ملک سدھارنا ہے تو خود سدھر جائیے!

ایس ایم شاہ

محفلین
ملک سدھارنا ہے تو خود سدھر جائیے!
تحریر: ایس ایم شاہ
سکندر ذوالقرنین ایک بادشاہ تھا۔ ایک دفعہ اس نے کسی شہر کا دورہ کیا۔ وہاں کی حالت دیکھ کر وہ دنگ رہ گیا۔ نہ وہاں پولیس تھی نہ فوج، نہ دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے۔ وہاں کا ہر شخص بروقت اپنے کام پر جاتا تھا۔ مخلصانہ ڈیوٹی دیتا تھا۔ وقت مکمل کرکے واپس گھر آتا تھا۔ نہ انھیں روکنے والا ہے اور نہ ٹوکنے والا۔ وہاں اس نے ایک اور عجیب حالت بھی دیکھی۔ ہر گھر کے سامنے دو تین قبریں تھیں۔ اس کے استفسار پر کسی نے جواب دیا کہ ہم اپنے عزیزوں کو گھروں کے سامنے دفناتے ہیں۔ روزانہ صبح کام سے جاتے وقت ہم ان قبروں پر حاضری دیتے ہیں اور ان کی قبروں پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہی تئیں یہ بات کرتے ہیں کہ ان کا جو انجام ہوا ہے، وہی انجام ہمارا بھی ہوگا۔ آخر کار پانچ میٹر کپڑا اور پانچ فٹ کی زمین ہی ان کے کام آئی۔ اس کے علاوہ انھوں نے جو کارنامے انجام دیئے، وہی ان کے کام آئیں گے۔ انھوں نے جو انسانیت کی خدمت بجا لائی ہے، وہ ان کے لئے کارآمد ثابت ہوں گے۔ خدا کی جو خوشنودی حاصل کی ہے، وہی انھیں فائدہ پہنچائے گی۔ حلال و حرام کی جو رعایت کی ہے، اسی کا صلہ انھیں ملے گا۔ نمازیں جو انھوں نے وقت پر پڑھی ہیں، وہی ان کے لئے نجات بخش ثابت ہوں گی۔
ایسی ہی باتیں کرنے کے بعد ہم بروقت اپنے کام پر نکلتے ہیں اور ہم میں سے ہر کوئی ایسا ہی کرتا ہے۔ دن بھر اپنے روزمرہ کاموں میں ان باتوں کو اپنے ذہنوں میں محفوظ رکھتے ہیں۔ نہ دوران زندگی ہم کسی کا حق چھینتے ہیں۔ نہ کسی چوری ڈاکے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ نہ کسی کی دل آزاری کرتے ہیں۔ نہ کسی کو بے جا تنگ کرتے ہیں۔ نہ کسی کی ذاتیات پر حملہ کرتے ہیں۔ نہ کسی چغلی اور تہمت میں وقت گزارتے ہیں۔ نہ کسی کی غیبت میں ہم اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں۔ نہ ہم انسانیت کی حدود کو عبور کرتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کے احترام کو اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ پھر مطمئن ہوکر شام گئے ہم گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔ اس وقت ان قبروں پر ایک دفعہ پھر حاضری ہم اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں۔ یہاں حاضر ہوکر پورے دن کی ڈائری ہم وہاں پیش کرتے ہیں۔
