کیا کہوں کہ کیا سحر تھا ان کے پڑھانے میں، اور خاص کر شعر و شاعری میں، کہ طالب علم مسحور ہو کر رہ جاتے تھے۔ نثر بھی بہت اچھی پڑھاتے تھے اور نصاب کے علاوہ غیر نصابی تعلیم بھی بہت اچھی دیتے تھے۔ انہی سے مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق ہوا۔ اور شاعری میں انہوں نے ہی اچھے اورعامیانہ شعروں میں فرق سمجھایا۔ یہ جو مجھے اچھے اشعار پڑھنے اور یاد کرنے کا شوق ہے، تو انہی کی مرہون منت ہے۔ کالج کے بعد بھی ہم چار دوست کبھی کبھی ان کو گھیر لیا کرتے تھے اور ان کی صحبت سے فیض یاب ہوتے تھے۔

مجھے آج تک ان کے دو اشعار کی تشریح ازبر ہے جو انہوں نے پڑھاتے ہوئے کی تھی۔ مولانا حالیؔ کا ایک شعر تھا :
اک عمر چاہیے کہ گوارہ ہو نیش عشق
رکھی ہے آج ہی لذت زخم جگر کہاں

اور دوسرا میر تقی میرؔ کا شعر تھا :
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا

اگر ان اشعار کی تشریح اپنے استاد کے الفاظ میں لکھنے لگوں تو صفحوں کے صفحے بھر جائیں۔

کالج میں ہم چار دوست بہت قریبی دوست بن گئے۔ میرے علاوہ، فیروز، نعمان اور اشفاق۔ فیروز اپنے بڑے بھائی کی زیر کفالت تھا۔ ان کی ایک دکان تھی جس کی آمدنی سے سارا گھر چلتا تھا۔ بڑا بھائی دکان کا کرتا دھرتا تھا۔ گھر میں گیارہ افراد تھے۔ فیروز بھی دن میں دکان پر کام کرتا تھا۔ بڑا بھائی لگے بندے پیسے فیروز کو کتابوں اور فیس کے لیے دیا کرتا تھا۔ اشفاق کے والد وفات پا چکے تھے، اس کے بھائی کی بھی ایک دکان تھی، دن میں وہ بھائی کے ساتھ دکانداری کرتا تھا اور شام کو کالج پڑھنے آتا تھا۔ وہ بھی بھائی کے زیر کفالت تھا۔نعمان کی مالی حیثیت ہم چاروں میں سب سے اچھی تھی۔ اس کی والدہ کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔ والد پاکستان ٹائمز میں اچھے عہدے پر فائز تھے، بڑے بھائی پی آئی اے میں انجینیر تھے ، غیر شادی شدہ تھے، اور ایک چھوٹی بہن تھی۔ مختصر سا کنبہ تھا اور آمدنی اچھی تھی۔ ہم میں سے کسی کے پاس سیل فون نہیں تھا، سوائے نعمان کے۔ موٹر سائیکل کسی کے پاس نہ تھی۔ اشفاق اور فیروز کے پاس بائیسکل بھی نہیں تھی۔ نعمان کے پاس اچھی والی بائیسکل تھی، غالباً ریلے تھی۔ لیکن اتفاق ایسا یا یہ کہہ لیں، ہمارے مزاج نے ہم چاروں کو اکٹھا کر دیا۔ چاروں کو کتابیں پڑھنے کا شوق اور چاروں کو اچھی شاعری پڑھنے اور یاد کرنے کا شوق۔ کئی دفعہ تو ہم آپس میں شعروں کی زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ جبکہ کالج میں دوسرے طالبعلم لڑکیوں، فلموں، گانوں وغیرہ کی باتیں کیا کرتے تھے۔ ہم نے کبھی آپس میں فحش باتیں نہیں کیں، اور ہی کبھی کسی کو گالی بکی، حتیٰ کہ مذاق میں بھی کبھی کسی کو گالی نہیں دی۔ جبکہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہی گالی ہوتا ہے۔ کالج میں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے پڑھتے تھے۔ لڑکے زیادہ تھے اور لڑکیاں کم، ان کو ایک طرف بٹھا کر درمیان میں کالے رنگ کا ایک پردہ لگا دیا جاتا تھا۔ ہم چاروں میں سے کبھی کسی نے کسی لڑکی کے متعلق کبھی کوئی بات نہیں کی تھی۔ کالج میں زیادہ تر غریب غربا کے بچے ہی پڑھتے تھے۔ ہاں کچھ ایسے بھی تھے جن کے پاس موٹر سائیکل بھی تھی، لیکن وہ دن میں کہیں نہ کہیں ملازمت کرتے تھے۔ ایک بات اور کہ ہم چاروں پیدل گھومتے بہت تھے۔ ظاہر ہے یہ عیاشی کالج سے چھٹی والے دن ہی ہوتی تھی۔ مجھے اور نعمان کو بارش میں بھیگنے کا بہت شوق تھا۔ ہم دونوں نے لنڈ۱ بازار سے یہ بڑے بڑے اور لمبے لمبے کوٹ اور بڑے بڑے ہیٹ خریدے تھے، ربڑ کے بوٹ بھی لنڈا بازار سے خریدے تھے۔ جب کبھی بارش کا ایسا موقع ہوتا کہ گھوم سکیں تو ہم دونوں یہی کوٹ، ہیٹ اور بوٹ پہن کر جیبوں میں ہاتھ دے کر بلا مقصد سڑکوں پر پھرتے تھے۔

