مقدماتی اصطلاحات

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لفظ ہم سب جانتے ہیں کہ کیا ہے یعنی لفظ کی تعریف، اور جب اقسام کے لحاظ سے دیکھیں تو لفظ دو طرح کا ہے:

مُستعمَل یا کلمہ : ایسا لفظ جس کے کوئی معنی ہوں
مثال: رَجُل (مرد)، نَصَرَ (اس نے مدد کی)
مُھمل : جس کے کوئی معنی نہ ہوں
مثال: روٹی ووٹی میں ووٹی
قلم ملم میں مَلَم وغیرہ

اقسامِ کلمہ : کلمہ کی مندرجہ ذیل تین اقسام ہیں
اِسم مثال : فَرَس (گھوڑا)
فِعل مثال : حَسُنَ (نیکی کی اُس ایک مرد نے)
حرف مثال : مِن ( سے )

اقسامِ اِسم (اسم کی اقسام): اسم کی مندرجہ ذیل دو اقسام ہیں
مصدر : وہ اسم جس میں کسی کام کا ذکر ہو
مثال (اردو) سونا ، کھانا ، جاگنا
(فارسی) خوابیدن ، خوردن
(عربی) عِلم ، حُسن
غیر مصدر: کسی بھی چیز ، جگہ ، شخص کا نام
مثال جَبل (پہاڑ)
علی
پاکستان
 

جیسبادی

محفلین
ایک احمقانہ سوال کی اجازت دو:
آپ نے مصدر کی تعریف بتائی۔
یہ "آزاد مصدر" open source کو کیوں کہتے ہیں؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مصدر:

عربی زبان کا لفظ ہے ، اسم اور مذ کر ہے۔معنی کے لحاظ سے:

1۔ صادر ہونے کی جگہ ، نکلنے کی جگہ
2۔ سر چشمہ ، جڑ ، بنیاد
3۔ پھر آنے کی جگہ ، پھرنا
4۔ صرف و نحو میں وہ کلمہ جس سے فعل اور صیغے مشتق ہوں۔


خاندان مصدر:

مصدر اصلی (وضعی) : وہ مصدر جسے اہل زبان نے (مصدر ہی کے لئے) وضع کیا ہو۔ مثال: بونا ، جانا ، کہنا

مصدر غیر وضعی: مصدر جن میں دوسری زبانوں کے الفاظ پر علامت مصدر بڑھا کر مصدر بنا لیا گیا ہو جیسے دعا کرنا ، خوش ہونا ، ہٹ کرنا

مصدر لازم: وہ مصدر جو صرف فاعل کو چاہے مثال: سونا ، دوڑنا

مصدرمتعدی: وہ مصدر جو فاعل اور مفعول دونوں کو چاہے مثال: لکھنا ، کھانا

مصدری : مصدر سے منسوب ، اصل یا بنیاد کے متعلق

مصادر امور:The authorities or high functionaries of the State.

اسم مصدر:
Verbal noun having the nature of an infinitive

وجہ مصدری:
The infinitive mood

آزاد مصدر: اپنے استعمال کے حوالے سے حدود و قیود کی پابندی سے آزاد (چیز ، جگہ ، پراڈکٹ ، ۔ ۔ ۔)
جسے جو بھی جب بھی جیسے بھی جس طرح چاہے استعمال کر سکے۔ جو ہر کسی کے لئے ہو اور کسی کی فرد یا ادارے کی ملکیت سے آزاد۔

اگر کوئی صاحب یا صاحبہ اس سے بہتر تردیدی یا تائیدی وضاحت کر دیں تو ان کے لئے تشکر۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عربی حروف تھجی :

یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ ماہرین (زبان و قواعد عربی) حروف الفبا یا عربی حروف تھجی کی تعداد پر متحد نہیں ہیں ، چلئے ہم اپنی گنتی شروع کر دیتے ہیں:

ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک ل م ن و ہ ء ئ

تو یہ کل تعداد ہوئی 29 ، پس کچھ ماہرین کی رائے میں عربی حروف تھجی میں الف (ا) اور ہمزہ (ء) دو الگ اور جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا حروف کی تعداد کو 29 تک پہنچاتے ہیں جبکہ کچھ اور ماہرین الف (ا) اور ہمزہ (ء) کو ایک ہی حرف کی حیثیت دے کر 28 حروف تھجی کے قائل ہیں۔ اب اگر ہماری ہمدردی ماہرین کے پہلے گروہ سے ہے تو حروف کی تعداد 29 ہے ورنہ یہ تعداد 28 سے آگے نہیں بڑھ سکتی ۔

حروف شمسی و حروف قمری: تمام حروف تھجی دو دستوں میں منقسم ہیں ان میں سے چودہ (چہاردہ) حروف تھجی حروف شمسی کہلاتے ہیں جو عبارت ہیں:

ت ث د ذ ر ز س ش ص ض ط ظ ل ن
اور رہ جانے والی باقی تعداد حروف قمری کہلاتی ہے جو عبارت ہیں:

ا ب ج ح خ ع غ ف ق ک م و ہ ی

(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مشق:

اَلشَّمس ۔ اَلقَمر ۔ الفطر ۔ النجم

مندرجہ بالا کلمات میں ہر کلمہ میں ال کے بعد آنے والا حرف یا شمسی ہے یا قمری ۔ ان تمام کلمات کا تلفظ ادا کرنے پر حروفِ شمسی و قمری کے مابین جو فرق ہے وہ واضح ہو جاتا ہے ۔

سوال:

کیا آپ وہ فرق بتا سکتے ہیں؟

(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عربی میں اسم کی ایک پہچان یہ ہے کہ ال اس کی ابتدا میں آتا ہے اور خود اسم جس حرف سے شروع ہو وہ حرف یا تو شمسی ہوگا یا قمری، پس ال جب کسی اسم کی ابتدا میں آئے اور اس اسم کی ابتدا حرف شمسی سے ہو تو لام (ل) کا تلفظ ادا نہیں ہوتا اور حرف شمسی مشدد (تشدید کے ساتھ ) ہوجاتا ہے ۔ مثال:

ألْشَمْس ، ألْزَھْرَاء ، أَلنَجْم

اور اگر ابتدائی حرف قمری ہو تو تلفظ کی ادائیگی میں ل ساکن ہوجاتا ہے اور حرف قمری مشدد نہیں ہوتا۔ مثال:

أَ لْقَمر ۔ أَلْعِلم


نبیل بھائی ، آپکا جواب درست ہے ، لام (ل) حرفِ شمسی کے ساتھ ہو یا حرفِ قمری ، دونوں صورتوں میں ساکن ہوتا ہے تاہم اول الذکر میں ل کا تلفظ ادا نہیں ہوتا حرفِ شمسی کے الف (ا) کے ساتھ مشدد ہونے کی وجہ سے ، جبکہ موخرالذکر میں ل کا تلفظ حالت ِ سکون میں ادا کیا جاتا ہے ۔

(جاری ۔ ۔ ۔)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
الف (ا) :
۔ نہ تو حروف شمسی میں شامل ہے اور نہ ہی حروف قمری میں ۔
۔ کبھی بھی کسی بھی کلمے کے شروع میں نہیں آتا یعنی کسی بھی کلمے کی ابتدا الف سے نہیں ہوتی بلکہ صرف کلمے کے درمیان یا پھر آخر میں ہی آتا ہے ۔
۔ کچھ عربی الفاظ ایسے ہیں کہ جن کے آخر میں الف کو " ی " کی صورت میں لکھا جاتا ہے، مثال:
موسی ، لیلی ، یحیی

(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اُردو اور فارسی حروف تہجی کے لحاظ سے دیکھیں تو کچھ حروف عربی میں موجود نہیں ہیں یعنی
پ ۔ چ ۔ ژ ۔ گ ۔ ڈ ۔ ڑ ۔ ٹ
پس جب بھی کوئی غیر عربی کلمہ جس میں یہ حروف موجود ہوں جب عربی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ حروف عربی میں مماثلت رکھنے والے حروف سے تبدیل ہوجاتے ہیں لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ
چین = صین
گوہر = جوھر
پاکستان = الباکستان
میں چ ، گ ، پ بالترتیب ص ، ج اور ب سے بدل جاتے ہیں


