ماہی احمد
لائبریرین
مُحبت اور خواہش میں کئی بے نام رشتے ہیں
مگر جو غور سے دیکھیں
تو دونوں میں بُہت سے فاصلے بھی اِس طرح موجود ہیں جیسے
سمندر ایک ہوتا ہے،
مگر اُس کے کنارے ایک دوجے سے سراسر
اجنبی اور مُختلف رستوں کو چُھوتے ہیں
سو ایسا ہے ،
سمے کے اس سمندر میں
جہاں ہر شے بدلتی ہے
وہاں ہم تُم بھی بدلے ہیں( بدلنا تھا)
کہ رشتے بھی ہمارے عکس کی صورت
بُہت آہستگی سے کروٹ بدلتے ہیں
بسا اوقات بسترپر پڑی چادر پہ سلوٹ تک نہیں پڑتی
نہ آنکھوں میں سفر کرتے پُرانے رنگ ہی تبدیل ہوتے ہیں
نہ باتوں کے تسلسل میں کوئی دیوار آتی ہے
بس اتنا ہے
کہ خواہش کی بند مُٹھی سے وہ ریت سی پَل پَل
پِھسلتی ہے ، اُسی کے بیچ میں شاید وہ جذبہ بھی کہیں ہوتا ہے ،
جسے پیار کہتے ہیں
محبت نام ہے جس کا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
ہمیں خود اپنے ہاتھوں سے پِھسلتی ریت کی
ریزش کا اندازہ نہیں ہوتا
مگر وہ گِرتی رہتی ہے
کبھی ہم اُس کو پھر سے جمع کرنے اور اُٹھانے کے لیئے
کوشش بھی کرتے ہیں
مگر دِن رات سرکش ہوائیں
اِس قدر مٹّی اُڑاتی ہیں کہ کُچھ بھی ہو نہیں پاتا
یہ دِل فریاد تو کرتا ہے لیکن رو نہیں پاتا
تو وہ آنسو
کہ جِن کو اِس پھسلتی ریت میں بِکھری مُحبت کو
دوبارہ زندگی دینا تھا ، شاداب کرنا تھا
نہیں بہتے !
وہی آنکھیں کہ جن میں ہر گھڑی شمعیں سی جلتی تھیں
اُنہی چہروں پہ ہوتی ہیں مگر اُن میں
مُحبت اور تعلق کی پُرانی لو نہیں ہوتی ۔
زمانہ اُن کے اندر سے گُزر کر خود تو جانے کِس طرف جاتا،
کہاں بسرام کرتا ہے
مگر اُس کے غُبارِ راہ میں اُلجھے ہوئے رستے
کئی چہرے بدلتے ہیں
مُحبت کرنے والے شخص اور اُن کی مُحبت بھی
بدلتے وقت کی یلغار سے بچنے کی خاطر اِک
نئی صورت میں ڈھلتے ہیں
وفا ہارے ہوئے میدان سے جو پرچم اُٹھاتی ہے
اُنھیں لشکر نہیں مِلتا
گُزرتے وقت کے آشوب میں چہرہ بدلتا ہے
تو پھر پیکر نہیں ملتا..!
سو جانِ جاں! اگر ہم تُم !!!
بدلتے وقت کی اِس تیز آندھی میں ابھی تک ایک ہیں
اور ایک دوجے کے لیئے بے چین رہتے ہیں
تو شاید بخت کی خوبی ، ہماری خوش نصیبی ہے
کہ ہم دونوں ، گُزرتے وقت کی سر کش روانی میں
بہے ۔ بھٹکے تو ہیں لیکن
ہمارے ساحلوں کا رُخ نہیں بدلا
یہ حُسنِ اتّفاق ایسا ہے جو قسمت سے مِلتا ہے
بُہت کڑوا سہی لیکن یہی سب سے بڑا سچ ہے
کہ جو لمحہ گُزر جائے
( وہ کتنا بھی مقدس ، قیمتی یا خوبصورت ہو!)
کبھی واپس نہیں آتا،
مُحبت اور خواہش اور اِن کے درمیاں پھیلے ہوئے
بے نام رشتے بھی اُنہی چیزوں میں شامل ہیں
جنھیں یہ وقت کا دریا
ہمارے چاہنے ، نا چاہنے سے بے نیاز و بے خبر ہو کر
پُرانی ڈائری ، پِچھلے کیلنڈر کی طرح تبدیل کرتا ہے
اِس اِک معجزہ کہیئے !!
