انیس الرحمن
محفلین
مکتیسر کی آدم خور شیرنی
جم کاربٹ
نینی تال سے اٹھارہ میل شمال مشرق کی طرف آٹھ ہزار فٹ اونچی اور پندرہ میل لمبی ایک پہاڑی ہے جو مغرب سے مشرق کو پھیلی ہوئی ہے۔ اس پہاڑی کا مغربی کنارا ایک دم اوپر کو اٹھا ہوا ہے اور اس کنارے کے نزدیک مکتیسر جانوروں کی بیماریوں کا تحقیقیاتی ادارہ ہے۔ جہاں ہندوستان میں حیوانات کی بیماریوں کی روک تھام کے لیئے مختلف ادویات کی تحقیق کی جاتی ہے۔ اس ادارہ کی تجربہ گاہ اور اسٹاف کے کوارٹر پہاڑی کے شمالی حصّے پہ واقع ہیں۔ پہاڑی کے اس شمالی حصّہ کا شمار ہمالیہ کے بہترین نظاروں میں ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے مکتیسر دیکھا ہے یا وہاں رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ علاقہ کماؤں کا خوبصورت ترین علاقہ ہے اور یہاں کی آب و ہوا کا جواب نہیں۔
ممکن ہے مکتیسر کی خوبصورتی کا احساس ایک شیرنی کو بھی ہوگیا ہو کیونکہ اس نے وہاں کے قریبی گھنے جنگلات کو اپنا مسکن بنا لیا۔ وہاں اس کے دن بڑے مزے سے گزرتے تھے کیونکہ وہاں ہرن وغیرہ عام تھے، لیکن بدقسمتی سے ایک دن اس کا مقابلہ خارپشت سے ہوگیا۔ اس مقابلہ میں اس کی ایک آنکھ جاتی رہی اور اس کے جسم پہ کوئی پچاس زخم آئے جو ایک انچ سے نو انچ لمبے تھے۔ بعض زخموں میں خار پشت کے کانٹے ٹوٹ گئے تھے اور جب شیرنی نے انہیں اپنے دانتوں سے نکالنا چاہا تو وہ زیادہ گہرے زخم بن گئے۔ ایک دن جبکہ وہ بھوکی پیاسی ایک جگہ لمبی لمبی گھاس میں لیٹی اپنے زخم چاٹ رہی تھی ایک عورت اپنے مویشیوں کے لیئے گھاس کاٹنے ادھر آ نکلی۔ پہلے تو شیرنی نے اس کی پرواہ نہ کی لیکن جب وہ عورت گھاس کاٹتی کاٹتی بالکل اس کے قریب آگئی اور اس کی درانتی شیرنی کے جسم سے ٹکرائی تو شیرنی نے غصّے میں آکر اسے ایک تھپڑ رسید کیا۔ عورت وہیں ڈھیر ہوگئی۔ اس عورت کو وہیں چھوڑ کر شیرنی لنگڑاتی ہوئی ایک میل دور چلی گئی اور ایک اکھڑے ہوئے درخت کے خالی تنے میں پناہ گزیں ہوگئی۔ دو دن بعد ایک آدمی اس درخت سے ایندھن کاٹنے کے غرض سے وہاں آیا۔ شیرنی نے اسے بھی ہلاک کردیا۔ اس آدمی کا جسم درخت کے دونوں جانب لٹکنے لگا۔ ممکن ہے اس کے جسم سے خون کو بہتا دیکھ کر شیرنی کو پہلی مرتبہ خیال آیا ہو کہ یہ بھی کوئی کھانے والی چیز ہے اور وہ اس سے اپنی بھوک مٹا سکتی ہے۔ بحرحال بات کچھ بھی ہو، اپنے شکار کو چھوڑنے سے پہلے شیرنی نے اس کی پشت کا تھوڑا سا حصہ کھایا۔ تیسرے دن اس نے جان بوجھ کے ایک تیسرے شخص کو ہلاک کیا۔ اس کے بعد وہ ایک مسلّمہ آدم خور بن گئی۔
شیرنی نے ابھی انسانوں کو ہلاک کرنا شروع کیا ہی تھا کہ اس کی اطلاع مجھ تک پہنچ گئی۔ چونکہ مکتیسر میں شکاری پہلے ہی سے موجود تھے اور جن میں سے ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ وہ شیرنی کو شکار کرے لہذا میں نے ان کے معاملے میں دخل انداز ہونے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ لیکن جب شیرنی نے تقریباً چوبیس افراد ہلاک کر ڈالے اور وہاں کے باشندوں اور تحقیق گاہ میں کام کرنے والے ملازمین کی جانوں کو ہر وقت خطرہ رہنے لگا تو تحقیق گاہ کے انچارج افسر نے حکومت سے میری خدمات حاصل کرنے کی درخواست کی۔
