مناقب در شان اسد اللہ غالب علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ علیہ السلام

مناقب در شان اسد اللہ غالب علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ علیہ السلام
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

معزز محبان اردو محفل جیسا کہ عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ اس لڑی کو بنانے کا مقصد وہ تمام مناقب یا صرف اشعار جو جناب فاتح خیبر، حیدر کرار، باب مدينة العلوم، راکب دوش رسالت مآب علیہ الصلوة والسلام،ابو تراب و ابو الحسنین کریمین مولا علی المرتضٰی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ رضی اللہ تعالی عنہ علیہ السلام کی بارگاہ اقدس میں ہر دور کے شعرا ئے کرام نے بطور ہدیہ عقیدت پیش کیے ہیں۔
اس کی ابتدا میں اپنے چند پسندیدہ اشعار سے کرتا ہوں کیونکہ یہ تین شعر ایسے ہیں جو جب بھی ذہن میں آتے ہیں تو اس دنیائے آب و گل سے جہان معانی و مفاہیم میں لے جاتےہیں۔
امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی کا یہ شعر دیکھیے:

در نجف ہوں، گوہر پاک خوشاب ہوں
یعنی تراب رہ گزر بو تراب ہوں​

اور مرزا اسد اللہ خاں غالب مرحوم کے یہ دو شعر دیکھیے کہ

مشکیں لباس کعبہ علی کے قدم کو جان
ناف زمین ہے نہ کہ ناف غزال ہے​
اور
غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغول حق ہوں بندگئی بو تراب میں

سید عمران سید عاطف علی محمد عبدالرؤوف محمد وارث سیما علی محمل ابراہیم
 
منظر فضائے دہر میں سارا علی کا ہے

منظر فضائے دہر میں سارا علی کا ہے
جس سمت دیکھتا ہوں نظارہ علی کا ہے

دنیائے آشتی کی پھبن مجتبی حسن
لخت جگر نبی کا تو پیارا علی کا ہے

ہستی کی آب و تاب حسین آسماں جناب
زہرا کا لال راج دلارا علی کا ہے

مرحب دو نیم ہے سر خیبر پڑا ہوا
اٹھنے کا اب نہیں کہ یہ مارا علی کا ہے

کل کا جمال مظہر کل میں عکس ریز
گھوڑے پہ ہیں حسین نظارہ علی کا ہے

اے ارض پاک تجھ کو مبارک کہ تیرے پاس
پرچم نبی کا چاند ستارا علی کا ہے

اہل ہوس کی لقمۂ تر پر رہی نظر
نان جویں پہ صرف گزارا علی کا ہے

تم دخل دے رہے ہو عقیدت کے باب میں
دیکھو معاملہ یہ ہمارا علی کا ہے

ہیں فقر مست چاہنے والے علی کے ہیں
دل پر ہمارے صرف اجارا علی کا ہے

آثار پڑھ کے مہدئی دوراں کے یوں
جیسے ظہور وہ بھی دوبارہ علی کا ہے

دنیا میں اور کون ہے اپنا بجز علی
ہم بے کسوں کو ہے تو سہارا علی کا ہے

تو کیا ہے اور کیا ہے تیرے علم کی بساط
تجھ پر کرم نصیرؔ یہ سارا علی کا ہے

سید نصیر الدین نصیر​
 
کیوں عقیدت سے نہ میرا دل پکارے یا علیؑ

کیوں عقیدت سے نہ میرا دل پکارے یا علیؑ
جس کے ہیں مولا محمد، اس کے ہیں مولا، علیؑ

جس گھڑی اللہ کے گھر میں ہوئے پیدا علیؑ
ذرّہ ذرّہ با ادب ہو کر پکارا یا علیؑ

بے نظیر ان کی شجاعت بے مثال ان کی سخا
ہے زمانے کا یہ نعرہ لا فتیٰ الا علیؑ

جاں نثاران محمد کے کئیں القاب ہیں
علم کا دروازہ کہلائے مگر، تنہا علی

مرحب و عنتر گرے جس کے خدائی زور سے
مردِ حق، شیرِ خدا، خیبر کشا، مولا علیؑ

شاہِ مرداں، قوتِ بازو رسول اللہﷺ کی
کیوں بھلا ہوتے کسی میدان میں پسپا علیؑ

جان و دل سے تھے عزیز، اللہ کے محبوب کو
شبرؑ و شبیرؑ، حضرت فاطمہؑ زہراؑ علیؑ

آ گئیں نقش و نگار زندگی میں رونقیں
صدق نیت سے خولوح دل پہ لکھا یا علی

خیبر و خندق میں دشمن کا صفایا کر دیا
جوہر مردانگی دکھلا گئے کیا کیا علی

جرأت و ہمت میں تم ہو آپ ہی اپنا جواب
مادر گیتی نہ پیدا کر سکی تم سا علی

دل گرفتہ ہوں غم و آلام کی یلغار سے
اس طرف بھی اک نظر ہو اے مرے آقا، علی

جن کے چہرے پر نظر کرنا عبادت ہے نصیر
وہ حدیثِ مصطفیٰﷺ کی رو سے ہیں مولا علیؑ

سید نصیرالدین نصیر​
 
Top