منصور مکرم
محفلین
سپریم کورٹ کے دباؤ اور پولیس کے ایک افسر کی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کے لاپتہ افراد کے معاملے میں پہلی بار ملٹری انٹیلی جنس کے ایک افسر کی اصل شناخت سامنے آئی ہے اور اس افسر کو ایک شہری کے اغوا کے الزام میں مقدمے کا سامنا ہے۔
سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران پیش کی گئی دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ میجر حیدر کے کوڈ نام سے مشہور ملٹری انٹیلی جنس کا افسر در اصل میجر محمد علی احسن ہے جو ان دنوں بلوچستان کے ضلع آواران میں تعینات ہے۔
اسی بارے میں
ملٹری انٹیلی جنس سے مبینہ تعلق رکھنے والے میجر حیدر پر تاسیف علی کے اغوا کا الزام ہے۔ تاہم گزشتہ ایک برس سے وزارت دفاع، فوجی صدر دفاتر اور ملٹری انٹیلی جنس کے حکام تحریری طور پر عدالت کو آگاہ کر چکے ہیں کہ اس نام کا کوئی افسر ملٹری انٹیلی جنس میں خدمات انجام نہیں دے رہا۔
ایک پولیس افسر کی ایک سال پر محیط انتھک کوششوں کے بعد بلآخر اس میجر حیدر کا بھانڈہ گزشتہ روز عدالت عظمیٰ میں اس وقت پھوٹا جب پولیس کے تفتیشی افسر نے دستاویزات، ہوائی جہاز کے ریکارڈ اور موبائل فون نمبر کے ذریعے ثابت کر دیا کہ میجر محمد احسن علی ہی دراصل میجر حیدر ہیں۔
کسی جاسوسی ناول کا پلاٹ لگنے والی یہ کہانی ٹھیک ایک برس قبل راولپنڈی سے شروع ہوئی جب ڈاکٹر عابدہ ملک نے صادق آباد پولیس کو بتایا کہ ان کے شوہر تاسیف علی دو روز سےگھر نہیں لوٹے۔
ڈاکٹر عابدہ ملک نے بتایا کہ گھر سے غائب ہونے سے قبل ان کے شوہر کی ٹیلی فون پر کسی سے تلخ کلامی ہوئی تھی اور پوچھنے پر تاسیف علی نے بتایا تھا کہ وہ ملٹری انٹیلی جنس کے میجر حیدر سے بات کر رہے تھے جو انہیں دھمکا رہے تھے۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتے دار ان کی بازیابی کے لیے پیدل لانگ مارچ کر رہے ہیں
یہ معاملہ لاپتہ افراد کے مقدمے کے طور پر سپریم کورٹ پہنچا اور سپریم کورٹ کی ہدایت پر پولیس کے ایک تفتیشی افسر نے اس کی تحقیق شروع کی۔
میرپور سے تعلق رکھنے والے تاسیف علی کے دوستوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ حزب المجاہدین کے سابق کمانڈر تھے لیکن اب تائب ہو کر میرپور میں فرنیچر کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے ایک دوست کے مطابق میرپور ہی میں تعینات ملٹری انٹیلی جنس کے میجر حیدر بھارتی سرحد کے قریب ایک دکان کھولنے پر اصرار کر رہے تھے جبکہ تاسیف علی اس میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔
پولیس نے متعدد بار ملٹری انٹیلی جنس کے دفتر کا دورہ کیا اور سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کے ذریعے یہاں تعینات میجر حیدر کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں بتایا گیا کہ اس نام کا کوئی افسر ملٹری انٹیلی جنس میں کام نہیں کرتا۔
پولیس نے تاسیف علی اور میجر حیدر کے فون ریکارڈ حاصل کیے جس سے پتہ چلا کہ میجر حیدر کے زیر استعمال فون دس مئی کو دوپہر بارہ بجے راولپنڈی اور چار بجے کراچی میں استعمال ہوا۔
پولیس ٹیم اسی روز ہوائی اڈے پہنچی اور اس دوران کراچی جانے والی فلائٹ میں مسافروں کی فہرست سے پتہ چلا کہ مذکورہ فون محمد علی احسن نامی شخص کے زیراستعمال ہے۔
اسی دوران پولیس کو کسی نامعلوم شخص کی جانب سے ایک لفافہ موصول ہوا جس میں کیپٹن محمد علی احسن کا وزٹنگ کارڈ موجود تھا۔
پاکستان کے لاپتہ افراد کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے
سپریم کورٹ کے استفسار پر وزارت دفاع نے تسلیم کیا کہ اس نام کا ایک افسر فوج میں موجود ہے اور اس کے سروس ریکارڈ سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ افسر تاسیف علی کے اغوا کے وقت میرپور میں ملٹری انٹیلی جنس کے دفتر میں تعینات تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم پر وزارت دفاع نے اس افسر کو تاسیف علی کے اغوا کے مقدمے میں شامل تفتیش کرنے کی یقین دہانی بھی کروا دی ہے۔
میجر محمد علی احسن آواران میں تعینات ہیں اور پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ بدھ کو اس فوجی افسر کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔
میجر محمد علی احسن تاسیف علی کے اغوا میں ملوث ہیں یا نہیں، یہ بات تو پولیس تفتیش میں ہی سامنے آئے گی، تاہم عدالت عظمیٰ کی حد تک یہ مقدمہ ابھی بند نہیں ہوا ہے۔