کہ خواہش کے سفر میں ہم نے جتنے موڑ کاٹے
جِس قدر ہوار بدلے ہیں ِ ،
وہ سب اِک ساتھ بدلے ہیں،
نہ گرتی ریت بدلی ہے نہ اپنے ہاتھ بدلے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اِسے ایک معجزہ کہیئے!
https://www.facebook.com/photo.php?...41833.100000964595101&type=1&relevant_count=1
مگر جو غور سے دیکھیں
تو دونوں میں بُہت سے فاصلے بھی اِس طرح موجود ہیں جیسے
سمندر ایک ہوتا ہے،
مگر اُس کے کنارے ایک دوجے سے سراسر
اجنبی اور مُختلف رستوں کو چُھوتے ہیں
سو ایسا ہے ،
سمے کے اس سمندر میں
جہاں ہر شے بدلتی ہے
وہاں ہم تُم بھی بدلے ہیں( بدلنا تھا)
کہ رشتے بھی ہمارے عکس کی صورت
بُہت آہستگی سے کروٹ بدلتے ہیں
بسا اوقات بسترپر پڑی چادر پہ سلوٹ تک نہیں پڑتی
نہ آنکھوں میں سفر کرتے پُرانے رنگ ہی تبدیل ہوتے ہیں
نہ باتوں کے تسلسل میں کوئی دیوار آتی ہے
بس اتنا ہے
کہ خواہش کی بند مُٹھی سے وہ ریت سی پَل پَل
پِھسلتی ہے ، اُسی کے بیچ میں شاید وہ جذبہ بھی کہیں ہوتا ہے ،
جسے پیار کہتے ہیں
محبت نام ہے جس کا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
ہمیں خود اپنے ہاتھوں سے پِھسلتی ریت کی
ریزش کا اندازہ نہیں ہوتا
مگر وہ گِرتی رہتی ہے
کبھی ہم اُس کو پھر سے جمع کرنے اور اُٹھانے کے لیئے
کوشش بھی کرتے ہیں
مگر دِن رات سرکش ہوائیں
اِس قدر مٹّی اُڑاتی ہیں کہ کُچھ بھی ہو نہیں پاتا
یہ دِل فریاد تو کرتا ہے لیکن رو نہیں پاتا
تو وہ آنسو
کہ جِن کو اِس پھسلتی ریت میں بِکھری مُحبت کو
دوبارہ زندگی دینا تھا ، شاداب کرنا تھا
نہیں بہتے !
وہی آنکھیں کہ جن میں ہر گھڑی شمعیں سی جلتی تھیں
اُنہی چہروں پہ ہوتی ہیں مگر اُن میں
مُحبت اور تعلق کی پُرانی لو نہیں ہوتی ۔
زمانہ اُن کے اندر سے گُزر کر خود تو جانے کِس طرف جاتا،
کہاں بسرام کرتا ہے
مگر اُس کے غُبارِ راہ میں اُلجھے ہوئے رستے
کئی چہرے بدلتے ہیں
مُحبت کرنے والے شخص اور اُن کی مُحبت بھی
بدلتے وقت کی یلغار سے بچنے کی خاطر اِک
نئی صورت میں ڈھلتے ہیں
وفا ہارے ہوئے میدان سے جو پرچم اُٹھاتی ہے
اُنھیں لشکر نہیں مِلتا
گُزرتے وقت کے آشوب میں چہرہ بدلتا ہے
تو پھر پیکر نہیں ملتا..!
سو جانِ جاں! اگر ہم تُم !!!
بدلتے وقت کی اِس تیز آندھی میں ابھی تک ایک ہیں
اور ایک دوجے کے لیئے بے چین رہتے ہیں
تو شاید بخت کی خوبی ، ہماری خوش نصیبی ہے
کہ ہم دونوں ، گُزرتے وقت کی سر کش روانی میں
بہے ۔ بھٹکے تو ہیں لیکن
ہمارے ساحلوں کا رُخ نہیں بدلا
یہ حُسنِ اتّفاق ایسا ہے جو قسمت سے مِلتا ہے
بُہت کڑوا سہی لیکن یہی سب سے بڑا سچ ہے
کہ جو لمحہ گُزر جائے
( وہ کتنا بھی مقدس ، قیمتی یا خوبصورت ہو!)
کبھی واپس نہیں آتا،
مُحبت اور خواہش اور اِن کے درمیاں پھیلے ہوئے
بے نام رشتے بھی اُنہی چیزوں میں شامل ہیں
جنھیں یہ وقت کا دریا
ہمارے چاہنے ، نا چاہنے سے بے نیاز و بے خبر ہو کر
پُرانی ڈائری ، پِچھلے کیلنڈر کی طرح تبدیل کرتا ہے
اِس اِک معجزہ کہیئے !!
کہ خواہش کے سفر میں ہم نے جتنے موڑ کاٹے
جِس قدر ہوار بدلے ہیں ِ ،
وہ سب اِک ساتھ بدلے ہیں،
نہ گرتی ریت بدلی ہے نہ اپنے ہاتھ بدلے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اِسے ایک معجزہ کہیئے!
https://www.facebook.com/photo.php?...41833.100000964595101&type=1&relevant_count=1