حالات سے پتا چلتا تھا کہ میرا کام آسان نہ ہوگا کیونکہ اس وقت تک ایک تو میرا آدم خوروں کو ہلاک کرنے کا تجربہ خاصا محدود تھا۔ دوسرا شیرنی ایک وسیع رقبہ پر گشت کرتی تھی اور کوئی علم نہ تھا کہ اس سے کہاں سامنا ہوجائے۔
میں نینی تال سے دوپہر کے وقت تین ملازموں کے ہمراہ روانہ ہوا اور دس میل کا سفر طے کرکے رات رام گڑھ کے ڈاک بنگلے میں بسر کی۔ ڈاک بنگلے کا خانساماں میرا پرانا دوست تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ میں آدم خور شیرنی کو ہلاک کرنے جارہا ہوں تو اس نے مجھے تنبیہ کی کہ میں وہاں سے مکتیسر کے آخری دو میل بڑی احتیاط سے طے کروں کیونکہ گزشتہ چند دنوں میں شیرنی نے اس راستے پر تین چار مسافروں کو ہلاک کیا تھا۔
اپنے ملازموں کو یہ ہدایت کرکے کہ وہ سامان باندھ کر میرے پیچھے چلے آئیں، خود میں صبح سویرے بندوق لے کر نینی تال اور الموڑا سڑک کے سنگم پر پہنچ گیا۔ جہاں سے مکتیسر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں سے محتاط ہوکر سفر کرنا ضروری تھا کیونکہ اب میں آدم خور کی حدود میں داخل ہورہا تھا۔ یہاں سے سڑک تھوڑی دور تک سیدھی جاتی تھی اور پھر پیچاک میں الجھ جاتی تھی۔ سڑک کے سیدھے حصے پر دونوں جانب بڑے خوبصورت پہاڑی پھول کھلے تھے۔ اس پہاڑی پر چڑھنے کا میرا یہ پہلا موقع تھا۔ راستے میں قدم قدم پر غار تھے جن میں پہاڑی ہوائیں سستا رہی تھیں۔ سڑک پر جھکی ہوئی چٹانیں تھیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ بعض غار بےحد گہرے ہیں اور وہ زمین کی سطح کو چھو رہے ہیں۔
مکتیسر شروع ہونے سے پہلے پہاڑی پر ایک چھوٹا سا میدان ہے۔ جہاں مکتیسر کا ڈاک خانہ ہے اور وہیں سے بازار بھی شروع ہوجاتا ہے۔ ابھی تک ڈاک خانہ نہیں کھلا تھا۔ فقط ایک دوکان کھلی تھی جس کے مالک نے مجھے ڈاک بنگلے کا راستہ بتایا جو وہاں سے پہاڑی کے شمالی حصے پر تقریباً نصف میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ مکتیسر میں دو ڈاک بنگلے ہیں۔ ایک سرکاری ملازمین کے لیئے اور دوسرا عوام کے لیئے۔ مجھے یہ معلوم نہ تھا مگر میرے دوکاندار دوست نے مجھے سرکاری ملازم سمجھ کر سرکاری ڈاک بنگلے کا راستہ بتادیا جس کے باعث وہاں کے خانساماں کو میرے لیئے ناشتہ تیار کرنے کے لیئے مفت کی تکلیف اٹھانی پڑی۔
میں ناشتہ کرنے میں مصروف تھا اور اپنے سامنے پھیلے ہوئے برف کے دلفریب نظاروں سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ میرے سامنے بارہ انگریزوں کی ایک پارٹی گزری جنہوں نے رائفلیں اٹھا رکھی تھیں۔ ان کے پیچھے ایک سارجنٹ اور دو آدمی جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔ میرے پوچھنے پر سارجنٹ نے مجھے بتایا کہ یہ پارٹی آدم خور کے ڈر سے اکٹّھی ہوکر سفر کر رہی ہے۔ سارجنٹ ہی سے مجھے پتا چلا کہ حکومت نے ادویات کی تحقیق گاہ کے انچارج افسر کو بذریعہ تار اطلاع دے دی ہے کہ میں اس کی درخواست پر وہاں پہنچ رہا ہوں۔ سارجنٹ نے امید کا اظہار بھی کیا کہ میں آدم خور کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا کیونکہ اس بستی میں حالات بڑے ابتر ہوچکے تھے۔ دن کے وقت بھی کوئی تنہا چلنے پھرنے کی جرات نہیں کرتا اور شام پڑتے ہی لوگ گھروں کے دروازے مقفل کر لیتے ہیں۔ آدم خور کو ہلاک کرنے کی بہت سی کوششیں کی گئی تھیں لیکن سب بے سود ثابت ہوئیں کیونکہ شیرنی اپنے شکار کو دوبارہ کھانے کبھی نہ آتی تھی۔
