منتخب اشعار برائے بیت بازی!

شمشاد

لائبریرین
آثار اب یہ ہیں کہ گریبانِ شاہ سے
الجھیں گے ہاتھ بر سرِ دربار کچھ سنا
(جون ایلیا)
 
ایف اے تلک گئی، کوئی بی اے، ایم اے ہوئی
اس کے سوا لندن کو بھی جاتی ہیں عورتیں
حیران گھرکے ہوتے ہیں سب دیکھ دیکھ کر
ایسی آزاد پھرتی پھراتی ہیں یہ عورتیں

استاد امام دین
 

الف عین

لائبریرین
نہ جی بھر کے نہ دیکھا نہ کچھ بات کی
بہت آرزو تھی ملاقات کی۔
بشیر بدس
اور افتخار، یہ استاد امام دین ہیں کون ہستی۔ آپ کلے پاس ان کا مجموعہ ہے غالباً۔ لیکن ان کے اکثر اشعار بحر سے ہی خارج ہیں۔ کہیں کوئی معشوق تو نہیں اس پردۂ زنگاری میں؟
 

شمشاد

لائبریرین
یہی ہے فیصلہ تیرا کہ جو تجھے چاہے
وہ درد و کرب و الم کی کٹھالیوں میں جلے
(انور مسعود)
 

الف عین

لائبریرین
کیا غالب کا یہ شعر ہو چکا ہے؟
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
وہ بھی اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں
 

الف نظامی

لائبریرین
ہو چکا۔ لیکن دوبارہ بھی چلے گا۔
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشی رحمت کا قلمدان گیا​
 

شمشاد

لائبریرین
يار کو يار سمجھتا ہے نہ تو غير کو غير
تو تو اچھا ہے مگر تيرے برے ہيں برتاو

دوست ہوں جس کے ہزاروں وہ کسي کا نہیں دوست
سچ بتا تجھ کو کسي سے بھي ہے دنيا ميں لگاو
(الطاف حسين حالي)
 

الف عین

لائبریرین
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں۔
مگر شمشاد، تم ’ؤ‘ کو ’ئو‘ کیوں لکھتےہو؟
 

شمشاد

لائبریرین
نہ ھم ہيں نہ ھم تھے ہوس کار حسرت
وھ ناحق ھميں آزماتے رہے ہيں
(حسرت موہانی)
 

ثناءاللہ

محفلین
معذرت کے ساتھ کے میں نے اس بیت بازی کے تمام اشعار نہیں پڑے اگر دوبارہ لکھے گئے ہیں تو معذرت قبول کریں۔

نگاروں کے میلے ستاروں کے جھرمٹ
بہت دلنشیں ہیں بہاروں کے جھرمٹ

(ساغر صدیقی)
 

شمشاد

لائبریرین
ٹکرا ہی گئی میری نظر ان کی نظر سے
دھونا ہی پڑا ہاتھ مجھے قلب و نظر سے

اظہارِ محبت نہ کیا بس اسی ڈر سے
ایسا نہ ہو گِر جاؤں کہیں اُن کی نظر سے
(فیاض ہاشمی)
 

شمشاد

لائبریرین
نہ ستائیش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ
گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی

عشرتِ صحبتِ خوباں ہی غنیمت سمجھو
نہ ہوئی ‘غالب‘ اگر عمرِ طبعی نہ سہی
 

فریب

محفلین
یا رب! وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زبان اور۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی
اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی

وقت گزرا ہے پر موسم نہیں بدلا یارو
ایسی گردش ہے زمیں خود بھی دہائی دے گی
(انور مسود)
 

فریب

محفلین
یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا
پھر آج کس نے سُخن ہم سے غائبانہ کیا

غمِ جہان ہو رخِ یار ہو کہ دستِ عدو
سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا
 

شمشاد

لائبریرین
آئے کچھ ابر آئے کچھ شراب آئے
اُس کے بعد آئے جو عذاب آئے

بامِ مینا سے ماہتاب اُترے
دستِ ساقی میں آفتاب آئے
(فیض احمد فیض)
 

الف عین

لائبریرین
شمشاد۔ محبت نہیں ماہتاب اترتا ہے بامِ مینا سے۔
یہ بھی تمھاری ایک ادا ہے رشتے باندھو اور توڑو
کاش کوئی سمجھائے تم کو عشق میں کیا گہرائی ہے
 
Top