میری ایک غزل تری نسبتوں کا نشاں چاہیے

سید عاطف علی

لائبریرین
حالیہ مشاعرے کے لیے کہی گئی میری غزل

تری نسبتوں کا نشاں چاہیے
جبیں کو یہی آستاں چاہیے

مجھے ایک ایسا جہاں چاہیے
اثر جس میں ہو وہ فغاں چاہیے

مَحّبت کی ارزاں دکاں چاہیے
مگر جنس اس میں گراں چاہیے

نہ سمجھا کوئی آنسوؤں کو مرے
مجھے مجھ سااک ترجماں چاہیے

میں لوح و قلم کا تو منکر نہیں
مگر آج تیر و کماں چاہیے

مرے ہی محافظ کریں مجھ کو قید
تو مجھ کو بھی تیغ و سناں چاہیے

قبا سرخ ہو تو عَلَم کیوں سفید؟
اب اس پر بھی خوں کا نشاں چاہیے

خرد نے مسخّر کیا یہ جہاں
مگر دل کو سوزِ نہاں چاہیے

جبیں وقفِ جبرِ رسومِ سجود
اِسے روبرو لامکاں چاہیے

سنبھلتا نہیں رازِ ہستی کا بار
مجھے اک امیں رازداں چاہیے

جوئے شیر و تیشہ ؤ کوہِ گراں!
مجھے سخت تر، امتحاں چاہیے

مری انجمن میں اگر تو نہ ہو!
ترے نام کا میہماں چاہیے

مری شہر بدری پہ راضی نہیں
اسے تو بس اک میری جاں چاہیے

ہر اک پر ہویدا نہیں ہےیہ راز
دل ِ زارِ آشفتگاں چاہیے

سمجھتا ہوں تیرا اشارہ مگر
بتا تجھ کو کیا میری جاں چاہیے​
 
آخری تدوین:
Top