آج کے دن دفتری کاموں سے لیکر محنت مزدوری تک کے امور میں ہم نے کسی سے خیانت نہیں کی۔ حق الناس نہیں کھائے۔ کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا۔ مروت کا لحاظ رکھا۔ اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ برادرانہ سلوک روا رکھا۔ نہ کسی نے عہدہ دار ہونے پر ناز کیا اور نہ ہی کسی مزدور کی دل شکنی کی گئی۔ نہ کسی نے اپنی بڑائی کا لوہا منوانے کی کوشش کی اور نہ ہی کسی کو اس کی غربت کا احساس ہونے دیا۔ کیونکہ ہمیں احساس ہے کہ بادشاہ اور غلام سب نے آخر اسی پانچ فٹ کی مٹی کے اندر ہی جانا ہے۔ یہ تمام باتیں ہم دہرانے کے بعد ہم گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہی ہم میں سے ہر ایک کے روزانہ کا معمول ہے۔ لہذا نہ ہمیں کسی پولیس کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ ہی کسی دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے کی۔ کیونکہ ہم سب اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن نبھاتے ہیں۔
کاش آج ہمارا معاشرہ بھی ایسا ہوتا! نفرت کی جگہ محبت ہوتی۔ دوری کی جگہ قربت آجاتی۔ ایک دوسرے کا احترام روز کا معمول بن جاتا۔ تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے حالت رشد میں ہوتے۔ 25،30 سال عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے نہ پڑتے۔ لاکھوں کروڑوں روپے انصاف کے حصول کے نام پر تلف نہ ہوجاتے۔ طبقاتی نظام کو روز بہ روز فروغ نہ ملتا اور اشرافیت کی زیر سلطہ ہماری عمریں نہ کٹ جاتیں۔ نہ کوئی فقیر دکھائی دیتا، نہ کوئی بھیکاری، نہ کوئی قاتل دکھائی دیتا، نہ کوئی غاصب، نہ کوئی ظالم دکھائی دے دیتا، نہ کوئی مظلوم، نہ کوئی چور دکھائی دیتا، نہ کوئی ڈاکو، نہ کہیں دہشتگردی ہوتی اور نہ کہیں قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا، نہ جھگڑا فساد ہوتا اور نہ نفرت و کدورت، نہ جھوٹ روز مرہ کا معمول ہوتا اور نہ ہی چغل خوری ایک عام سی بات بن جاتی، نہ بھائی بھائی کا گلا گھونٹنے کے درپے ہوتا۔ ہماری اکثر غلطیوں کا بنیادی سبب موت کو فراموش کرنا ہے، ورنہ اولیائے الٰہی تو موت کو گلے لگانے کے آرزومند ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی زندگی کے ہر موڑ پر خدا کی اطاعت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ ہم سب ابدی بن بیٹھے ہیں۔
حضرت بلال حبشی کا یہ واقعہ بھی کتنا دل انگیز ہے۔ بلال حبشی پیغمبر (ص) کے مؤذن تھے۔ جب آپ بیمار ہوکر بستر بیماری پر پڑگئے۔ تب آپ کی بیوی سرہانے آکر کہنے لگی: افسوس میں مشکلات میں پھنس گئی! حضرت بلال نے کہا: یہ وقت تو خوش و خرم ہونے کا ہے نہ کہ پریشانی کا۔ ابھی تک میں پریشانی میں مبتلا تھا۔ تجھے کیا معلوم کہ موت ہی حقیقی زندگی کی شروعات ہے۔ بیوی کہنے لگی: اب جدائی کا وقت آگیا۔ بلال کہنے لگے: فراق نہیں اب وصال کا وقت آپہنچا ہے۔ بیوی کہنے لگی: آج آپ دیار غیر کی طرف عازم سفر ہو۔ بلال کہنے لگے: میں اپنے اصلی وطن کی طرف جا رہا ہوں۔ بیوی کہنے لگی: اس کے بعد میں تمہیں کہاں دیکھ پاؤں گی۔ بلال نے کہا: خاصان الہی کے زمرے میں۔ بیوی کہنے لگی: ہائے افسوس تیرے جانے کے بعد گھر بار سب اجڑ جائیں گے۔ بلال کہنے لگے: یہ ڈھانچے مختصر وقت کے لئے بادل کی مانند آپس میں جڑے رہتے ہیں، پھر جدا ہوجاتے ہیں۔ کاش آج ہمارے درمیان میں بھی بلال و بوذر و قمبر کی صفات رکھنے والے افراد موجود ہوتے تو ہمارا معاشرہ کتنا بہترین ہوتا۔ آج ان ہستیوں کی صفات سے آراستہ پیراستہ افراد کی تربیت کی ضرورت ہے۔