غیر درسی معیاری کتابیں بہت مہنگی تھیں، شعر و شاعری کی بھی مہنگی تھیں، چاروں کو جو جیب خرچ ملتا تھا وہ اتنا نہیں ہوتا تھا کہ کتابیں خریدنے کی عیاشی کی جاسکے۔ بس اتنا ہوتا تھا کہ ہفتے میں ایک دو بار سب مل کر کسی ریسٹورنٹ میں چائے پی لیتے تھے، یا کسی ٹھیلے والے سے موسم کے مطابق جو بھی جوس ہوتا، وہ پی لیتے تھے۔ چائے یا جوس کا بل بھی مل کر ادا کرتے تھے، اکثر ایسا ہوتا تھا کہ اگر سو روپے کا بل ہے تو چالیس روپے نعمان ادا کرتا تھا اور بیس بیس روپے ہم تینوں ادا کرتے تھے۔ اور اس میں ہمیں کبھی شرم یا عار محسوس نہیں ہوئی۔ یہ تھی ہماری مالی حیثیت۔

کوئی کتاب کسی کو پسند آ جاتی تو مل ملا کر خرید بھی لیتے تھے۔ اس میں بھی نعمان نے ہمیشہ زیادہ پیسے دیئے۔ پھر سب باری باری پڑھ لیتے اور اس پر تبصرہ کرتے۔ بہت اچھے دن تھے وہ۔ ایک دفعہ میں ایک بُک سٹال پر ایک کتاب دیکھ رہا تھا۔ کتاب کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ کتاب تو پسند آئی لیکن قیمت پسند نہ آئی۔ اتنے میں برابر میں ایک صاحب آ کر کھڑے ہوئے اور وہ بھی وہی کتاب دیکھنے لگے۔ غالباً انہیں بھی قیمت پسند نہ آئی اور وہ تھوڑی سی ورق گردانی کر کے جانے لگے تو میں نےپوچھا، "انکل، کیا ہوا، کتاب پسند نہیں آئی؟" تو کہنے لگے کہ کتاب پسند ہے اور خریدنے جا رہا ہوں۔ یہ دکاندار ڈسکاؤنٹ بہت کم دیتا ہے اور فلاں جگہ، فلاں دکاندار مجھے ۴۰ فیصد ڈسکاؤنٹ دیتا ہے۔ اس حساب سے یہ کتاب مجھے چھ سو روپے سے بھی کم میں مل جائے گی۔" میں نے اس دکان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے تفصیل سے اس دکان کا پتہ سمجھا دیا۔ پنڈی میں مری روڈ پر کمیٹی چوک سے اقبال روڈ کی طرف آئیں، تو تقریباً ڈیڑھ سو میٹر دائیں ہاتھ، نیچے تہ خانے میں ہے۔ مجھے اس وقت اس دکان کا نام یاد نہیں آ رہا۔ وہاں کتابوں کی دو دکانیں اور بھی ہیں۔ گو کہ دکان خاصی دور تھی لیکن اس وقت جیب میں تین سو روپے تھے اور اس وقت دوستوں کی کڑکی کی وجہ سے ان سے امید بھی کم تھی۔ اتفاق سے آپی آئی ہوئی تھیں۔ بچے بھی ساتھ تھے۔ دولہا بھائی انہیں چھوڑ کر دو دن کے لیے کسی دوسرے شہر گئے تھے۔ انہیں میری کتاب دوستی کی سُن گھن مل چکی تھی۔ مجھے تین سو روپوں کی سخت ضرورت تھی اور بے چینی لگی ہوئی تھی کہ چھ سو پورے ہو جائیں تو جلدی سے جا کر کتاب خرید لوں۔ میں نے آپی سے ڈرامہ کیا، اپنے تین سو روپے چُھپا کر خالی پرس میں چند سکے ڈال کر آپی سے کہا، "آپی دیکھو! آپ کا بھائی اتنا غریب ہے کہ اس کے پرس میں صرف یہ چند سکے ہیں اور کچھ بھی نہیں۔" آپی کو مجھ پر بہت ترس آیا اور بہت لاڈ آیا، مجھے اپنے سینے سے لگا کر کہنے لگیں، "ہائے میرے بچے کا یہ حال ہو گیا ہے۔" اور فوراً اپنا پرس کھول کر اس میں سے تین سو روپے نکال کر میرے پرس میں ڈال دیئے۔ میں نے چند منٹ آپی کو مسکہ لگایا، بھانجے بھانجی کو چمٹا کر پیار کیا، اور ہوا کی رفتار سے بائیسکل پر سوار اس دکان پر پہنچا کہ کتاب خرید سکوں۔ دکاندار نے ڈسکاؤنٹ کے بعد مجھے اس کی قیمت سات سو بتائی۔ میں نے اصرار کیا کہ آپ تو چالیس فیصد ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں، دکاندار کہنے لگا، وہ ہم ریگولر کسٹمر کو دیتے ہیں۔ میں نے کہا، "انکل، میں ایک طالبعلم ہوں اور آئندہ بھی یہیں سے کتابیں خریدوں گا۔" نجانے اس کے جی میں کیا آئی، کہنے لگا چلیں آپ بھی چالیس فیصد ہی لے لیں۔ میں نے جلدی سے چھ سو روپے اس کے حوالے کیے۔ مجھے یاد نہیں اس نے کتنے پیسے مجھے واپس کیئے تھے، شاید بیس یا تیس، لیکن میں کتاب حاصل کرنے کی خوشی میں بھول کر جو بھی اس نے دیئے جیب میں ڈالے اور واپس گھر آ گیا۔دو دن میں نے اپنےدوستوں کو بھی نہ بتایا کہ میں وہ کتاب خرید لایا ہوں۔ آپی کو معلوم ہو گیا اور میرے مسکے کا بھی علم ہو گیا کہ کتاب خریدنے کے لیے کسطرح پیسے لیے ہیں، تو انہوں نے پہلی دفعہ کان پکڑ کر مروڑا، میں جان بوجھ کر بلبلایا تو بعد میں کتنی ہی دیر دوپٹے پر پھونکھیں مار مار کر میرے کان پر رکھتی رہیں۔ اور میں کتنی ہی دیر ان کی گود میں سر رکھے لیٹا رہا۔

