مولانا ظفر علی خان کے ناقابل ِ فراموش اشعار

جس ہشت صفات (صحافی‘ مترجم‘ نثر نگار‘ مقرر‘ سیاستدان) شخصیت کے بارے میں حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی درج ذیل رائے ہے اس کی عظمت اور اس کے جامع صفات ہونے میں کون شبہ کر سکتا ہے۔ ”ظفر علی خاں کے قلم میں مصطفیٰ کمال کی تلوار کا بانکپن ہے۔ انہوں نے مسلمانانِ پنجاب کو نیند سے جھنجوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں۔ پنجاب کے مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور جوش ایمانی پیدا کرنے کا جو کام مولانا ظفر علی خاں نے انجام دیا وہ تو مثالی ہے ہی لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو برصغیر کی تمام قومی و ملکی تحریکیں ان کے عزم عمل کی مرہون منت نظر آئیں گی اور سیاسی و صحافتی شعر و ادب تو گویا انہی کی ذات سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے“
مولانا ظفر علی خاں کی صحافتی اور سیاسی شاعری، ان کی غیر معمولی دماغی صلاحیتوں، تحریک حریت میں ان کے جرات مندانہ کردار، ان کا اردو صحافت میں خود ایک دبستان اور درسگاہ کی حیثیت اختیار کر جانا، جنگ آزادی پاکستان میں ان کا بہادر مجاہد کی طرح انگریز حکمرانوں کو للکارنا اور آزادی تقریر و تحریر کے جرم میں طویل عرصہ تک قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرنا یہ سب وہ حقائق ہیں جس سے مولانا ظفر علی خاں کا بڑے سے بڑا سیاسی مخالف بھی انکار نہیں کر سکتا لیکن ہم نے بطور قوم مولانا ظفر علی خاں کو وہ مقام نہیں دیا اور وہ قدر نہیں کی جس کے وہ ہر لحاظ سے حقدار تھے۔ مولانا ظفر علی خاں کی ہشت پہلو شخصیت پر لکھنا تو کئی کتب کا موضوع اور مواد بن سکتا ہے لیکن میں اس مختصر کالم میں صرف ان کے منتخب اور قابل حوالہ اشعار پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے ان کی زبان دانی اور قادرالکلامی کا ہماری آج کی نئی نسل کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ مولانا ظفر علی خاں کی بے نظیر اور دل و دماغ پر نقش ہو جانے والی شاعری کو خواجہ حسن نظامی نے الہام کا نام دیا تھا اور مولانا سلیمان ندوی تو ظفر علی خاں کو اردو کے صرف تین کامل الفن شاعروں میں سے ایک تسلیم کرتے تھے۔ داغ دہلوی جیسے استاد اور باکمال شاعر کی یہ رائے تھی کہ پنجاب نے ظفر علی خاں اور اقبال کو پیدا کرکے اپنے ماضی کی تلافی کر دی ہے۔ سرسید، علامہ شبلی اور الطاف حسین حالی نے بھی اپنے اپنے انداز میں ظفر علی خاں کے کام اور صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ شورش کاشمیری نے صحافت اور شاعری میں اپنے استاد ظفر علی خاں کو اقلیم انشاء کے شہنشاہ اور میدانِ شعر کے شہسوار کا خطاب دیا تھا اور سب سے بڑھ کر خود مولانا ظفر علی خاں کے بے مثال اشعار ان کے کمال سخن کے گواہ ہیں۔ حمد کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
پہنچتا ہے ہر اک مے کش کے آگے دورِ جام اس کا
کسی کو تشنہ لب رکھتا نہیں ہے لطفِ عام اس کا
سراپا معصیت میں ہوں، سراپا مغفرت وہ ہے
خطا کوشی روش میری، خطا پوشی ہے کام اس کا
ظفر علی خاں کی نعتوں کے غیر فانی اشعار
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
اے خاور حجاز کے رخشندہ آفتاب
صبحِ ازل ہے تیری تجلی سے فیض یاب
وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں
ہوتا ہے جن میں نامِ رسولِ خدا بلند
ان محفلوں کا مجھ کو نمائندہ کر دیا
سردار دوجہاں کا بنا کر مجھے غلام
میرا بھی نام تابہ ابد زندہ کر دیا
زکوٰة اچھی، حج اچھا، روزہ اچھا اور نماز اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں ہو سکتا
ظفر علی خاں کے متفرق مگر ضرب المثل اشعار
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
سلیقہ مے کشی کا ہو تو کر لیتی ہے محفل میں
نگاہِ مستِ ساقی مفلسی کا اعتبار اب بھی
قلم سے کام تیغ کا اگر کبھی لیا نہ ہو
تو مجھ سے سیکھ لے فن اور اس میں بے مثال بن
کرانا ہے قلم ہاتھوں کو، رودادِ جنوں لکھ کر
تو اس دور ستم پرور میں میرا ہم قلم ہو جا
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
فقیہہِ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا
آپ کہتے ہیں پرایوں نے کیا ہم کو تباہ
بندہ پرور کہیں اپنوں ہی کا یہ کام نہ ہو
نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ زیاد کی وہ جفا رہی
جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
تحریر: محمد آصف بھلی
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
25 نومبر 2012
 
Top