اسی طرح رحمت عالم کے شب معراج کا واقعہ کتنا سبق آموز ہے۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: شب معراج مجھے آسمان کی سیر کرائی گئی۔ وہاں میں نے ایک فرشتے کو دیکھا کہ نور کی ایک تختی اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ فرشتہ اس تختی کی طرف ایسے دھیان سے دیکھ رہا تھا کہ دائیں بائیں کی طرف بھی اس کی توجہ نہیں جاتی تھی۔ ایک غمگین شخص کی مانند وہ اپنی دنیا میں غرق تھا۔ میں نے جبرئیل سے سوال کیا کہ یہ فرشتہ کون ہے؟ انہوں نے جواب میں کہا: یہ موت کا فرشتہ عزرائیل ہے۔ یہ روحوں کو قبض کرنے کا ذمہ دار ہے۔ میں نے تقاضا کیا کہ مجھے اس کے پاس لے چلیں، تاکہ میں ان سے کچھ گفتگو کر سکوں! جبرئیل مجھے اس کے پاس لے گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے اس سے یہ سوال کیا: اے موت کے فرشتہ، کیا جتنے انسان مرتے ہیں یا آئندہ جو مریں گے، ان کی روح تم ہی نکالتے ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔
پھر عزرائیل کہنے لگا: اللہ تعالٰی نے پوری کائنات کو میرے ہاتھ میں ایسے قرار دیا ہے، جیسے کوئی پیسہ ہاتھ میں ہو۔ جس طرح وہ شخص اپنی مرضی سے پیسوں کو آگے پیچھے کر سکتا ہے، ویسے ہی لوگوں کی قبض روح میرے لئے ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا مکان نہیں جس میں، میں پانچ مرتبہ روزانہ نہ جاتا ہوں۔ جب کسی کی فوتگی پر اس کے رشتے دار اس پر رونے لگ جاتے ہیں، تب میں ان سے کہتا ہوں کہ رونا نہیں، میں پھر تمہارے پاس حاضری دیتا رہوں گا، یہاں تک کہ تم سب کی قبض روح مکمل ہو جائے۔ علامہ مجلسی کا واقعہ صاحبان عقل کے لئے کتنا سبق آموز ہے۔ ان کے قریبی شاگرد نعمت اللہ جزائری نقل کرتے ہیں کہ میں اور میرے استاد علامہ مجلسی کے درمیان یہ طے پایا کہ ہم میں سے جو بھی پہلے اس دنیا سے چلا جائے، تو وہ خواب میں آکر دوسرے کو وہاں کے بعض حال و احوال بیان کرے گا۔ اتفاق سے مجھ سے پہلے میرے استاد کی رحلت ہوئی۔ سات دن تک فاتحہ خوانی کا سلسلہ چلتا رہا۔
یکایک میرے ذہن میں وہی وعدہ یاد آیا۔ میں ان کی قبر پر گیا۔ قرآن کی تلاوت کی۔ ان پر گریہ کیا۔ اتنے میں مجھے وہاں نیند آگئی۔ خواب میں نے اپنے استاد کو خوبصورت لباس میں ملبوس پایا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ قبر سے باہر آگئے ہیں۔ ان کی جدائی کا داغ میرے دل پر تھا۔ میں نے ان کے داہنے ہاتھ کا انگوٹھا تھام کر عرض کیا کہ جو مجھ سے وعدہ کیا تھا، اسے نبھایئے! علامہ کہنے لگے: میں بیمار تھا۔ آہستہ آہستہ بیماری اتنی شدت اختیار کر گئی کہ میری برداشت سے باہر ہوگئی۔ اس وقت میں نے خدا کو پکارا۔ اے اللہ! اب میرے اندر اسے مزید سہنے کی طاقت باقی نہ رہی۔ تو ہی اپنی رحمت واسعہ سے میرے لئے کوئی راستہ نکال! اتنے میں ایک نورانی بزرگوار میرے سرہانے سے نمودار ہوکر میرے پاؤں کی جانب بیٹھ گئے۔ انہوں نے میری احوال پرسی کی۔ میں نے انھیں اپنے حالات سے آگاہ کیا۔