میں نے ابو کے سیل فون سے نعمان کو مس کال کی۔ میں نےجب بھی اس سے بات کرنی ہوتی تھی، اس کو ایسے ہی مس کال کرتا تھا، اور وہ فوراً جواب میں کال کرتا تھا۔ تو اسی وقت اس کا فون آ گیا۔ میں نے کتاب کا بتایا اور یہ بھی بتایا کہ دو دن ہو گئے ہیں اور میں نے پڑھ بھی لی ہے، تو پہلے تو اس نے روائتی انداز میں پیار بھری صلواتیں سنائیں کہ پہلے کیوں نہیں بتایا وغیرہ وغیرہ، اور پھر آدھ گھنٹے کے اندر میرے دروازے پر کتاب لینے کے لیے آ موجود ہوا۔

ہم جو بھی کتاب خریدتے تھے، اگر وہ اب بھی چار سال کے بعد بھی دیکھیں، تو باکل ایسے لگے گی جیسے آج ہی خرید کر لائے ہیں۔ کتابوں کو پڑھنے اور سنبھال کر رکھنے کے بہت سخت اصول تھے۔ کوئی بھی کسی کتاب پر اپنا نام نہیں لکھے گا، کتاب پر کسی قسم کی تحریر لکھنا، مثلاً تاریخ یا کوئی نوٹ لکھنا، سختی سے ممنوع تھا۔ پڑھتے ہوئے درمیان میں اگر کہیں نشانی رکھنی پڑھ جائے تو کتاب کا کونہ موڑنہ سخت منع تھا۔ اس کے لیے "بک مارک" کا استعمال کیا جاتا تھا اور فیروز کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ بنا کر لائے۔ البتہ ہر کتاب کے صفحہ ۲۳ پر جہاں ۲۳ لکھا ہوتا ہے اس کے گرد نیلی روشنائی سے ایک چھوٹا سا دائرہ لگا دیا جاتا تھا۔ یہ ایک قسم کی ہماری کتابوں کی ملکیت کی سیکورٹی تھی۔ ہماری کتابیں چاروں کے گھر تھوڑی تھوڑی پڑی رہتی تھیں اور ادل بدل ہوتی رہتی تھیں۔ کچھ کتابیں فیروز کے گھر، کچھ میرے، کچھ اشفاق کے اور کچھ نعمان کے گھر۔ قدرت اللہ شہاب مرحوم کی آب بیتی "شہاب نامہ" بہت عرصے تک میرے سرہانے پڑی رہی۔ میں کئی دفعہ کی پڑھی ہوئی اس کتاب کے تین چار صفحے روزانہ رات کو سونے سے پہلے پڑھتا تھا۔ پھر ممتاز مفتی مرحوم کی "علی پور کا ایلی" اور "الکھ نگری" بھی بہت عرصہ میری Bed Side Books کے طور پر پڑی رہیں۔ میرے گھر، فیروز اور اشفاق کے گھر کوئی بھی کتابوں کا شوقین نہیں تھا، صرف نعمان کی چھوٹی بہن کبھی کبھار کوئی کتاب پڑھ لیا کرتی تھی۔ وہ ہم سے کافی چھوٹی تھی اور چاروں کی مشترکہ بہن تھی۔ ہمارے گروپ میں پہلے کوئی لڑکی نہیں تھی۔ ایکدفعہ ایسا ہوا کہ نعمان ایک کتاب واپس کرنے کے لیے کالج میں لے آیا۔ کتاب کافی موٹی تھی۔ غالباً قدرت اللہ شہاب مرحوم کی "شہاب نامہ" تھی یا "ممتاز مفتی مرحوم کی "الکھ نگری"، مجھے صحیح سے یاد نہیں۔ کالج پہنچ کر اس نے روزمرہ لانے والی کتابیں حسب معمول ڈیسک پر رکھ دیں۔ جب کہ وہ کتاب اپنی کتابوں سے ذرا ہٹا کر رکھ دی۔ کالج ختم ہوا تو وہ حسب معمول اپنی روزمرہ والی کتابیں اٹھا کر باہر آ گیا۔تھوڑی دیر بعد اسے یاد آیا کہ وہ کتاب تو اٹھانا ہی بھول گیا، جلدی سے بھاگا، اوپر کلاس روم کی طرف۔ جب کلاس روم میں داخل ہوا تو دیکھا سب طلبا جا چکے ہیں اور ایک لڑکی اس کتاب کو دونوں ہاتھوں سے اٹھائے اس کا مطالعہ کر رہی ہے۔ نعمان کو آتا دیکھ کر وہ جلدی سے کتاب رکھ کر واپسی کے لیے مُڑی، لڑکیوں کا کلاس روم میں آنے کا راستہ الگ سے تھا، تو اس کا عبایا کرسی اور ڈیسک کے درمیان پھنس گیا، جس کو اس نے بے دردی سے کھینچا تو وہ تھوڑا سا پھٹ بھی گیا۔ نعمان لڑکی کا چہرہ تو نہ دیکھ سکا کہ اس نے نقاب کیا ہوا تھا، خیر وہ کتاب اٹھا کر واپس آ گیا اور یہ ساری بات بتائی۔

