میری ڈائری کا ایک ورق

شمشاد

لائبریرین
مسلمانوں نے مدائن فتح کیا تو اسلامی لشکر کے سپہ سالار نے آتش کدہ نوبہار کو سرد کرنے کے لیئے ایک فوجی دستہ بھیجا۔

روائت تھی کہ یہ آتش کدہ زرتشت کے زمانے سے مسلسل فروزاں چلا آ رہا ہے۔ فوجی دستے نے آتش کدے کے مرکزی دروازے کی پیشانی پر زرتشت کا یہ قول دیکھا “ بادشاہ کے دربار میں اُسی کو حاضری دینی چاہیئے جس کے پاس علم، حوصلہ اور دولت ہو۔“ فوجی دستے میں ایک بدّو بھی تھا۔ اُس نے زرتشت کے قول کے نیچے کوہلے سے لکھ دیا کی “ جس کے پاس ان تینوں میں سے ایک وصف بھی ہو، اُسے بادشاہ کے جانے کی کیا ضرورت ہے؟“
 

شمشاد

لائبریرین
کہتے ہیں جس کو فخر اس میں ہے خر دو بٹا تین
کہتے ہیں جس کو بشر اس میں ہے شر دو بٹا تین
کہتے ہیں جس کو نڈر اس میں ہے ڈر دو بٹا تین
 
علی الصبح آٹھ بجے اٹھ کر نو بجے عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ گیارہ بجے ٹریول ایجنسی کے ساتھ ملاقات ہے اور بارہ بجے وقفہ طعام فیاض صاحب کے ساتھ۔ دو بجے میلان ہونگا اور پاؤلو کے ساتھ ملاقات ہے۔ پھر سنیورا صاندرہ کے ساتھ چار بجے
پانچ سے آٹھ بجے تک کلاس پڑھنی ہے اطالوی جغرافیہ کا مضمون ہے اور ساڑے آٹھ سے دس بجے تک اطالوی پڑھانی ہے
کل دو مصری، ایک بنگالی، دو پاکستانی، چار چائینی، ایک فلپائینی، دو سکھ اور تین رشین خواتین ہونگی۔
سبق میں انگریزی، پنجابی، اردو، عربی تراکیب استعمال ہوں گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ وہ آ پہنچا۔ کمبخت نے سونے بھی نہ دیا۔ حالانکہ سارے دن کا تھکا ماندہ تھا۔ بہت کوشش کی کہ اس کو نظر انداز کر کے سو جاؤں لیکن وہ ہے کہ مسلسل موسیقی سے دل لبھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ آخر کار اس نے ٹیکہ لگا ہی دیا اور اس کے فوراً بعد غائب۔ اب درد سے سونا محال تھا۔ میں بھی بدلہ لینے کے لیئے اس کی تلاش میں سرگرداں، آخر کار نظر آ ہی گیا، نشانے پر لیا اور قریب تھا کہ اس کو مسل کے ہی رکھ دوں کہ پھر خیال آیا کہ اس کی ننھی منی رگوں میں آخر کو میرا ہی خون ہے۔ اس لیئے اس مچھر کو زندہ چھوڑ دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
دنیا کا سب سے پرانا اخبار “ پیکنگ گزٹ “ ہے۔ یہ چین سے شائع ہوتا ہے۔ یہ اخبار ایک ہزار سال سے زیادہ پرانا ہے۔ اس کے پانچ سو سے زائد ایڈیٹر پھانسی چڑھ چکے ہیں۔ لیکن اس کی اشاعت کسی ایک دن کے لیئے نہیں رکی۔
(تراشے جو زندہ رہیں گے)
 

شمشاد

لائبریرین
اگر بھینس کا پورا جسم سینگوں میں تبدیل ہو جائے، تب بھی شیر بھینس کو ہلاک کر دیتا ہے۔ کسی بندے کو اپنی طاقت اور قوت کے بھروسے پر قضا کی گرفت سے بے خوف ہو جانا نادانی ہے۔ آندھی کو دیکھو وہ جب چلتی ہے تو بڑے بڑے تناور درخت زمین سے اُکھڑ جاتے ہیں لیکن گھاس عاجز اور بےبس ہوتی ہے، آندھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔ گھاس کی عاجزی پر آندھی کو رحم آ جاتا ہے۔