اس ہستی نے اپنا ہاتھ میرے پاؤں کی انگلی پر رکھ کر مجھ سے سوال کیا کہ کیا درد میں کچھ افاقہ ہوا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے ہاتھوں کو ملتے ہوئے میرے سینے کی طرف لائے۔ ساتھ ہی درد بھی ٹھیک ہوتا گیا۔ جونہی سینے تک ان کا ہاتھ پہنچا، میرا جسم وہاں پڑا رہا اور میری روح اس سے الگ ہوگئی۔ میری روح مکان کے کنارے سے اس جسم کی طرف دیکھتی رہی۔ میرے رشتے دار، دوست احباب اور ہمسائے آکر رونے اور آہ و فغان کرنے لگے۔ میری روح ان سے کہہ رہی تھی کہ میری حالت ٹھیک ہے، میں پریشان نہیں ہوں، کیوں تم مجھ پر رو رہے ہو؟ لیکن کوئی میری باتوں کو سن نہیں پاتا تھا۔ پھر انھوں نے آکر میرے جنازے کو اٹھایا، غسل و کفن دیا، نماز جنازہ ادا کر دی اور میرے جسم کو قبر میں اتارا گیا۔
اتنے میں منادی ندا دینے لگا! اے میرے بندے محمد باقر! آج کے لئے تم کیا چیز تیار کرکے لائے ہو؟ میں نے نماز، روزہ، کتاب کی تالیف وغیرہ کو گنا، لیکن ان میں سے کوئی بھی مورد قبول قرار نہیں پایا۔ اتنے میں ایک اور عمل میرے ذہن میں آیا۔ ایک دن بازار میں قرض ادا نہ کر پانے کے جرم میں کسی مؤمن کی پٹائی ہو رہی تھی۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے خود اس کا قرض ادا کرکے قرض خواہ کے چنگل سے اسے نجات دلا دی۔ میں نے جونہی اس کا تذکرہ کیا۔ تب اللہ تعالٰی نے میرے اس کام کی بدولت میرے دوسرے اعمال کو بھی مورد قبول قرار دے دیا۔ جنت کا پروانہ دیکر مجھے جنت (بہشت برزخی) کی طرف روانہ کر دیا۔ کاش آج ہمارے درمیان بھی قرض خواہوں کے قرض کو ادا کرنے والے، دکھیاروں کا دکھ بانٹنے والے اور غریبوں کی مدد کرنے والے افراد ہوتے تو کتنا خوبصورت معاشرہ ہوتا۔ غریبوں کی زندگی بھی سنور جاتی۔ ان کی مدد کرنے والے بھی دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہوتے۔ موت اور قبر کی تاریکی کو یاد کرکے خود سدھر جایئے معاشرہ اور ملک خود بخود سدھر جائے گا۔
 
پس کے دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔۔۔
ہمارے حال یہ ہیں کہ
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
دین کا 90 فیصد اللہ کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک، حسن اخلاق سے پیش آنا ہے۔ 10 فیصد عبادات۔ آخری واقعہ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دعا ہے مالک ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

غم بانٹنے کی چیز نہیں پھر بھی دوستو
اک دوسرے کے حال سے واقف رہا کرو
 
بہترین اور دلکشا تحریر ہے شاہ صاحب آپ کی۔ اگر ہر کوئی اپنی اصلاح کی فکر کرنے لگ جائیں اور اپنی ذمہ دارریوں کو نبھالیں تو ملک خود بخود سدھر جائے گا۔
 
Top