میری عادت تھی کہ کوئی بھی کتاب دو سے تین دن میں ختم کر لیتا تھا، نعمان کی بھی یہی عادت تھی، لیکن فیروز اور اشفاق کبھی کبھی ایک ایک ہفتہ لگا دیا کرتے تھے، کیونکہ ان کے پاس وقت کم ہوتا تھا۔ اوپر والا واقعہ ہونے کے غالباً تیسرے یا چوتھے روز جب ہم اکٹھے کالج سے باہر نکلے تو پیچھے سے ایک نسوانی آواز آئی "بھائی ایک بات سنیں"۔ سب نے مُڑ کر دیکھا تو ایک لڑکی جو کہ اسی کالج کی طالبہ تھی، عبایا پہنا ہوا اور نقاب کیا ہوا، ہاتھ میں کتابیں پکڑی ہوئیں، اس نے نعمان کو مخاطب کیا اور کہنے لگی، "مجھے آپ سے کچھ بات کہنی ہے۔" ہم تینوں دو قدم آگے بڑھ گئے اور نعمان اور وہ لڑکی آپس میں باتیں کرنے لگے۔ چند لمحوں بعد نعمان ہمارے ساتھ آ ملا اور کہنے لگا، یہ وہی لڑکی ہے جس کا واقعہ میں نے اُس دن سنایا تھا۔ اس نے کتاب دیکھی تھی، اور اب کہہ رہی ہے کہ کیا آپ وہ کتاب مجھے کچھ دنوں کے لیے مستعار دے سکتے ہیں؟ میں پڑھ کر واپس کر دوں گی۔" تو نعمان نے اسے جواب دیا کہ میں اپنے دوستوں سے مشورہ کر کے کل اس کا جواب دوں گا۔ خیر مشورہ ہوا اور فیصلہ بھی کر لیا۔ اگلے دن اس نے پھر کالج ٹائم کے آخر میں پیچھے سے آ کر نعمان کو پکارا۔ تو نعمان نے اسے کتابیں پڑھنے کے اصول بتائے جو اس نے من و عن قبول کر لیے۔ پھر اس کو بتایا کہ کتاب کل مل سکےگی۔ اس کے بعد بھی کئی دفعہ اس نے کئی ایک کتابیں مستعار لیں اور پڑھ کر واپس کر دیں اور ہمارے اصولوں پر سختی سے عمل کیا۔ میرے ساتھ، فیروز اور اشفاق کے ساتھ بھی اس کی کئی ایک دفعہ بات ہوئی اور ظاہر ہے وہ کتابوں ہی کے سلسلے میں ہوئی، لیکن نہ ہم نے کبھی اس کا نام پوچھا اور نہ کبھی اس نے بتایا اور نہ ہی کبھی اس کا چہرہ دیکھا کہ وہ نقاب میں ہوتی تھی۔

