معاشرہ اور عدم برداشت - ضیاء الرحمٰن ضیاء

محمداحمد

لائبریرین


عدم برداشت کی خامی گھروں سے ایوانوں تک ہر جگہ پھیل چکی ہے۔ (فوٹو: فائل)

عدم برداشت کی خامی گھروں سے ایوانوں تک ہر جگہ پھیل چکی ہے۔ (فوٹو: فائل)
ہمارے معاشرے میں عدم برداشت خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ گھروں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک رواداری کا شدید بحران پایا جاتا ہے۔ گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا معمول بن چکا ہے۔ معمولی باتوں پر خاندان ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں اور برسوں ایک دوسرے کی صورت دیکھنا پسند نہیں کرتے۔
اسی طرح اگر ٹریفک کے حالات دیکھیں وہاں بھی عدم برداشت بہت زیادہ ہے۔ جہاں ذرا سی بریک لگانے پر بھی لوگ اچھا خاصا تنازع کھڑا کر دیتے ہیں۔ کسی مزاحیہ اداکار نے کہا تھا کہ ’پاکستان میں دو گاڑیوں سے بھی ٹریفک جام ہوجاتی ہے، کسی گلی میں دونوں آمنے سامنے آجائیں تو دونوں ایک دوسرے کی ضد میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور ہر ایک دوسرے سے گاڑی ہٹانے کا مطالبہ کرتا رہتا ہے، یوں ٹریفک جام ہوجاتی ہے‘۔ پھر اگر کسی کی گاڑی دوسرے کی گاڑی سے ذرا سی ٹکرا جائے تو تب جو لڑائی ہوتی ہے وہ قابل دید ہوتی ہے۔ ہر ایک دوسرے پر سارا الزام لگا کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتا ہے، یوں جھگڑا طول پکڑ جاتا ہے۔ کسی تنگ جگہ میں گاڑی یا موٹر سائیکل داخل کرنا ہو تو وہاں جس طرح ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ بھی خاص طور پر دیدنی ہوتی ہے۔
ہماری سیاست میں جو عدم برداشت ہے اس کی تو مثال نہیں ملتی۔ سیاستدانوں نے سیاست میں عدم برداشت کے کلچر کو اس قدر فروغ دیا ہے کہ لوگوں نے سیاست دانوں کی باتوں میں آکر ایک دوسرے سے گفتگو تک ترک کردی ہے۔ سیاسی اختلافات کو لوگ گھروں تک لے آئے ہیں، جس کی وجہ سے رشتوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔

سوشل میڈیا کو سیاسی کارکنوں نے سیاسی اکھاڑا بنا رکھا ہے جس نے معاشرے میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ سوشل میڈیا کی کوئی بھی ویب سائٹ دیکھ لیجئے وہاں سیاسی جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ سیاسی کارکن ایک دوسرے کو گالیں دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نہایت غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے علاوہ بھی کسی محفل یا مجلس میں بیٹھے ہوں تو وہاں بھی سیاسی گفتگو چھیڑ لیتے ہیں۔ معلومات تو کسی کے پاس ہوتی نہیں، بس جو کچھ ادھر ادھر سے سنا صرف اس کی بنیاد پر آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ خود تو دوسروں کے رہنماؤں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن جب کوئی دوسرا ان کے لیڈرز کے بارے میں کچھ کہہ دے تو یہ لڑ پڑتے ہیں، ان سے اپنے لیڈروں کی گستاخی برداشت نہیں ہوتی خود چاہے دوسروں کو کچھ بھی کہتے رہیں۔

اسمبلیوں میں سیاستدانوں نے عدم برداشت کو بہت زیادہ فروغ دیا ہے۔ وہاں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے بس ایک دوسرے کی مخالفت کا ہی حلف لیا ہوا ہے۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا، دوسروں پر تنقید کرنا ان کا وتیرہ بن چکا ہے۔ مخالفین کو اسمبلیوں میں دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے، ایک دوسرے سے بات کرنا اور ہاتھ ملانا تو بہت دور کی بات ہے۔ مخالفین پر حملے کرانا اور تنقید کرنے والوں پر تشدد کرنے کی بھی ہمارے معاشرے میں ایک روایت موجود ہے جو عدم برداشت کی بدترین مثال ہے۔ پھر یہی عدم برداشت کا کلچر معاشرے میں سرائیت کرتا جارہا ہے، جس نے نوجوانوں پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

