میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں

سیف خان

محفلین
سستی شہرت کے طلبگار ہیں کچھ لوگ
حصول زر کو بر سرِ پیکار ہیں کچھ لوگ

اہل زباں کو جیب میں لیے پھرتے ہیں
ایسے بھی صاحبِ اقتدار ہیں کچھ لوگ

خیانت کر گزریں متاعِ عارضی کے واسطے
وطن میں ایسے بھی جفاکار ہیں کچھ لوگ

مصیبت میں اپنوں سے منھ موڑ چلے ہیں
پوشیدہ ایسے بھی بد کردار ہیں کچھ لوگ

پارساؤں کا آفت میں جو ہجوم امڈ آیا ہے
ان نیکوں میں شامل ریا کار ہیں کچھ لوگ

جو چھوڑ گئے جعفر و صادق عرصہ پہلے
ان روایتوں کے پاس دار ہیں کچھ لوگ

دوست ہیں ہزاروں، دشمن سے پاک رہتے ہیں
شہر میں ایسے بھی ہوشیار ہیں کچھ لوگ

صاحب عہد غلامی میں دشمنوں سے جا ملے
ہمارے گاؤں میں ایسے سردار ہیں کچھ لوگ
 
سستی شہرت کے طلبگار ہیں کچھ لوگ
حصول زر کو بر سرِ پیکار ہیں کچھ لوگ

اہل زباں کو جیب میں لیے پھرتے ہیں
ایسے بھی صاحبِ اقتدار ہیں کچھ لوگ

خیانت کر گزریں متاعِ عارضی کے واسطے
وطن میں ایسے بھی جفاکار ہیں کچھ لوگ

مصیبت میں اپنوں سے منھ موڑ چلے ہیں
پوشیدہ ایسے بھی بد کردار ہیں کچھ لوگ

پارساؤں کا آفت میں جو ہجوم امڈ آیا ہے
ان نیکوں میں شامل ریا کار ہیں کچھ لوگ

جو چھوڑ گئے جعفر و صادق عرصہ پہلے
ان روایتوں کے پاس دار ہیں کچھ لوگ

دوست ہیں ہزاروں، دشمن سے پاک رہتے ہیں
شہر میں ایسے بھی ہوشیار ہیں کچھ لوگ

صاحب عہد غلامی میں دشمنوں سے جا ملے
ہمارے گاؤں میں ایسے سردار ہیں کچھ لوگ
ماشاءاللہ بہت اچھے خیالات ہیں لیکن بحر میں نہیں۔
 

سیف خان

محفلین
رخ گلزار کی ایک تصویر چھپا رکھی ہے
تنہائی میں وہی میز پر سجا رکھی ہے

رخ جاناں ،رخ محبوب لکھ سکتا تھا
دنیا داری کے لئے دوری بنا رکھی ہے

نہیں ہو پائی کبھی بھی بات اُن سے
خوش گفتار ہے وہ یہی امید لگا رکھی ہے

میں تو کرتا ہوں تکلم کی کوشش لیکن
اس نے ہی محبت غیر ضروری بنا رکھی ہے

نہیں ہوتا شمار اس کا حسیناؤں میں
میرے دل پے قیامت مگر ڈھا رکھی ہے

تُمہیں کیا معلوم کردار کی قیمت
تم نے تو حسن پے نظر ٹکا رکھی ہے

بناتی ہے اسے اور بھی خوبصورت
عینک جو اُس نے اک لگا رکھی ہے

میرے لیے ہے وہ خوشی کا باعث
چہرے پہ ہنسی اس نے جو لا رکھی ہے

پل بھر میں وہ آئے گی یونی ورسٹی
نظر میں نے بھی رستے پے جمارکھی ہے

اب تو آنکھ بھی سرخ ہونے کو آئی ہے
نیند میری جو اس نے اڑا رکھی ہے

وہ تو واقف بھی نہیں حال دل سے صاحب
یہ تو میں نے ہی خیالی دنیا بسا رکھی ہے
 

سیف خان

محفلین
وہ شخص میری طرف کیوں کوئی دھیان نہیں دیتا
وہ مجھے چاہتا ہے کیوں ایسا کوئی بیان نہیں دیتا