ناشتے کے بعد میں نے خانساماں کو ہدایت کی کہ جب میرے آدمی وہاں پہنچ جائیں تو وہ انہیں بتادے کہ میں آدم خور کا اتا پتا لگانے نکل گیا ہوں اور نہ جانے کب واپس آؤں گا۔ پھر میں نے رائفل اٹھائی اور ڈاک خانہ کی طرف چل پڑا تاکہ اپنے گھر یہاں بخیریت پہنچنے کی اطلاع پہنچا سکوں۔
جب میں تار دینے ڈاک خانے میں آیا تو تار کے فارم پر میرے دستخط دیکھ کر پوسٹ ماسٹر میرے قریب آیا اور مجھے بڑے تپاک سے ملا۔ اور لوگ بھی وہاں جمع ہوگئے اور سب کے سب آدم خور کے متعلق باتیں کرنے لگے۔ وہ میری ہر طرح سے مدد کو تیار تھے۔ ان کے اس جذبے سے مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ ان کی باتوں سے مجھے آدم خور کے بارے میں بہت سی مفید اطلاعات حاصل ہوئیں۔ دیہی ہندوستان میں ڈاک خانہ اور بنیئے کی دوکان کی وہی حیثیت ہے جو دوسرے ملکوں میں سرائے اور کلبوں کی ہوتی ہے۔ ہندوستان میں اگر کسی خاص موضوع پر اطلاعات جمع کرنی ہوں تو اس کے لیئے ڈاک خانہ اور بنیئے کی دوکان مرکز ثابت ہوتے ہیں۔
ڈاک خانے سے کوئی دو میل بائیں جانب ایک ہزار فٹ نیچے ایک باغ ہے جسے بدری شاہ کا باغ کہا جاتا ہے۔ بدری میرے ایک پرانے دوست کا بیٹا تھا جو چند ماہ پہلے میرے پاس نینی تال آیا تھا اور اس نے وعدہ کیا تھا کہ آدم خور کو ہلاک کرنے میں وہ ہر طرح سے میری مدد کرے گا۔ یہ پیشکش اس وقت میں نے قبول نہ کی تھی۔ لیکن اب جب حکومت کی درخواست پر میں مکتیسر پہنچ گیا تھا میں نے فیصلہ کیا کہ بدری کے پاس جاؤں اور وہ جس قسم کی مدد مجھے دے اسے قبول کرلوں۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں جبکہ شیرنی نے اپنا آخری انسانی شکار اس کے باغ کے تھوڑے فاصلے پہ کیا تھا۔
اپنے اردگرد کھڑے لوگوں کا شکریہ ادا کرکے اور ان سے یہ کہہ کر کہ میں ان کی مدد پر بھروسہ کروں گا۔ میں دھاری سڑک کی طرف چل پڑا۔ اب دن اچھی طرح نکل چکا تھا اور بدری کے گھر جانے سے قبل میں نے سوچا کہ گردونواح کی پہاڑیوں کا ایک چکر لگا لوں۔ سڑک پر کوئی سنگ میل نہ تھا۔ تقریباً چھ میل کا فاصلہ طے کرکے اور دو قریبی دیہاتوں کی سیر کرکے میں واپس چل پڑا۔ابھی میں نے نصف سفر طے کیا تھا کہ مجھے ایک چھوٹی سی لڑکی ملی جسے ایک بیل تنگ کررہا تھا۔لڑکی کی عمر کوئی آٹھ برس کی تھی۔ وہ بیل کا رسّہ آگے کی طرف کھینچ رہی تھی مگر بیل پیچھے کی طرف جارہا تھا۔ دونوں اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے۔ لڑکی کی مدد کے طور پر میں بیل کو پیچھے سے ہانکنے لگا۔
"تم کلوے کو چرا کر تو نہیں لے جارہی ہو؟" لڑکی بیل کو اسی نام سے بُلا رہی تھی۔
