مَیں آرزوئے جاں لکھوں، یا جانِ آرزوُ

شمشاد

لائبریرین
میں آرزوئے جاں لکھوں، یا جانِ آرزؤُ
تو ہی بتا دے ناز سے، ایمانِ آرزؤُ

آنسو نکل رہے ہیں تصور میں بن کے پھول
شاداب ہو رہا ہے گلستان آرزؤُ

ایمان و جاں نثار تری اک نگاہ پر
تُو جان آرزو ہے تو ایمان آرزؤُ

مصر فراق کب تلک اے یوسف اُمید
روتا ہے تیرے ہجر میں کنعان آرزؤُ

ہونے کو ہے طلوع، صباحِ شبِ وصال
بجھنے کو ہے چراغ شبستان آرزؤُ

اک وہ کہ آرزوؤں پہ جیتے ہیں عمر بھر
اک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمان آرزو

آنکھوں سے جوئے خوں ہے رواں دل ہے باغ باغ
دیکھے کوئی بہارِ گُلستان آرزؤُ

دل میں نشاط رفتہ کی دھندلی سے یاد ہے
یا شمع وصل ہے تہہ دامان آرزو

اختر کو زندگی کا بھروسہ نہیں رہا
جب سے لُٹا چکے سر و سامان آرزؤُ
(اختر شیرانی)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اسے تو "پسندیدہ کلام" میں ہونا چاہیے تھا۔
"اشعار اور گانوں کے کھیل" میں آنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔
جب سے میری دھمکی گم ہوئی ہے میں بہت کنفیوژ ہو جاتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہی غزل منور سلطانہ کی آواز میں، اگرچہ تین ہی اشعار ہیں لیکن بہت ہی دھیمے اور بہت ہی خوبصورت انداز میں گائے ہیں۔

 

غ۔ن۔غ

محفلین
ایمان و جاں نثار تری اک نگاہ پر
تُو جان آرزو ہے تو ایمان آرزؤُ

میری پسندیدہ غزل شیئر کرنے کے لیے بہت شکریہ جناب:)
 

سید زبیر

محفلین
بہت اعلیٰ
آنکھوں سے جوئے خوں ہے رواں دل ہے باغ باغ
دیکھے کوئی بہارِ گُلستان آرزؤُ
کیا خوبصورت کلام منتخب کیا ہے ۔ ۔
 
میں آرزوئے جاں لکھوں، یا جانِ آرزؤُ
تو ہی بتا دے ناز سے، ایمانِ آرزؤُ


آنسو نکل رہے ہیں تصور میں بن کے پھول
شاداب ہو رہا ہے گلستان آرزؤُ


ایمان و جاں نثار تری اک نگاہ پر
تُو جان آرزو ہے تو ایمان آرزؤُ


مصر فراق کب تلک اے یوسف اُمید
روتا ہے تیرے ہجر میں کنعان آرزؤُ


ہونے کو ہے طلوع، صباحِ شبِ وصال
بجھنے کو ہے چراغ شبستان آرزؤُ


اک وہ کہ آرزوؤں پہ جیتے ہیں عمر بھر
اک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمان آرزو


آنکھوں سے جوئے خوں ہے رواں دل ہے باغ باغ
دیکھے کوئی بہارِ گُلستان آرزؤُ


دل میں نشاط رفتہ کی دھندلی سے یاد ہے
یا شمع وصل ہے تہہ دامان آرزو


اختر کو زندگی کا بھروسہ نہیں رہا
جب سے لُٹا چکے سر و سامان آرزؤُ
(اختر شیرانی)
بہت خوب شمشاد صاحب۔
ایک استفسار ہے۔ میرے ایک دوست ہیں پروفیسر اختر شادؔ ۔۔ اردو کے استاد ہیں شعر بھی کہتے ہیں اور اچھے شعر کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس غزل کا مطلع کچھ یوں ہے۔
میں آرزوئے جاں لکھوں، یا جانِ آرزو
تو ہی بتا دے نازشِ ایمانِ آرزو

کچھ سامان اس خیال کی توثیق یا اصلاح کا اگر ہو سکے تو ممنون ہوں گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
یعقوب بھائی میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ ممکن ہے آپ کے دوست صحیح کہتے ہوں۔
یہ تو اب اساتذہ کرام ہی صحیح بتا سکتے ہیں۔
 
بہت خوب شمشاد صاحب۔
ایک استفسار ہے۔ میرے ایک دوست ہیں پروفیسر اختر شادؔ ۔۔ اردو کے استاد ہیں شعر بھی کہتے ہیں اور اچھے شعر کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس غزل کا مطلع کچھ یوں ہے۔
میں آرزوئے جاں لکھوں، یا جانِ آرزو
تو ہی بتا دے نازشِ ایمانِ آرزو
کچھ سامان اس خیال کی توثیق یا اصلاح کا اگر ہو سکے تو ممنون ہوں گا۔

احبابِ علم و دانش سے توجہ کی درخواست ہے۔
 
Top