میرا جسم، میری روح اس کے بنا ویران پڑے ہیں
جو اپنا ہوتا ہے وہ ایسا تو کبھی نقصان نہیں دیتا

میں اس سے کبھی کوئی بات کر لوں اکیلے میں
وہ ایسا موقع کیوں کبھی میری جان نہیں دیتا

میں تو چاہتا ہوں لوگ اس کے نام سے جانیں
پر وہ مجھے کیوں ایسی کوئی پہچان نہیں دیتا

کسی حسین وادی کے سفر پر اس کے ساتھ چلوں
مجھے کیوں ایسی کوئی شام وہ مہربان نہیں دیتا

بہت جلد ختم ہوں گے ہمارے بیچ کے ظاہری فاصلے
د کھائی مجھے ایسا کیوں کوئی امکان نہیں دیتا

صاحب وہ دیکھ چکا ہے اگرچہ تیرا ہر ایک زخم
لیکن دشمنوں کو خبر تو کوئی نگہبان نہیں دیتا
 

سیف خان

محفلین
میں اِک عجب غزل لکھنا چاہتا ہوں
چہرہ یار کو مشعل لکھنا چاہتا ہوں

اس سے ملاقات کی ہر ساعت کو
رب کا میں فضل لکھنا چاہتا ہوں

اسکی قربت میں جو وقت گزارا ہے
میں وہ ہر ایک پل لکھنا چاہتا ہوں

اس کے چہرے کی مسکراہٹ کو
ہر پریشانی کا حل لکھنا چاہتا ہوں

میں اس آدھی رات کے اندھیرے کو
زلف محبوب کی مثل لکھنا چاہتا ہوں

اس ایک شخص کے بنامیں ایسا ہوں
کہ خود کو اِک تھل لکھنا چاہتا ہوں

صاحب کی تمام نا مکمل غزلوں میں
اسکی یادوں کا خلل لکھنا چاہتا ہوں
 

سیف خان

محفلین
اپنی ذات کو مکمل فراموش کر کے
تباہ ہوا اپنے قلب کو خاموش کر کے

میں نے لذتِ عشق بھی گنوا دی تھی
اس پُرخطر راہ میں ذرا ہوش کر کے

اب ہوا معلوم کے بہت نقصان کیا ٹھا
عشق سے خود کو سبکدوش کر کے

منزل تک پہنچ بھی سکتی تھی روح
محنت میں شامل اپنا وہ جوش کر کے

اُس نگری میں ذرا اور جی سکتا تھا
میں کبھی آب حیات کو نوش کر کے

صاحب اس مقام کو پہنچ سکتا تھا
تم اپنی ذات کو سر فروش کر کے
 

سیف خان

محفلین
کبھی خود سے نکل اور جہاں دیکھ
جوانوں کی کاہلی کے نقصاں دیکھ

اپنے آباء کے ورثے کو سامنے رکھ
تسخیر کے واسطے یہ آسماں دیکھ

ستاروں سے آگے بھی منتظر ہے
تُو دل کی نگاہ سے وہ گلستاں دیکھ

خود کو کسی تجسس میں نہ رکھ
تُو آپ جا، ہر ایک کہکشاں دیکھ

جب سامنے ہے تیرے مقصدِ حیات
نہ چمن پہ آئی ہوئی یہ خزاں دیکھ

تُو اس مہم میں شامل اپنا خون رکھ
کیسے ہوتا ہے تیرا رب ،مہرباں دیکھ


تُو نہ صاحب کے اشعار پر یقین رکھ
خود جا، اپنے خالق کا فرماں دیکھ
 

سیف خان

محفلین
تمام رات چاند کو تکتا رہتا ہوں
خیالی دنیا میں بھٹکتا رہتا ہوں

جب زخم کوئی نیا نہیں ملتا
پرانی بات پہ سسکتا رہتا ہوں

تجھے مہتاب فرض کرتا ہوں
پھر ہر بات ہی بکتا رہتا ہوں

جو ستارہ بہت بے نور ہوتا ہے
خود کا عکس سمجھتا رہتا ہوں

تیرے پاس وہ ہجوم دیکھ کر
روز کرب سے گزرتا رہتا ہوں

اپنا وجود اندھیرے میں پا کر
میں مثل شجر جھڑتا رہتا ہوں

صاحب صبح کا تصور لا کر
