محسن وقار علی
محفلین
برطانوی ٹیلی ویژن کے مقبول ترین پروگرام ایکس فیکٹر میں جانے کے لئے مقامی فنکاروں خصوصاً نوجوانوں کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ اس کا اندازہ انہی کو ہے مگر ایک برس قبل پاکستان سے آنے والے سٹوڈنٹ محمد شاہد نذیر کو اس پروگرام میں جانے کے لئے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی ، ون پونڈ فش مارکیٹ میں ” کم آن لیڈی۔ہیوہیو اے لک ۔ ون پونڈ فش“ گاکر مچھلی فروخت کرنے والے شاہد نذیر آج برطانیہ میں سیلبریٹی بن گیا ہے اور اس گانے کو ایک ممتاز برطانوی میوزک کمپنی نے اس سے گوا کر اور گوری حسیناؤں کے ساتھ ڈانس کے ساتھ فلمبند کرکے ریلیز کردیا ہے ، آج یہ گانا اکثر ٹیلی ویژن چینلز پر چلتا ہے اور اسے یوٹیوب پر بھی لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں ۔ شاہد کی مقبولیت کی وجہ یہ نہیں کہ اس کی آواز غیر معمولی ہے یا وہ بڑا فنکار ہے بلکہ وجہ شاید یہ ہے کہ اس کی قسمت بہت اچھی ہے اس کو صحیح وقت پر اور صحیح جگہ پر دریافت کرلیا گیا ، اس وقت وہ برطانیہ کے مقبول ترین اور جانے پہچانے لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کو طالبان سے جان کا خطرہ بھی نہیں ہے ۔ حالانکہ اسے بنانے اور دریافت کرنے والا مغرب ہی ہے جس کو پاکستان میں پسند نہیں کیا جاتا وہ تو اپنے معاشی حالات سیدھے کرنے یہاں آیا تھا اور سیلبریٹی بن گیا ، مگر ملالہ کے ساتھ ایسا نہیں ہے اسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ بچ جائے گی اور برطانیہ بھی لائی جائیگی ۔ وہ بھی ایک عام لڑکی کی طرح تھی اور پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کوشاں تھی کہ قائد اعظم کے پاکستان میں اپنی مرضی کا اسلام ٹھونسنے کے خواہاں طالبان نے اس نہتی لڑکی کو شناخت کرکے سر پر گولی ماری تاکہ اس کے بچنے کا کوئی امکان نہ رہے مگر ملالہ بھی شاہد نذیر کی طرح خوش نصیب نکلی کہ اس کو صحیح وقت پر ہسپتال اور صحیح وقت پر برطانیہ لایا گیا جہاں وہ صحت یاب ہورہی ہے ، مگر یہ کیا کہ اس کے اپنے ہم وطنوں نے ہی اس کے خلاف تنگ نظری پر مشتمل مہم چلادی ہے کوئی کہتا ہے کہ وہ امریکہ کا مہرہ ہے ، کوئی اسے مغرب کی ایجنٹ کہتا ہے کوئی کہتا ہے کہ اس کو تو گولی لگی ہی نہیں ، کسی کا خیال ہے کہ ملالہ کے والدین نے یہ سب کچھ برطانیہ میں سیاسی پناہ لینے کے لئے کیا ، جتنے منہ اتنی ہی باتیں ! مگر شاہد کے بارے میں کوئی بھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتا ، حالانکہ اس کو اسی مغرب نے سیلبریٹی بنایا ہے باکسر عامر بھی اس ملک کے ہیرو ہیں وہ جب کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں تو اس ملک میں جشن منایا جاتا ہے ، ہم عامر خان کی ساری کامیابیوں کو سیلبریٹ کرتے ہیں اور ان کو مغربی ملک کا باشندہ ہونے کا طعنہ نہیں دیتے ، بیرونس سعیدہ وارثی کو فارن آفس کی سینئر وزیر بنایا جاتا ہے تو بھی ہم خوش ہوتے ہیں مگر مغرب کو اس اچھے کام کے لئے شاباش تک نہیں دیتے ، ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ استاد نصرت فتح علی خان کو بھی مغرب نے بنایا ، قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسے عظیم لوگوں نے بھی اسی مغرب سے استفادہ کیا تھا ۔ تاہم یہی مغرب اگر ملالہ جیسی مظلوم لڑکی کو پناہ دیتا ہے تو ہم میں سے بعض آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں ، ملالہ کا موازنہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ڈرون حملہ میں ہزاروں ملالاؤں کو مارا جارہا ہے ہم ملالہ کی اس مدد کو بھی تو سازش قرار دے دیتے ہیں اور مغرب کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں یہ درست ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے اور پاکستانی قوم اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی جیل سے نکال کر واپس پاکستان لانے کی کوششیں کرے ، یہ بھی درست ہے کہ ڈرون حملوں میں بے گناہ افراد بھی جاں بحق ہورہے ہیں جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں ، مگر ان باتوں کو جواز بنا کر کیا ملالہ کو ان طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے جنہوں نے اس کو مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ، جو اب بھی اپنی سدھ بدھ میں نظر نہیں آتی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اس کو صحت یاب ہونے میں کئی برس لگ جائیں گے ، اگر اس 14/15 سال کی بچی کو اس ملک نے پناہ دی ہے اور اس کا علاج ہو رہا ہے تو کیا یہ مناسب ہے کہ اس کا موازنہ ان دوسرے حالات وواقعات سے کیا جائے جو ہم سب کو ناگوار گزرتے ہیں مگر ہماری حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے ہمیں برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ نہ صرف برطانیہ نے بلکہ یورپ اور امریکہ نے لاکھوں پاکستانیوں کو پناہ دے رکھی ہے ، ہم میں سے اکثر معاشی ، سیاسی اور مذہبی وجوہات کی بناء پر پاکستان کو چھوڑ کر ان ممالک میں آئے تھے ، انہوں نے ہمیں نہ صرف پناہ دی بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ہمیں نمائندگی بھی دی ، اگر آج برطانوی پارلیمنٹ میں پاکستانی ارکان موجود ہیں تو یہ اس مغرب کی مہربانی ہے کہ جس نے ہمارے خلاف نسل پرستوں کی جانب سے چلائی جانے والی مہم کی بھی مخالفت کی اور ہمیں مساوی حقوق دیئے ۔ ملالہ یوسفزئی کو جن حالات میں اس ملک میں لایا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہیں اس کو پاکستان کے اندر اس قدر خطرہ تھا کہ وہ 24 گھنٹے فوج کی نگرانی میں تھی اس کے والدین اور دوسرے خاندان والوں کو بھی فوج نے پناہ دے رکھی ہے ، اگر اس کو باہر نہ بھیجا جاتا تو اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ طالبان اس ہسپتال کو ہی اڑا دیتے جس میں وہ زیر علاج تھی ، اس طرح سینکڑوں دوسری جانیں بھی جاتیں ، جو لوگ جی ایچ کیو کے اندر گھس کر فوجیوں کو مار سکتے ہیں ، کراچی میں نیول بیس میں گھس کر اورین طیارے تباہ کرسکتے ہیں اور پشاور کے ائرپورٹ کو تباہ کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں وہ کیا ملالہ کو ہسپتال میں زندہ رہنے دیتے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح ہم محمد شاہد نذیر ، بیرونس سعیدہ وارثی ، عامر خان اور دوسرے کامیاب برٹش پاکستانیوں کی کامیابیوں پر خوش ہوتے ہیں اور ان کا موازنہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ڈرون حملوں کے ساتھ نہیں کرتے اس طرح پاکستان کی ننھی بہادر لڑکی ملالہ یوسفزئی کی برطانیہ آمد کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہئے ، اگر ہمیں موازنہ کرنا ہی ہے تو پھر ہر پاکستانی کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ ایسے ملک میں کیوں رہتا ہے جو پاکستان پر ڈرون حملے کررہے ہیں یا جس نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت کئی دوسرے پاکستانیوں کو قید میں رکھا ہوا ہے ؟ کیا اس طرح کی سوچ اپنانا درست ہے ؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام پاکستانیوں کے خلاف مہم چلائی جائے جنہیں مغرب نے بنایا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ملالہ یوسف زئی پوری دنیا میں پاکستان کا ایک سافٹ امیج بن گئی ہے اور اب وہ ممالک بھی پاکستان کو مظلوم ملک کہتے ہیں جو اسے دہشت گرد کہا کرتے تھے مگر یہ بات طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کو گوارا نہیں ہے ۔ وہ پاکستان کی ہر اس ملالہ کو مارنا چاہتے ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز اٹھائے اور دہشت گردی کی مذمت کرے ۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ۔