معاشرے میں امن و امان اور پرسکون زندگی کےلیے صبر و تحمل اور رواداری کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ اس کےلیے سیاستدانوں کی طرف دیکھنے کے بجائے معاشرے کے اہم طبقات کو خود ہی آگے بڑھنا ہوگا، جن میں علما اور اساتذہ سب سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ علمائے کرام منبر سے عوام کو اچھے اخلاق اور صبر و تحمل کا درس دیں اور اساتذہ کرام طلبا کو اخلاقیات کا درس دیں اور انہیں یہ باور کرائیں کہ معاشرہ کسی بھی طرح کے فتنے اور فسادات کا متحمل نہیں ہوسکتا، لہٰذا کسی بھی سیاسی لیڈر کی باتوں میں آکر آپس کے تعلقات خراب مت کریں۔ اس میں یہ خیال رکھا جائے کہ اساتذہ اور علمائے کرام کسی ایک سیاسی رہنما کا نام نہ لیں بلکہ سب کا برابری کی سطح پر تذکرہ کریں۔ اسی طرح معاشرے کے پڑھے لکھے نوجوان خود بھی تھوڑا سا سوچیں اور سیاسی رہنماؤں کی باتوں میں آنے کے بجائے خود ہی ہر چیز کا بغور جائزہ لے کر حقائق کے مطابق چلیں اور کسی بھی سیاسی رہنما کی اس حد تک تقلید مت کریں کہ اس کی ہر غلط بات بھی درست معلوم ہونے لگے۔ یوں معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی اور عدم برداشت کا خود خاتمہ کر سکتے ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین


عدم برداشت کی خامی گھروں سے ایوانوں تک ہر جگہ پھیل چکی ہے۔ (فوٹو: فائل)

عدم برداشت کی خامی گھروں سے ایوانوں تک ہر جگہ پھیل چکی ہے۔ (فوٹو: فائل)
ہمارے معاشرے میں عدم برداشت خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ گھروں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک رواداری کا شدید بحران پایا جاتا ہے۔ گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا معمول بن چکا ہے۔ معمولی باتوں پر خاندان ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں اور برسوں ایک دوسرے کی صورت دیکھنا پسند نہیں کرتے۔
اسی طرح اگر ٹریفک کے حالات دیکھیں وہاں بھی عدم برداشت بہت زیادہ ہے۔ جہاں ذرا سی بریک لگانے پر بھی لوگ اچھا خاصا تنازع کھڑا کر دیتے ہیں۔ کسی مزاحیہ اداکار نے کہا تھا کہ ’پاکستان میں دو گاڑیوں سے بھی ٹریفک جام ہوجاتی ہے، کسی گلی میں دونوں آمنے سامنے آجائیں تو دونوں ایک دوسرے کی ضد میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور ہر ایک دوسرے سے گاڑی ہٹانے کا مطالبہ کرتا رہتا ہے، یوں ٹریفک جام ہوجاتی ہے‘۔ پھر اگر کسی کی گاڑی دوسرے کی گاڑی سے ذرا سی ٹکرا جائے تو تب جو لڑائی ہوتی ہے وہ قابل دید ہوتی ہے۔ ہر ایک دوسرے پر سارا الزام لگا کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتا ہے، یوں جھگڑا طول پکڑ جاتا ہے۔ کسی تنگ جگہ میں گاڑی یا موٹر سائیکل داخل کرنا ہو تو وہاں جس طرح ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ بھی خاص طور پر دیدنی ہوتی ہے۔
ہماری سیاست میں جو عدم برداشت ہے اس کی تو مثال نہیں ملتی۔ سیاستدانوں نے سیاست میں عدم برداشت کے کلچر کو اس قدر فروغ دیا ہے کہ لوگوں نے سیاست دانوں کی باتوں میں آکر ایک دوسرے سے گفتگو تک ترک کردی ہے۔ سیاسی اختلافات کو لوگ گھروں تک لے آئے ہیں، جس کی وجہ سے رشتوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔

سوشل میڈیا کو سیاسی کارکنوں نے سیاسی اکھاڑا بنا رکھا ہے جس نے معاشرے میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ سوشل میڈیا کی کوئی بھی ویب سائٹ دیکھ لیجئے وہاں سیاسی جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ سیاسی کارکن ایک دوسرے کو گالیں دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نہایت غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے علاوہ بھی کسی محفل یا مجلس میں بیٹھے ہوں تو وہاں بھی سیاسی گفتگو چھیڑ لیتے ہیں۔ معلومات تو کسی کے پاس ہوتی نہیں، بس جو کچھ ادھر ادھر سے سنا صرف اس کی بنیاد پر آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ خود تو دوسروں کے رہنماؤں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن جب کوئی دوسرا ان کے لیڈرز کے بارے میں کچھ کہہ دے تو یہ لڑ پڑتے ہیں، ان سے اپنے لیڈروں کی گستاخی برداشت نہیں ہوتی خود چاہے دوسروں کو کچھ بھی کہتے رہیں۔