تُجھے کھونے سے ڈرتا رہتا ہوں
 

سیف خان

محفلین
تم اپریل میں بیوقوف بنا تے ہو
کتنے دلوں میں نفرت جگا تے ہو

چند لمحے کی خوشی کے واسطے
کیوں ابن آدم، اپنا معیار گرتے ہو

اپنے خدا کا حکم فراموش کر کے
کبھی سوچو، کیا کچھ گنواتے ہو

ہیں دل لگی کے کئی اور طریقے
کیوں اِبلیس کو پاس بلا تے ہو

جو بغیر سوچے، تیرا یقین کرتا ہے
میری جان اس پہ قہقہے لگاتے ہو

جو اپنے آباء کی روایات لکھتا ہے
صاحب اسے غیبت پہ اکسا تے ہو
 

سیف خان

محفلین
دل کا آئینہ ذرا صاف کر کے
زیست جی لو انصاف کر کے

خود کو جنت کا حقدار کر لو
ہر برائی سے انحراف کر کے

تم اپنے رب کی رضا پہ چل لو
خطا دشمنوں کی معاف کر کے

تم حق پرستوں کو ساتھ کر لو
سب منافقوں سے اختلاف کر کے

اپنے گناہوں کی بخشش کرا لو
تم خدا کے گھر کا طواف کر کے

صاحب اس نیک راہ پہ چل لو
سچی باتوں کا انکشاف کر کے
 

سیف خان

محفلین
تم چاند پہ جانا چاہتی ہو
پھر مجھے ستانا چاہتی ہو

اتنا وقت لگا قریب آنے میں
میرا صبر آزمانا چاہتی ہو

اس بات کا مجھے اظہار کیا
شاید ساتھ بلانا چاہتی ہو

اِک طویل سفر کا آغازکر کے
مشکلات بڑ ھانا چاہتی ہو

تم اب تنہائی کی بات کر کے
مجھے یوں ڈرانا چاہتی ہو

یوں لگتا ہے صاحب کے لئے
کوئی آفت لانا چاہتی ہو
 

سیف خان

محفلین
تم میرے گاؤں آنے کا سوچو
چند لمحے مسکرانے کا سوچو

میری سالگرہ پہ جو کیا تھا
وہ وعدہ نبھانے کا سوچو

مجھے بیچ راہ میں لا کر
اب نہ واپس جانے کا سوچو

ہنسی میرے چہرے پہ لا کر
پھر نہ دل دکھانے کا سوچو

تم ایک بہتی ندی کے کنارے
میرے ساتھ گنگنانے کا سوچو

غیروں کے دل پہ جو وار کر دے
کوئی ایسا تحفہ لانے کا سوچو

یہاں قیام تھوڑا طویل کر کے
صاحب سے دل لگانے کا سوچو
 

سیف خان

محفلین
اِک غزل دوستی کے نام کرتا ہوں
سب دوستوں سے کلام کرتا ہوں

جو بے سبب دور چلے گئے
یاد انھیں ہر شام کرتا ہوں

جوازل سے میرے خلاف ہیں
اُن کا بھی احترام کرتا ہوں

وہ میری آدھی محبت ہیں
یہ اعلان سر عام کرتا ہوں

انھیں جو لائے قریب میرے
اب ایسا کوئی کام کرتا ہوں

اِک مدت ہوئی ہماری محفلوں کو
اب کسی بیٹھک کا اہتمام کرتا ہوں

صاحب جو دوری کی وجہ بنتی ہے
اس مصروفیت کا اختتام کرتا ہوں
 

سیف خان

محفلین
زندگی اک سوغات دیتی ہے
ہر دن نئے تجربات دیتی ہے

محنت جو کرتے ہیں بے شمار
انھیں بالا مقامات دیتی ہے

جوانوں کو سفر کے آغاز میں
واپسی کے خیالات دیتی ہے

اپناتے ہیں جو مستقل مزاجی
انھیں بلند درجات دیتی ہے

نیک و بد کا درس دے کر
پھر سارے اختیارات دیتی ہے

جب جوانی عروج پہ ہو صاحب
تو بھٹکنے کے امکانات دیتی ہے
 

سیف خان

محفلین
تیرا دور ہونا مجھے بدحواس کر گیا