بی بی سی
سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران پیش کی گئی دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ میجر حیدر کے کوڈ نام سے مشہور ملٹری انٹیلی جنس کا افسر در اصل میجر محمد علی احسن ہے جو ان دنوں بلوچستان کے ضلع آواران میں تعینات ہے۔
اسی بارے میں
- بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لانگ مارچ
- لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لانگ مارچ جاری
- بلوچ علاقے ہیں جہاں حکومت کی رٹ نہیں: ڈاکٹر عبدالمالک
ملٹری انٹیلی جنس سے مبینہ تعلق رکھنے والے میجر حیدر پر تاسیف علی کے اغوا کا الزام ہے۔ تاہم گزشتہ ایک برس سے وزارت دفاع، فوجی صدر دفاتر اور ملٹری انٹیلی جنس کے حکام تحریری طور پر عدالت کو آگاہ کر چکے ہیں کہ اس نام کا کوئی افسر ملٹری انٹیلی جنس میں خدمات انجام نہیں دے رہا۔
ایک پولیس افسر کی ایک سال پر محیط انتھک کوششوں کے بعد بلآخر اس میجر حیدر کا بھانڈہ گزشتہ روز عدالت عظمیٰ میں اس وقت پھوٹا جب پولیس کے تفتیشی افسر نے دستاویزات، ہوائی جہاز کے ریکارڈ اور موبائل فون نمبر کے ذریعے ثابت کر دیا کہ میجر محمد احسن علی ہی دراصل میجر حیدر ہیں۔
کسی جاسوسی ناول کا پلاٹ لگنے والی یہ کہانی ٹھیک ایک برس قبل راولپنڈی سے شروع ہوئی جب ڈاکٹر عابدہ ملک نے صادق آباد پولیس کو بتایا کہ ان کے شوہر تاسیف علی دو روز سےگھر نہیں لوٹے۔
ڈاکٹر عابدہ ملک نے بتایا کہ گھر سے غائب ہونے سے قبل ان کے شوہر کی ٹیلی فون پر کسی سے تلخ کلامی ہوئی تھی اور پوچھنے پر تاسیف علی نے بتایا تھا کہ وہ ملٹری انٹیلی جنس کے میجر حیدر سے بات کر رہے تھے جو انہیں دھمکا رہے تھے۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتے دار ان کی بازیابی کے لیے پیدل لانگ مارچ کر رہے ہیں
یہ معاملہ لاپتہ افراد کے مقدمے کے طور پر سپریم کورٹ پہنچا اور سپریم کورٹ کی ہدایت پر پولیس کے ایک تفتیشی افسر نے اس کی تحقیق شروع کی۔
میرپور سے تعلق رکھنے والے تاسیف علی کے دوستوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ حزب المجاہدین کے سابق کمانڈر تھے لیکن اب تائب ہو کر میرپور میں فرنیچر کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے ایک دوست کے مطابق میرپور ہی میں تعینات ملٹری انٹیلی جنس کے میجر حیدر بھارتی سرحد کے قریب ایک دکان کھولنے پر اصرار کر رہے تھے جبکہ تاسیف علی اس میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔
پولیس نے متعدد بار ملٹری انٹیلی جنس کے دفتر کا دورہ کیا اور سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کے ذریعے یہاں تعینات میجر حیدر کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں بتایا گیا کہ اس نام کا کوئی افسر ملٹری انٹیلی جنس میں کام نہیں کرتا۔
پولیس نے تاسیف علی اور میجر حیدر کے فون ریکارڈ حاصل کیے جس سے پتہ چلا کہ میجر حیدر کے زیر استعمال فون دس مئی کو دوپہر بارہ بجے راولپنڈی اور چار بجے کراچی میں استعمال ہوا۔
پولیس ٹیم اسی روز ہوائی اڈے پہنچی اور اس دوران کراچی جانے والی فلائٹ میں مسافروں کی فہرست سے پتہ چلا کہ مذکورہ فون محمد علی احسن نامی شخص کے زیراستعمال ہے۔
اسی دوران پولیس کو کسی نامعلوم شخص کی جانب سے ایک لفافہ موصول ہوا جس میں کیپٹن محمد علی احسن کا وزٹنگ کارڈ موجود تھا۔
سپریم کورٹ کے استفسار پر وزارت دفاع نے تسلیم کیا کہ اس نام کا ایک افسر فوج میں موجود ہے اور اس کے سروس ریکارڈ سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ افسر تاسیف علی کے اغوا کے وقت میرپور میں ملٹری انٹیلی جنس کے دفتر میں تعینات تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم پر وزارت دفاع نے اس افسر کو تاسیف علی کے اغوا کے مقدمے میں شامل تفتیش کرنے کی یقین دہانی بھی کروا دی ہے۔
میجر محمد علی احسن آواران میں تعینات ہیں اور پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ بدھ کو اس فوجی افسر کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔
میجر محمد علی احسن تاسیف علی کے اغوا میں ملوث ہیں یا نہیں، یہ بات تو پولیس تفتیش میں ہی سامنے آئے گی، تاہم عدالت عظمیٰ کی حد تک یہ مقدمہ ابھی بند نہیں ہوا ہے۔
بی بی سی