بُرے بھلے انداز میں پڑھائی جاری تھی، گھر کے حالات بھی باایں ویسے ہی تھے۔کہ ابو کے ایک بہت پرانے دوست، غالباً بچپن یا اسکول یا کالج کے زمانے کے ہوں گے، انہیں ملنے آئے۔بہت عرصے بعد ملے تھے۔ ابو بہت خوش ہوئے۔ دونوں نے گھنٹوں باتیں کیں۔ پرانے قصے دہرائے گئے۔ معلوم ہوا کہ وہ عرصہ دراز سے سعودی عرب میں رہ رہے ہیں اور اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا گھر لاہور میں تھا، جبکہ ہم راولپنڈی میں رہتے ہیں۔ وہ ہر سال یا چھ ماہ بعد ہفتے دو ہفتے کے لیے پاکستان آتے اور واپس چلے جاتے۔ نجانے کس مصلحت کے تحت انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو لاہور میں رکھا ہوا تھا۔ اپنے ساتھ سعودی عرب میں نہیں رکھتے تھے۔اس دفعہ جب وہ آئے تواپنے کاروبار کے سلسلے میں انہیں اسلام آباد میں کوئی کام تھا جس کے لیے دو سے تین دن کا وقت درکار تھا۔ اس وقت ان کو ابو کی یاد آئی کہ میرا ایک دوست پنڈی میں بھی ہے۔ اسی بہانے وہ ابو سے ملنے آئے تھے۔ کام تو ہوتا رہا لیکن وہ تین دن ہمارے گھر میں ہی رہے۔ ابو نے دفتر سے ان کے لیے دو دن کی چھٹی لی اور خوب گپیں ماریں گئیں۔ ابودو دن ان کے ساتھ اسلام آباد جاتے رہے اور تیسرے دن ان کا کام ہو گیا اور وہ واپس لاہور چلے گئے۔ ان تین دنوں میں ہم نے ان کی بساط بھر خاطر تواضع کی۔ لیکن وہ بھی کاروباری آدمی تھی، جان گئے کہ ہمارے مالی حالات کیسے ہیں۔ انہوں نے جاتے ہوئے ابو سے بات کی کہ اپنے بیٹے کو میرے ساتھ سعودی عرب بھیج دو۔ وہاں وہ میرے پاس کام کرے گا اور چار پیسے کما لے گا۔ ویزہ، ہوائی جہاز کی ٹکٹ، پاسپورٹ بنوانے کا خرچہ، الغرض کہ الف سے ی تک سب خرچہ ان کا ہو گا۔ اب اس دور میں جبکہ لوگ لاکھوں روپے دے کر ویزہ خرید کر مشرق وسطٰی جاتے ہیں اور بہت سے لوگ دھوکہ بھی کھا جاتے ہیں اور اپنا سب کچھ گنوا کر واپس آ جاتے ہیں، یہ پیشکش سونے پر سہاگہ تھی۔ ابو اپنا اکلوتے بیٹا ہونے کی وجہ سے بھیجنا نہ چاہتے تھے لیکن پھر بدل نخواسہ مان گئے۔ اور مجھے سعودی عرب جانے کے لیے کہا۔ میری پڑھائی وہیں رہ گئی، کالج چھوڑنا پڑا۔ میرے دوست خوش بھی ہوئے لیکن بہت رنجیدہ بھی ہوئے۔ ان تینوں نے مجھے کالج سے چھٹی والے دن ایک ریسٹورنٹ میں الوداعی پارٹی بھی دی۔پارٹی کا مینو گو کے بہت مختصر تھا لیکن یہ ایک یادگار پارٹی تھی۔ نعمان نے مجھے ایک قلم تحفے میں دیا۔