اے دل تُو بھی قضا کے روبرو زورآور اور مغرور ہونے کی کوشش نہ کر۔ قضا سے جو ٹکرانے کی کوشش کرتے ہیں قضا اُن کو بلندوبالا درختوں کی طرح نیست و نابود کر دیتی ہے۔ اگر تو نے گھاس کی مانند عاجزی اختیار کی تو سکتا ہے قضا تجھ پر رحم کرے اور تُو تباہ ہونے سے بچ جائے۔
(مولانا روم)
 

شمشاد

لائبریرین
مجید لاہوری “ جمہوری رشوت“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ مولوی شیر خان کہتے ہیں کہ اگر رشوت انفرادی ہو تو “شدید گناہ“ ہے۔ اور اگر یہ عوامی ہو تو جمہوری بن جائے تو گناہ بٹ جاتا ہے۔ مثلاً بعض لوت رشوت کے نام پر پارٹیاں دیتے ہیں۔ ظاہر ہے ان پارٹیوں میں بہت سے لوگ شریک ہوتے ہیں، اس لیئے یہ رشوت “ جمہوری رشوت“ بن جاتی ہے۔ حضرت نظیر اکبر آبادی کی ایک نظم میں راقم الحروف نے تصرف کیا تھا۔ اس میں جمہوری رشوت کا ہی ذکر ہے :

جتنی خوشامد کر سکے کر، تجھ کو بریانی ملے
عہدے ملیں، منصب ملے اور قصر سلطانی ملے

“پیلس“ میں دے پارٹی، ٹھیکہ باآسانی ملے
روٹی کھلا روٹی ملے، پانی پلا پانی ملے

کیا خوب سودا ہے، اس ہاتھ دے، اس ہاتھ لے

(مطبوعہ جنگ کراچی)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ میری ڈائری کا آپ لوگوں نے کیا بنا دیا ہے، ایسی ڈائری کو کون پڑھے گا :cry: :cry: :(

اب میں پھر سے شروع کرتا ہوں :


ہر دکھ، ہر عذاب کے بعد زندگی آدمی پر اپنا راز کھول دیتی ہے۔ بودھ گیا کی چھاؤں تلے بدھ بھی ایک دکھ بھری تپسیا سے گزرے تھے۔ جب پیٹ پیٹھ سے لگ گیا، آنکھیں اندھے کنویں کی تہ میں بے نور ہوئیں اور ہڈیوں کی مالا میں بس سانس کی ڈوری اٹکی رہ گئی تو گوتم بدھ پر بھی ایک بھید کھلا تھا۔ جیسا اور جتنا اور جس کارن آدمی دکھ بھوکتا ہے، ویسا ہی بھید اس پر کھلتا ہے۔ نروان ڈھونڈنے والے کو نروان مل جاتا ہے اور جو دنیا کی خاطر کشٹ اٹھاتا ہے تو دنیا اس کو راستہ دیتی چلی جاتی ہے۔
(آب گم - مشتاق احمد یوسفی)
 

شمشاد

لائبریرین
صاحب یہودی قوم ایسی قوم ہے کہ ہم نے غصے میں بھی یہودیوں کو کبھی گالی نہیں دی۔ ہمیشہ ایسے موقعوں پر انہیں یہودی ہی کہا۔ جرمن سکول میں اکلوتے یہودی لڑکے کو ڈانتے ہوئے ایک جرمن استاد نے کہا تھا۔ “ تم بھی اپنے ہم نسلوں کی طرح، لالچی، خود غرض اور دوسروں کی حق تلفی کرنے والے ہو، تمہارا باپ تمہاری پڑھائی کے لیئے فیس تو ایک طالب علم کی ادا کرتا ہے جبکہ تم پڑھتے تین طالب علموں جتنا ہو۔“
(ڈاکٹر یونس بٹ - عکس بر عکس)
 

شمشاد

لائبریرین
فوج ڈسپلن کا نام ہے، کہتے ہیں اصلی فوجی وہ ہے جسے افسر دس روپے دے کر کہے۔
“ جاؤ اس کی پجارو خرید کر لاؤ۔“ تو وہ آگے سے یہ بھی نہ پوچھے

“ سر ! کتنی لانی ہیں؟“

یس سر، یس سر، کہہ کر لینے نکل جائے۔ حالانکہ ہمارے خیال میں وہ بھی اصلی فوجی نہیں ہے۔ اصلی جوان وہ ہے جو دس روپے میں پجارو لے بھی آئے۔
(یونس بٹ - عکس بر عکس)
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارا ذکر جو ظالم کی انجمن میں نہیں
جبھی تو درد کا پہلو کسی سخن میں نہیں