(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

فرید احمد

محفلین
محترمہ سیدہ اور نبیل صاحب
السلام علیکم
میرے پاس امپیج میں ترتیب دی ہوئی ایک لغت اردو عربی ہے ،
ہمارے بچوں کے لیے میں اور میرے دو دوستوں (1) مفتی ابو بکر پالنپوری صاحب ( جو اصل مرتب ہیں، (2) مفتی اسجد دیولوی صاحب نے تیار کی تھی ۔اس میں چونکہم اعراب ہر لفظ پر ہے، اس لیے اس کو یونیکوڈ میں ڈھالنا میرے لیے مشکل ہو رہا ہے ، کوئی طریقہ بتائیں ،
یا اس کو میں آپ کے حوالہ کر دوں ۔
اس میں درج موضوعات پر مشتمل ہزاروں الفاظ ہے ۔
اشیائےخوردنی
الیکٹرونک اور بجلی کےسامان کی دکان
انسان کےمختلف حالات
انسانی جسم
اوصاف
اوقات
آفس کےلوازمات
آگ
باورچی خانہ
برائیاں
بڑھئی کےاوزار
بیماریاں
بینک
پالتو پرندی
پالتوجانور
پانی اور اس کےذرائع
پھول
پیشی
تعمیری سازوسامان
جنگلی پرندی
جنگلی جانور
جنگی سامان
حکومتیں اورشعبی
خوبیاں
درخت اور اس کےحصی
دریائی جانور
دکانیں
دنیا
رنگ
زمینی سفر
زیورات اور گہنی
سال کےمہینی
سبزیاں اور دانی
سفر
سکےاور تجارتی اصطلاحات
سلائی کےمتعلق اشیائ
سمندری سفر
شہر
غسل خانہ
فائر بریگیڈاورطبی خدمات
فٹ بال
فیملی(خاندان)
قانون
کرکٹ کا کھیل
کیڑےاور رینگنےوالےجانور
گاوں
گنتی
گھر کےمشمولات
گھڑی
لباس
مزےکی قسمیں
مسالی
مشروبات
معدنیات
میوی
نقائص
ٹرین کا سفر
ٹیلی فون
ڈاک خانہ
ہسپتال
ہفتہ کےدن
ہوائی جہاز کا سفر
ہوٹل (گیسٹ ہاوس)
سلام
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کوی
اس حوالے سے نبیل بھائی بہتر رہنما ہیں ۔
میرے خیال میں اس لغت سے استفادہ کیا جاسکتا ہے بالخصوص مکالمہ کے لئے اگر چہ عربی مکالمہ میرا میدان نہیں لیکن آپ نے جو موضوعات درج کئیے ہیں وہ دلچسپ ہیں ، کیا اس لغت میں ضرب الامثال بھی دی گئی ہیں یا صرف الفاظ ہیں یا کیا صورت ہے ؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
( حرف ، کلمہ ، کلام )


حروف تہجی میں ہر حرف کا اپنا الگ نام اور رسم یا علامت ہوتی ہے ۔

نام :

الف ۔ باء ۔ تاء ۔ ثاء ۔ جیم ۔ حاء ۔ خاء ۔ دال ۔ ذال ۔ راء ۔ زاء ۔ سین ۔ شین ۔ صاد ۔ ضاد ۔ طاء ۔ ظاء ۔ عین ۔ غین ۔ فاء ۔ قاف ۔ کاف ۔ لام ۔ میم ۔ نون ۔ واو ۔ ھاء ۔ یاء ۔ ھمزہ


رسم (علامت) :

حروف کی علامت یا رسم کی بات کریں تو یہ دو طرح سے ہے
* رسمِ افرادی
* رسمِ ترکیبی

رسمِ افرادی یوں ہے:

ا ۔ ب ۔ ت ۔ ث ۔ ج ۔ ح ۔ خ ۔ د ۔ ذ ۔ ر ۔ ز ۔ س ۔ ش ۔ ص ۔ ض ۔ ط ۔ ظ ۔ ع ۔ غ ۔ ف ۔ ق ۔ ک ۔ ل ۔ م ۔ ن ۔ و ۔ ہ ۔ ی ۔ ء

حروف کو ان کی الگ الگ صُورت (رسم) میں " مُفردۃ " تنہا تنہا اور " مقطعہ * " جدا جدا کہا جاتا ہے۔

جہاں تک ان حروف کی رسمِ ترکیبی کا ذکر ہے تو رسمِ ترکیبی مختلف قواعد سے عبارت ہے جو ہم تعلیمی اداروں میں سیکھتے ہیں ۔ ان قواعد کو " قواعدِ رسم الخط " یا " علمِ کتابت " کہا جاتا ہے ۔

عربی رسم الخط کی بات ہو تو ہمیں متعدد رسوم الخط ملتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک جداگانہ قواعد پر مشتمل ہے ۔

سوال:

* کیا آپ چند یا کسی ایک رسم الخط کا نام بتا سکتے ہیں ؟

* کیا آپ جانتے ہیں وہ کون سا رسم الخط ہے جو حضرت علی علیہ السلام نے ایجاد کیا ؟
* اور کیا آپ جانتے ہیں اس خط کی خاص بات کیا ہے ؟

(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
* حروفِ مُقطعہ :

حرفِ مقطعہ کے اپنے کوئی معنی نہیں ہوتے یعنی اہلِ لُغت نے ان حروف کے جدا جدا معانی معین نہیں کئے کہ اگر کوئی فرد ان کو ادا کرے تو دوسرے تک مطلب پہنچ جائے البتہ یہ ممکن ہے کا افراد کا کوئی گروہ ان حروف میں سے کسی بھی حرف کو اپنے طور پر کسی خاص معنی یا مفہوم (code) کی صورت میں استعمال کرے اس صورت میں وہ حرف یا حروفِ مقطعات با معنی ہوں گے ۔

حروفِ مُقطعات کی مثال ہمیں قرآن پاک میں شامل بعض سُورہ کی ابتدا میں بھی ملتی ہے ۔

(جاری ۔ ۔ ۔ )
 
سیدہ شگفتہ نے کہا:
( حرف ، کلمہ ، کلام )


حروف تہجی میں ہر حرف کا اپنا الگ نام اور رسم یا علامت ہوتی ہے ۔

نام :

الف ۔ باء ۔ تاء ۔ ثاء ۔ جیم ۔ حاء ۔ خاء ۔ دال ۔ ذال ۔ راء ۔ زاء ۔ سین ۔ شین ۔ صاد ۔ ضاد ۔ طاء ۔ ظاء ۔ عین ۔ غین ۔ فاء ۔ قاف ۔ کاف ۔ لام ۔ میم ۔ نون ۔ واو ۔ ھاء ۔ یاء ۔ ھمزہ


رسم (علامت) :

حروف کی علامت یا رسم کی بات کریں تو یہ دو طرح سے ہے
* رسمِ افرادی
* رسمِ ترکیبی

رسمِ افرادی یوں ہے:

ا ۔ ب ۔ ت ۔ ث ۔ ج ۔ ح ۔ خ ۔ د ۔ ذ ۔ ر ۔ ز ۔ س ۔ ش ۔ ص ۔ ض ۔ ط ۔ ظ ۔ ع ۔ غ ۔ ف ۔ ق ۔ ک ۔ ل ۔ م ۔ ن ۔ و ۔ ہ ۔ ی ۔ ء

حروف کو ان کی الگ الگ صُورت (رسم) میں " مُفردۃ " تنہا تنہا اور " مقطعہ * " جدا جدا کہا جاتا ہے۔