انکل نے لاہور پہنچ کر ابو کو کچھ رقم بھیجی، مجھے نہیں معلوم کہ رقم کتنی تھی، تاکہ میں سعودی عرب جانے کی تیاری کر سکوں۔ اس میں پاسپورٹ بنوانا اور دیگر اخراجات تھے۔ اور کہا کہ وہ اگلے ہفتے سعودی عرب جا رہے ہیں اور وہاں جاتے ہی اس کا ویزہ بھجوا دیں گے۔اتفاق ایسا ہوا کہ ویزہ آنے میں چھ ماہ کا وقت لگ گیا اور پھر ویزہ لگنے، سیٹ بُک کروانے اور دیگر انتظامت کرنے میں غالباً ایک ماہ اور لگ گیا اور میں آٹھ ماہ کے بعد سعودی عرب پہنچ گیا۔ انکل نے بہت مدد کی۔ بہت ہمدردی کی۔ ہر طرح کی سہولت بہم پہنچائی۔ لیکن شروع میں مجھے بہت ہی اداسی اور پریشانی رہی اور وہ پریشانی اپنے گھر والوں سے دوری اور اپنے دوستوں کی جدائی کی وجہ سے تھی۔ یہاں آ کر جب انکل نے مجھے سیل فون لیکر دیا تو میرا گھر والوں سے رابطہ ہوا اور نعمان سے تو تقریباً روزانہ ہی پیغامات کے ذریعے ملاقات رہتی ہے۔ اسی کے توسط سے فیروز اور اشفاق اور "اُس" لڑکی کی بھی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ وہ اب اس گروپ کی چوتھی رکن بن گئی ہے، اس نے اپنا نام "فرحین" بتایا ہے لیکن ان تینوں نے اس کا چہرہ ابھی تک نہیں دیکھا۔ نعمان نے بتایا کہ اس نے کتابیں خریدنے کے سلسلے میں اپنا حصہ بھی ڈالنے کی پیشکش کی تھی جسے بہت ہی مہذب انداز میں انکار کر دیا گیا۔ اچھے اچھے اشعار کا بھی تبادلہ ہوتا ہے اور کبھی کبھی وہ کسی مضمون، کسی کتاب کے کچھ صفحے نقل کر کے بھیج دیتا ہے۔ اس سے بھی اپنا شوق پورا ہوتا رہتا ہے۔ میں نے جب پہلی دفعہ یہاں سے گھر پیسے بھجوائے تو ابو کو کہا کہ اس میں سے دس ہزار روپے نعمان کو دے دیں۔ اور نعمان کو میں نے بڑا سخی راجہ بن کر پیغام بھیجا کہ "جا بچہ ان پیسوں سے اچھی اچھی کتابیں خرید لے۔" میری اس پیار بھری فیاض دلانہ سخاوت پر جو پیار بھری صلواتیں سُننے کو ملیں، وہ بھی دوستوں کی طرف سے حاصل زندگی ہی ہے۔

میں یہاں ایک فلیٹ میں رہ رہا ہوں۔ فلیٹ میں تین کمرے ہیں اور میرے ساتھ انکل کے دو ملازم اور بھی رہتے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا الگ کمرہ ہے۔ گو کہ دونوں مجھ سے عمر میں خاصے بڑے ہیں، لیکن بہت اچھے ہیں۔ کام کے علاوہ، ایک صاحب ہر وقت اپنے سیل فون میں گُم رہتے ہیں اور دوسرے صاحب کو صرف کھانا بنانے اور پکانے سے دلچسپی ہے ۔ کھانا بنانے میں میں ان صاحب کی کبھی کبھی مدد کر دیتا ہوں یعنی کہ سبزی بنا دی، اس میں بھی وہ مین میخ نکال دیتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ چھلکا موٹا اتارا ہے، کبھی کہتے ہیں بہت باریک کاٹ دی ہے۔ البتہ میرے برتن دھونے سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر صرف میرے کمرے میں ہے کہ مجھے کاروبار کا حساب کتاب رکھنا ہوتا ہے۔ اور آجکل تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار کچھ کم ہو گیا ہے اس لیے فراغت ہی فراغت ہے۔

یہاں آ کر پہلی دفعہ انٹرنیٹ سے واسطہ پڑا اور سارا سارا دن واسطہ پڑا۔ کمپیوٹر پر پاکستان میں بھی تھوڑا سا واسطہ پڑا تھا، کہ اس کی الف بے سیکھ گیا تھا۔ جب یہاں واسطہ پڑا اور وقت کی فراغت نصیب ہوئی تو اردو شعر و شاعری اور نثر کی تلاش شروع ہوئی اور پھر تو ایسا لگا کہ شعر و شاعری اور نثر کی جنت میں آ گیا ہوں۔پرانے شعراء کا کلام اور پرانے لکھنے والوں کی نثر، واللہ وہ مزہ آیا کہ یہیں کا ہو کر رہ گیا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت سے سوالات کس و ناکس کو درپیش رہتے ہیں کہ جانے دل کو مضطر و بیقرار رکھتے ہیں، پہلے پہل آپ کی، آپ بیتی سمجھی مگر سرا ڈھونڈنے پہ نہ ملا، آغاز تو اچھا تھا مگر اختتام کو از خود چھپایا گیا ہے اور یوں قاری کے ذہن میں سوالات جنم لیتے ہیں:)
 