جو دور تھے غم، اُنھیں پاس کر گیا

میرا گمان تھا تیرے بعد سب اچھا ہوگا
اس قدر یقین ، آس سے بے آس کر گیا

گھر کے آنگن میں جو جال بن رہا تھا
وہ شخص مجھے دشمن شناس کر گیا

وعدہ تھا جس کا کبھی غربت کا خاتمہ
وہ شخص غریبوں کا ستیاناس کر گیا

جس نے زندگی گزاری تھی فقیری میں
وہ بچوں کے لئے جمع کئی الماس کر گیا

فانی دنیا میں جو حق کا طلب گار رہا
وہ پیدا اپنے جیسے کئی انا س کر گیا

تیری محفل میں جس کا آخری نام رہا
صاحب وہ غزل گو نسلیں اُداس کر گیا
 

سیف خان

محفلین
تیرے سارے وعدے سراب ٹھہرے
انتظار کے یہ لمحے عذاب ٹھہرے

ذمے تھے جن کے کام سارے
محافظ ہمارے نواب ٹھہرے

جو معمور تھے تلاشِ حق پر
وہ بندے سار ے کذاب ٹھہرے

جو بیتے کل پہ سوال کر لے
وہ شخص زیرِ عتاب ٹھہرے

عوام کے حق کی بات کر لیں
حکمران ایسے نایاب ٹھہرے

ایک عہدے کے امیدوار سارے
راستوں پہ لے کر گلاب ٹھہرے

صاحب جو لکھتے رہے اب تک
وہ اشعار سارے رباب ٹھہرے
 

سیف خان

محفلین
میں اس جفا کا حقدار تو نہ تھا
میرا اس قدر برا کردار تو نہ تھا

تم نے بہت آسانی سے ٹھکرا دیا
میرا اتنا گرا ہوا معیار تو نہ تھا

تم نے سلطنت میں داخلہ نہ دیا
صنم، میں کوئی غدار تو نہ تھا

سر محفل جسے شرف بخشا تھا
وہ روایتوں کا پاسدار تو نہ تھا

زرد چہرہ اس بات پہ گواہ تھا
تیرے دل کو بھی قرار تو نہ تھا

وہ جانتا تھا کہ بھری محفل میں
میرے سوا کوئی جانثار تو نہ تھا

صاحب اسے مجبوری ضرور ہوگی
اس پیار سے وہ بیزار تو نہ تھا
 

سیف خان

محفلین
وہ شخص وکالت کو غلط نام دیتا ہے
اوروں کی جفاؤں کا ہمیں الزام دیتا ہے

باقی پیشے ہیں درجہ بندی میں گھرے
وکیل ہی وکیل کو برابر مقام دیتا ہے

پریشانیاں اُن کے کندھوں پہ ڈال کر
تُو اس کے بدلے کچھ دام دیتا ہے

کیا برا اگر چند پیسوں کے عوض
کئی ترپٹی روحوں کو آرام دیتا ہے

وہ صبح و شام کی محنت سے
لوگوں کے کام سر انجام دیتا ہے

اپنی زندگی کے تلخ تجربوں سے
معاشرے کو روشن ایام دیتا ہے

صاحب اس کی عظمت کو سلام
ظالم کے ارادوں کو جو لگام دیتا ہے
 

سیف خان

محفلین
اس رسوائی کا دل پہ اثر نہیں ہوتا
میں نے تھا لاکھ چاہا، مگر نہیں ہوتا

چاہتا ہوں کروں بیاں کیفیت تم سے
اب میرے دل سے صبر نہیں ہوتا

زندگی بڑ ے سکون سے گزارتے ہیں
کیوں کٹھن اُن کا سفر نہیں ہوتا

آتی ہے در پیش انھیں بھی مشکل
جو دکھتا ہے پتھر، پتھر نہیں ہوتا

ازل سے میری ملکیت میں رہا
وہ راستہ، سکوں جدھر نہیں ہوتا

وہ ظلم کی انتہا سے گزر جاتا ہے
پر کہیں بھی برپا حشر نہیں ہوتا

بولنا جرم ہے بہروں کی بستی میں
کسی دکھ کا مداوا ادھر نہیں ہوتا

صاحب چھوڑ دیتے ہیں دنیا کو
مہمان خانہ کسی کا نگر نہیں ہوتا
 
Top