جہاں تک ان حروف کی رسمِ ترکیبی کا ذکر ہے تو رسمِ ترکیبی مختلف قواعد سے عبارت ہے جو ہم تعلیمی اداروں میں سیکھتے ہیں ۔ ان قواعد کو " قواعدِ رسم الخط " یا " علمِ کتابت " کہا جاتا ہے ۔

عربی رسم الخط کی بات ہو تو ہمیں متعدد رسوم الخط ملتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک جداگانہ قواعد پر مشتمل ہے ۔

سوال:

* کیا آپ چند یا کسی ایک رسم الخط کا نام بتا سکتے ہیں ؟

* کیا آپ جانتے ہیں وہ کون سا رسم الخط ہے جو حضرت علی علیہ السلام نے ایجاد کیا ؟
* اور کیا آپ جانتے ہیں اس خط کی خاص بات کیا ہے ؟

(جاری ۔ ۔ ۔ )

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے حضرت علی نے صرف و نحو کے قوانین مرتب کیے تھے عربی زبان کے لیے۔ تصیح کے لیے منتظر ہوں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
محب علوی

میری یادداشت میں بھی یہی ہے کہ حضرت علی نے صرف و نحو کے قوانین مرتب کئے تھے ۔ کیا آپ اس حوالے سے باقاعدہ کسی ماخذ کی نشاندہی کرسکتے ہیں ؟

شکریہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سیدہ شگفتہ نے کہا:
سوال:
* کیا آپ جانتے ہیں وہ کون سا رسم الخط ہے جو حضرت علی علیہ السلام نے ایجاد کیا ؟
* اور کیا آپ جانتے ہیں اس خط کی خاص بات کیا ہے ؟

روایات کی رُو سے خطِ کُوفی کی تخلیق حضرت علی سے منسوب ہے اور اس خط کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں نقاط شامل نہیں ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
(حرکت ، سکون ، تنوین ، ضوابط)​


کوئی بھی کلمہ ہو اس کی ادائیگی (تلفظ کی ادائیگی) کس طرح ہوگی اس کے لئے حرکت ، سکون ، تنوین ، اور ضوابط مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔

حرکت :

کلمے کی ادائیگی میں حرکت کا کردار سب سے پہلے ہے ۔ حرکت کی تین اقسام ہیں :

* پیش
* زبر
* زیر

پیش :

عربی میں پیش کو " ضمہ " کہتے ہیں اور اس کی علامت ( ُ ) ہے ۔ پیش کی علامت حرف کے اُوپر لگائی جاتی ہے مثال: بُ

(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
زبر :
عربی میں زبر کو " فتحہ " کہا جاتا ہے اور اس کی علامت ( َ ) ہے ۔
پیش کی مانند زبر کی علامت بھی حرف کے اُوپر لگائی جاتی ہے مثال : بَ

زیر :
عربی میں زیر کو " کسرہ " کہا جاتا ہے اور اس کی علامت ( ِ ) ہے۔ زیر کی علامت کسی بھی حرف کے نیچے لگائی جاتی ہے ۔ مثال: بِ

کسی حرف پر حرکت کی موجودگی سے اس حرف کی حالت کا تعین ہوتا ہے پس

حرف ضمہ دار (وہ حرف جس پر ضمہ موجود ہو ) مضموم کہلاتا ہے۔

حرف فتحہ دار (وہ حرف جس پر زبر موجود ہو ) مفتوح کہلاتا ہے ۔

اور حرف کسرہ دار (وہ حرف جس کے نیچے زیر موجود ہو) مکسور کہلایا جائے گا۔

اور اب یہ بات بھی واضح ہے کہ حرف حرکت دار مُتحرک کہلائے گا ۔



(جاری ۔ ۔ ۔)
 

فرید احمد

محفلین
میں نے کہیں یہ پڑھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ کے کہنے سے جناب حضرت ابوالاسود دئلی نے نحو کے قوانین مرتب کیے ،
انشاء اللہ ایک دو دن میں حوالہ تلاش کر دوںگا ۔
 
Top