شمشاد

لائبریرین
بہت سے سوالات کس و ناکس کو درپیش رہتے ہیں کہ جانے دل کو مضطر و بیقرار رکھتے ہیں، پہلے پہل آپ کی، آپ بیتی سمجھی مگر سرا ڈھونڈنے پہ نہ ملا، آغاز تو اچھا تھا مگر اختتام کو از خود چھپایا گیا ہے اور یوں قاری کے ذہن میں سوالات جنم لیتے ہیں:)
میں کوئی لکھاری نہیں ہوں۔ یہ جو تھوڑا بہت لکھا ہے تو اردو محفل کی دین ہے۔
بہت عرصہ یہاں بیچلر رہا، تو دوستوں کی محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے سے جو مشاہدہ کیا، وہ لکھ دیا۔
فیملی تو بہت بعد میں آئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت سے سوالات کس و ناکس کو درپیش رہتے ہیں کہ جانے دل کو مضطر و بیقرار رکھتے ہیں، پہلے پہل آپ کی، آپ بیتی سمجھی مگر سرا ڈھونڈنے پہ نہ ملا، آغاز تو اچھا تھا مگر اختتام کو از خود چھپایا گیا ہے اور یوں قاری کے ذہن میں سوالات جنم لیتے ہیں:)
بہت شکریہ آپ کے تبصرے کا۔

مندرجہ ذیل لڑی میں چند سطریں لکھی ہیں۔ ان پر آپ کا تبصرہ چاہتا ہوں۔

گڑیا - تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
نوریز بھائی منٹو تو معاشرے کا ایسا بے رحم سرجن تھا جو انستیھزا دیئے بغیر آپریشن کر دیا کرتا تھا۔
میں نے منٹو صاحب اور عصمت چغتائی کو چھپ کر اور چُرااپنے ابّا جان کی کتابوں سے پڑھیں، جب میں آٹھویں جماعت میں تھی۔جب نور جہاں سرورِ جہاں سمجھ میں بھی نہیں آئی پر اس وقت کا پڑھنا آج تک یاد ہے ۔۔۔۔عصمت آپا بھی سر پہ سے گذر گئیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
میں کوئی لکھاری نہیں ہوں۔ یہ جو تھوڑا بہت لکھا ہے تو اردو محفل کی دین ہے۔
بہت عرصہ یہاں بیچلر رہا، تو دوستوں کی محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے سے جو مشاہدہ کیا، وہ لکھ دیا۔
فیملی تو بہت بعد میں آئی۔
سچ کہا آپ نے اردو محفل بہت سکھاتی ہے اور آپ کو تو ایک عرصہ ہوا ان سب سے وابستہ ہوئے ۔ یہاں لکھاری ہونا اہمیت نہیں رکھتا حساس ہونا اہم ہے :):)
 

بابا-جی

محفلین
بابا-جی میں آپ کا انتظار ہی کر رہا ہوں ادھر تعارف والے زمرے میں۔
جناب، نوریز نام ہے، چک لالہ سکیم 2 میں رہائش ہے، ایک دوست (یا باس کہہ لیں) کی پرائیویٹ فرم میں برس ہا برس سے ملازمت اختیار کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اردو زبان و ادب میں بہت زیادہ دِلچسپی رہی۔
 

شمشاد

لائبریرین
تعارف کے زمرے میں آئیں ناں اور یہ سب وہاں لکھیں۔ میں نے اوپر تعارف کے زمرے کا ربط دیا ہے۔
 
Top