اسمبلیوں میں سیاستدانوں نے عدم برداشت کو بہت زیادہ فروغ دیا ہے۔ وہاں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے بس ایک دوسرے کی مخالفت کا ہی حلف لیا ہوا ہے۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا، دوسروں پر تنقید کرنا ان کا وتیرہ بن چکا ہے۔ مخالفین کو اسمبلیوں میں دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے، ایک دوسرے سے بات کرنا اور ہاتھ ملانا تو بہت دور کی بات ہے۔ مخالفین پر حملے کرانا اور تنقید کرنے والوں پر تشدد کرنے کی بھی ہمارے معاشرے میں ایک روایت موجود ہے جو عدم برداشت کی بدترین مثال ہے۔ پھر یہی عدم برداشت کا کلچر معاشرے میں سرائیت کرتا جارہا ہے، جس نے نوجوانوں پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

معاشرے میں امن و امان اور پرسکون زندگی کےلیے صبر و تحمل اور رواداری کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ اس کےلیے سیاستدانوں کی طرف دیکھنے کے بجائے معاشرے کے اہم طبقات کو خود ہی آگے بڑھنا ہوگا، جن میں علما اور اساتذہ سب سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ علمائے کرام منبر سے عوام کو اچھے اخلاق اور صبر و تحمل کا درس دیں اور اساتذہ کرام طلبا کو اخلاقیات کا درس دیں اور انہیں یہ باور کرائیں کہ معاشرہ کسی بھی طرح کے فتنے اور فسادات کا متحمل نہیں ہوسکتا، لہٰذا کسی بھی سیاسی لیڈر کی باتوں میں آکر آپس کے تعلقات خراب مت کریں۔ اس میں یہ خیال رکھا جائے کہ اساتذہ اور علمائے کرام کسی ایک سیاسی رہنما کا نام نہ لیں بلکہ سب کا برابری کی سطح پر تذکرہ کریں۔ اسی طرح معاشرے کے پڑھے لکھے نوجوان خود بھی تھوڑا سا سوچیں اور سیاسی رہنماؤں کی باتوں میں آنے کے بجائے خود ہی ہر چیز کا بغور جائزہ لے کر حقائق کے مطابق چلیں اور کسی بھی سیاسی رہنما کی اس حد تک تقلید مت کریں کہ اس کی ہر غلط بات بھی درست معلوم ہونے لگے۔ یوں معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی اور عدم برداشت کا خود خاتمہ کر سکتے ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز
دن میں کئی مرتبہ عدم برداشت دیکھنے اور کرنے کو ملتی ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اس میں یہ خیال رکھا جائے کہ اساتذہ اور علمائے کرام کسی ایک سیاسی رہنما کا نام نہ لیں بلکہ سب کا برابری کی سطح پر تذکرہ کریں۔
اس میں بھی ہر معتقد کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کا آقا باقی سب گیدڑوں جیسا نہیں ہے۔ وہی تو اصلی شیر، قائد اعظم کا جانشیں اور غرباء کو روٹی کپڑا اور مکان جیسی سہولیات دینے والا اور وہی ہی دین کا رکھوالا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اس میں یہ خیال رکھا جائے کہ اساتذہ اور علمائے کرام کسی ایک سیاسی رہنما کا نام نہ لیں بلکہ سب کا برابری کی سطح پر تذکرہ کریں۔

بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ سب کا برابری کی بنیاد پر رد کیا جائے۔ :)

تاکہ لوگ خام خیالی سے نکل سکیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اس میں بھی ہر معتقد کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کا آقا باقی سب گیدڑوں جیسا نہیں ہے۔ وہی تو اصلی شیر، قائد اعظم کا جانشیں اور غرباء کو روٹی کپڑا اور مکان جیسی سہولیات دینے والا اور وہی ہی دین کا رکھوالا ہے۔

ہر لیڈر کو اگر اُس کے اپنے فرمودات کی روشنی میں ہی تول لیا جائے تو سب کی قلعی کھل جائے گی۔ :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ سب کا برابری کی بنیاد پر رد کیا جائے۔ :)