آرزو کے لڑکپن کا مشہور واقعہ ہے کہ ان کے محلے کے ایک بزرگ میرن صاحب نے سرِ راہ آرزو کو روک کر کہا۔ “ منجو میاں ! سنا ہے تم ماشاء اللہ شاعر ہو گئے ہو۔ میں تو جب مانوں گا جب تم اس مصرعے پر گرہ لگا دو :

اُڑ گئی سونے کی چڑیا رہ گئے پر ہاتھ میں

آرزو نے برجستہ کہا :

دامن اس یوسف کا آیا پرزے ہو کر ہاتھ میں

رفتہ رفتہ آرزو کی شہرت بڑھتی گئی اور انکا شمار اساتذہ میں ہونے لگا۔
(فغانِ آرزو - ماہنامہ فانوس، کراچی)
 

ماوراء

محفلین
×۔ ایک انسان وہی کچھ ہے جو وہ تمام دن سوچتا ہے، اس لیے آپ وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ وہ ہیں جو سوچتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
- زندگی ایک قیمتی شے ہے، اس کے لیے سب چیزیں ضائع کر دو، مگر اس کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرو۔

- محنت کرنے والے گھر میں فاقہ کشی باہر سے جھانکتی ہے اندر سے نہیں۔

- سخت تنقید سے انسان مے حوصلے پست ہو سکتے ہیں، جبکہ معمولی تعریف سے بہتر نتائج نکلتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
راجندر سنگھ بیدی کی باتیں بہت دلچسپ اور بے ساختہ ہوتی تھیں۔ ایک بار دہلی کی ایک محفل میں بشیر بدر کو کلام سنانے کے لیے بلایا گیا، تو بیدی صاحب نے جو میرے برابر بیٹھے ہوئے تھے، اچانک میرے کان میں کہا، “یار، ہم نے دربدر، ملک بدر اور شہر بدر تو سنا تھا، یہ بشیر بدر کیا ہوتا ہے؟ “

(مجتبٰی حسین کی کتاب “ سو ہے وہ بھی آدمی“ سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
دنیا کی اکثر لڑائیاں زر، زن اور زمین کے لیئے لڑی گئی ہیں، حالانکہ سب سے بڑی چیز زبان ہے جس کی وجہ سے ہی یہ سب لڑائیاں وقوع پذیر ہوئیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
پنجابی میں پہلے ایک مثال ہوا کرتی تھی، تھی کیا مطلب، اب بھی ہے کہ کھر تے کھر والی تے جنا وی لاندے جاؤ کھٹ ہی اے۔ (گھر اور گھر والی پہ جتنا بھی لگاتے جاؤ، کم ہے)

اب اس میں کمپیوٹر بھی شامل کر لیں۔

کھر، کھر والی تے کمپیوٹر تے جنا وی لاندے جاؤ کھٹ ہی اے۔
 

شمشاد

لائبریرین
زن دو حرفی لفظ ہے، مرد تین حرفی، شادی چار حرفی اور اولاد پانچ حرفی - قدرت تمہیں ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
پیار پیاز کی مانند ہے، چھلکے اُتارتے جاؤ اور روتے جاؤ اور آخر میں کچھ بھی نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
بڑے آدمی کی تمام خوبیاں اور فضائل اس کی زندگی میں بھی کام آتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی اس کی عظمت کو اجاگر کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جب بڑا آدمی مرتا ہے تو اگلے دن خبر آتی ہے کہ اس جنازے میں شہر کے تمام بڑے آدمی شریک ہوئے۔

تاہم بڑے آدمی کاروں میں قبرستان پہنچ جاتے ہیں۔ کندھا دینے والے چار آدمی چھوٹے آدمی ہوتے ہیں کیونکہ ان کے کندھے چوڑے اور مضبوط ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ چھوٹے آدمیوں کو کندھا دیتے ہیں۔ افسوس کے بڑے آدمی بھی بالاخر اس جہاں فانی سے کوچ کر جاتے ہیں اور انہیں بیس کنالوں کی کوٹھیوں سے نقل مکانی کر کے بقیہ عمر چھوٹے آدمیوں کے ساتھ دو دو گز والے پلاٹ کی قبروں میں بسر کرنا پڑتی ہے۔ بڑے آدمیوں کو چاہیئے کہ وہ اس بات پر غور کریں اور یہ بات اپنے سے بڑے آدمیوں کے نوٹس میں لائیں۔
(عطاء الحق قاسمی کی تحریر سے)
 
Top