"نہیں تو۔" لڑکی نے قدرے ہتک محسوس کرکے اپنی بھوری آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
"یہ کس کا ہے؟"
"میرے باپ کا ہے۔"
تم اسے کہاں لے جا رہی ہو؟"
"اپنے چچا کے پاس۔"
"تمہارے چچا کو اس کی کیا ضرورت ہے؟"
"میرے چچا کا ایک بیل شیر نے ہلاک کردیا ہے۔ اب اس کے پاس فقط ایک ہی بیل ہے۔ کھیتی باڑی کے لیئے اسے دوسرے بیل کی ضرورت ہے۔" لڑکی خاموش ہوگئی۔ مگر دوسرے ہی لمحے خود ہی بول پڑی، "تم شیر کو ہلاک کرنے آئے ہو؟"
"ہاں! شیر کا شکار کرنے آیا ہوں۔"
"تو پھر تم میرے چچا کے مرے ہوئے بیل سے دور کیوں جارہے ہو۔"
"کلوا کو تمہارے چچا کے پاس جو پہنچانا ہوا۔"
لڑکی میرے جواب سے مطمئن سی ہوگئی۔ لڑکی نے مجھے ایک مفید اطلاع مبہم پہنچائی تھی۔ مگر میں اس سے مزید اطلاعات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لہذا میں نے اس سے پوچھا۔
"کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ شیر آدم خور ہے؟"
"ہاں اس نے ہمارے گاؤں کے دو تین آدمیوں کو ہلاک کیا ہے۔"
اتنے میں ہم ایک ایسے چھوٹے سے مکان کے سامنے پہنچ گئے جو ایک کھیت میں واقع تھا۔ لڑکی نے اپنے چچا کو آواز دی اور اس سے کہا کہ وہ کلوے کو لے آئی ہے۔ چچا نے اندر سے آواز دی کہ وہ کھانا کھا رہا ہے۔ لڑکی نے بیل کو باہر کھونٹ پر باندھ دیا اور واپس اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔ میں بھی اس کے ساتھ ہولیا۔
"کیا تم مجھے بتا سکتی ہو کہ تمہارے چچا کے بیل کو شیر نے کہاں ہلاک کیا تھا؟"
"کیوں نہیں۔" لڑکی نے بڑے شوق سے کہا۔
"کیا تم نے مرا ہوا بیل دیکھا ہے؟"
نہیں! وہ میرے چچا نے میرے باپ کو بتایا تھا کہ وہ کہاں ہے۔"
جہاں سے ہم گزر رہے تھے وہاں سے سڑک بڑی تنگ تھی اور ارد گرد گھنی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ لڑکی سے باتیں کرتے وقت میں گردوپیش کا بغور جائزہ بھی لیتا جارہا تھا۔ ہم نے کوئی میل بھر سفر طے کیا ہوگا کہ ہمیں سڑک سے ایک کچا راستہ جنگل میں جاتا ہوا دکھائی دیا۔ لڑکی وہاں ٹھہر گئی اور اس راستے کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگی۔
"چچا کا بیل اسی راستے میں کہیں مرا پڑا ہے۔"
اب مجھے ہر ضروری اطلاع مل چکی تھی۔ لڑکی کو بحفاظت اس کے گھر پہنچا کر میں واپس اسی جگہ پر آیا اور اس کچے راستے پر چلنے لگا کوئی دو فرلانگ چلنے پر مجھے ایک جگہ مویشیوں کے گہرے کھُروں کے نشان دکھائی دیئے۔راستے سے ہٹ کر میں متوازی سمت میں جنگل کے اندر داخل ہوگیا۔ پچاس قدم چلنے پر مجھے ایک بڑی سی لکیر نظر آئی جیسے کسی چیز کو گھسیٹا گیا ہو۔ اس لکیر پر کوئی پچاس گز چلنے کے بعد مجھے بیل کی لاش مل گئی جو ایک پہاڑی نالے کے کنارے سے بیس قدم دور پڑی تھی۔ نالے اور لاش کے درمیان ایک سوکھا ہوا درخت تھا جس پر خاردار بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ فقط یہ ہی ایک ایسا موزوں درخت تھا جس پر بیٹھ کر میں آدم خور کو ہلاک کرنے کی امید کرسکتا تھا۔ رات اندھیری ہونے کے باعث میں بیل کی لاش کے جس قدر زیادہ قریب ہوتا اسے شکار کرنے کے اتنے ہی زیادہ امکان ہوسکتے تھے۔