تاکہ لوگ خام خیالی سے نکل سکیں۔
جو ہائی پوٹینسی انجکشن لگائے گئے ہیں ان کا اثر زائل ہونے میں بہت وقت اور عاقلوں کے لیے صبر درکار ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جو ہائی پوٹینسی انجکشن لگائے گئے ہیں ان کا اثر زائل ہونے میں بہت وقت اور عاقلوں کے لیے صبر درکار ہے۔

حقیقت بہت تلخ ہوتی ہے۔

شاید اسی لئے ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی کو اپنا مسیحا سمجھ کر بیٹھ جاتا ہے۔

بقول احمد ندیم قاسمی:

کس قدر قحطِ وفا ہے تیری دنیا میں ندیم
جو ذرا ہنس کے ملے اُس کو مسیحا سمجھوں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
سوشل میڈیا کو سیاسی کارکنوں نے سیاسی اکھاڑا بنا رکھا ہے جس نے معاشرے میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ سوشل میڈیا کی کوئی بھی ویب سائٹ دیکھ لیجئے وہاں سیاسی جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
میں نے اسی لیے اس آفت کے دور میں فیس بک سے مقاطعہ کر رکھا ہے۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
میں نے اسی لیے اس آفت کے دور میں فیس بک سے مقاطعہ کر رکھا ہے۔
بہت اچھا کیا جناب۔
میں نے اس کا ایک دوسرا حل کیا ہوا ہے اور وہ یہ تمام اُن دوستوں کو اپنی فرینڈ لسٹ سے ہٹا دیا ہے جو سیاست پر گفتگو کرتے ہیں۔ چاہے وہ کسی بھی سیاسی لیڈر پر بات کرنے والے ہوں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
میں نے اسی لیے اس آفت کے دور میں فیس بک سے مقاطعہ کر رکھا ہے۔

اچھی بات ہے!

لیکن اس سے بھی زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ اگر وقت میسر ہو تو گمراہ کن پوسٹس پر جا کر ایک بار کلمہء حق ضرور کہیں تاکہ بہاؤ میں بہنے والوں کو دوسرا پہلو بھی میسر آ سکے۔

تاہم یہ بہت مشکل کام ہے اور میں خود بھی نہیں کر پاتا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت اچھا کیا جناب۔
میں نے اس کا ایک دوسرا حل کیا ہوا ہے اور وہ یہ تمام اُن دوستوں کو اپنی فرینڈ لسٹ سے ہٹا دیا ہے جو سیاست پر گفتگو کرتے ہیں۔ چاہے وہ کسی بھی سیاسی لیڈر پر بات کرنے والے ہوں۔

یہ بھی اچھا طریقہ ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
حقیقت کو دیکھتے ہوئے بھی ہم آنکھیں بند کرکے اپنے لیڈر کو سر پر چڑھائے ہوتے ہیں۔
ہر گروپ نے خود کو دھوکے میں رکھنے کے لیے کچھ تجزیہ نگار اور صحافیوں کو مختص کیا اور پھر خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگے۔ کسی نیوٹرل (یہ "وہ" والا نیوٹرل نہیں ہے) کی بات سننے کے روادار نہیں ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ خوابِ خرگوش کا خون ہو جائے گا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اچھی بات ہے!

لیکن اس سے بھی زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ اگر وقت میسر ہو تو گمراہ کن پوسٹس پر جا کر ایک بار کلمہء حق ضرور کہیں تاکہ بہاؤ میں بہنے والوں کو دوسرا پہلو بھی میسر آ سکے۔

تاہم یہ بہت مشکل کام ہے اور میں خود بھی نہیں کر پاتا۔
مجاہد بننے کو جی تو چاہتا ہے۔ لیکن منہ ماری سے ڈر نہیں لگتا صاحب گالیوں سے لگتا ہے 😥
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
اچھی بات ہے!

لیکن اس سے بھی زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ اگر وقت میسر ہو تو گمراہ کن پوسٹس پر جا کر ایک بار کلمہء حق ضرور کہیں تاکہ بہاؤ میں بہنے والوں کو دوسرا پہلو بھی میسر آ سکے۔

تاہم یہ بہت مشکل کام ہے اور میں خود بھی نہیں کر پاتا۔
آپ چاہتے ہیں کہ ہم شہادت کے رُتبے پر فائز ہوجائیں۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ہر گروپ نے خود کو دھوکے میں رکھنے کے لیے کچھ تجزیہ نگار اور صحافیوں کو مختص کیا اور پھر خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگے۔ کسی نیوٹرل (یہ "وہ" والا نیوٹرل نہیں ہے) کی بات سننے کے روادار نہیں ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ خوابِ خرگوش کا خون ہو جائے گا۔
بالکل ایسا ہی ہے۔
 
Top