سعود الحسن
محفلین
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو
آج سے ٹھیک چالیس برس پہلے بیس دسمبر کو یحیی خان کی معزولی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صدر اور سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ یحیٰی سمیت کئی سینیئر جنرلز کو برطرف کردیا۔شیخ مجیب کو خصوصی فوجی عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت منسوخ کردی اور قوم سے نشریاتی خطاب میں وعدہ کیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ہتھیار ڈالنے کے زمہ داروں کے تعین کے لئے ایک آزادانہ کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔
چھبیس دسمبر کو حکومت نے چیف جسٹس حمود الرحمان ، جسٹس انوار الحق ، جسٹس طفیل علی عبدالرحمان اور لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ الطاف قادر پر مشتمل حمود الرحمان کمیشن بنایا جس نے تین سو سے زائد گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد پہلی رپورٹ انیس سو بہتر میں اور دوسری رپورٹ انیس سو چوہتر میں پیش کی۔
کھلی عدالت میں مقدمہ
کمیشن نے درج ذیل افسروں پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی مگر۔
جنرل یحییٰ خان
سقوطِ مشرقی پاکستان کے وقت وہ صدر، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، وزیرِ دفاع و خارجہ تھے۔ بھٹو حکومت نے انہیں گھر میں نظربند رکھا۔ جنرل ضیا الحق نے ان کی نظربندی ختم کردی۔ دس اگست انیس سو اسّی کو اپنے بھائی محمد علی کے گھر میں انتقال ہوا اور آرمی قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی۔
جنرل عبدالحمید خان
یحیٰی خان کے ڈپٹی کمانڈر انچیف اور ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے۔ بھٹو حکومت نے انہیں بیس دسمبر انیس سو اکہتر کو برطرف کردیا۔ حالتِ گمنامی میں لاہور کینٹ کے ایک گھر میں انتقال ہوا۔
لیفٹننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ
وہ صدر کے پرسنل سٹاف آفیسر اور ناک کا بال تھے۔ وہ بھٹو اور یحییٰ کے درمیان رابطے کا مبینہ پل سمجھے جاتے تھے۔ بیس دسمبر کو انہیں بھی عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ بعد ازاں تادمِ مرگ گوشہ نشین رہے۔
میجرجنرل گل حسن
سقوطِ ڈھاکہ کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف تھے۔ تاہم بھٹو حکومت نے انہیں برطرف کرنے کے بجائے لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کردیا۔ لگ بھگ ڈھائی ماہ بعد انہیں، ائرفورس کے سربراہ ائر مارشل رحیم خان اور نیوی کے سربراہ مظفر حسن کو ایک ساتھ برطرف کردیا گیا۔ اگرچہ کمیشن نے گل حسن پر بھی کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی تاہم بھٹو حکومت نے سروس سے برطرفی اور تمام مراعات و تمغے واپس لینے کے بعد انہیں آسٹریا میں سفیر مقرر کردیا۔
گل حسن پاکستان کے آخری کمانڈر انچیف تھے۔ ان کے بعد اس عہدے کو چیف آف آرمی سٹاف سے بدل دیا گیا۔ جنرل گل حسن کی یاداشتیں انیس سو ترانوے میں شائع ہوئیں۔ انہوں نے آخری زندگی پنڈی کلب کے دو کمروں میں گذار دی اور وہیں دس اکتوبر انیس سو ننانوے کو انتقال ہوا۔ مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔
میجر جنرل غلام عمر
وہ نیشنل سکیورٹی کونسل میں یحیٰی خان کے نائب تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے پاکستانی صنعت کاروں سے فنڈز جمع کیے۔ اس زمانے میں فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ بریگیڈیر ریٹائرڈ اے آر صدیقی کے بقول لگ بھگ دو کروڑ روپے جمع ہوئے۔ مگر الطاف گوہر کے ایک مضمون کے مطابق اٹھائیس لاکھ روپے دوست سیاسی قوتوں میں تقسیم کرنے کے لیے دیے گئے۔ اس رقم کو آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل اکبر خان اور راؤ فرمان علی کے توسط سے استعمال ہونا تھا۔ لیکن کیا ہوا کیا نہیں کسی کے پاس حتمی تفصیل نہیں۔ بھٹو حکومت نے غلام عمر کو بھی بیس دسمبر کو برطرف کیا اور کچھ عرصے نظربند رکھا۔ ضیاء الحق کے دور میں وہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے چیرمین رہے۔
میجر جنرل اے او مٹھا
بیس دسمبر کو جب جنرل گل حسن کی سفارش پر ان کی برطرفی ہوئی تو جنرل مٹھا فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں پچیس مارچ کے آپریشن سرچ لائٹ کی ٹکنیکل پلاننگ میں حصہ لیا۔ دسمبر انیس سو ننانوے میں لندن میں انتقال ہوا۔ بعد ازاں لندن سے ان کے دوست نے جنرل مٹھا کی بیوہ اندو مٹھا کو یہ جملے لکھے: ’اپنی شاندار زندگی کے آخری دنوں میں وہ صرف ایک ایسا کمرہ چاہتا تھا جس میں وہ کھا پی سکے، لکھ پڑھ سکے اور سو سکے اور چہل قدمی کے لئے ایسی جگہ بھی ہو جہاں سے وہ سامنے پھیلا سبز میدان اور دور پہاڑ دیکھ سکے۔‘
جنرل مٹھا نے ہی آرمی کے ایس ایس جی کمانڈو یونٹ کی بنیاد رکھی۔ انہیں آخری تعزیتی سلامی بھی ایس ایس جی کمانڈوز نے ہی دی۔ جنرل مٹھا نے اپنے پیچھے ایک کتاب چھوڑی ’ان لائکلی بگننگس۔اے سولجرز لائف، بمبئی سے جی ایچ کیو تک‘۔
لیفٹننٹ جنرل ارشاد احمد خان
اکہتر کی جنگ میں یہ ون کور کے کمانڈر تھے۔ جس کے کمانڈ ایریا میں کنٹرول لائن سے سیالکوٹ تک کا دفاع شامل تھا۔ کمیشن کی سماعت کے دوران الزام لگا کہ انہوں نے شکر گڑھ کے پانچ سو دیہات بلا مزاحمت دشمن کے حوالے کردیے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گمنام ہوگئے۔
میجر جنرل عابد زاہد ( کمانڈر پندرہ ڈویژن)
ان کے پاس سیالکوٹ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری تھی۔ الزام لگا کہ انہوں نے سیالکوٹ سیکٹر میں پھکلیا کے علاقے میں اٹھانوے گاؤں بغیر مزاحمت کے چھوڑ دیے اور جب جنگ بندی ہوئی تو بھارتی دستےمرالہ ہیڈورکس سے ڈیڑھ ہزار گز کے فاصلے پر تھے۔ مگر یہ راز میجر جنرل عابد زاہد جنگ بندی کے بعد ہی جی ایچ کیو کے علم میں لانے کی ہمت کرسکے۔
میجر جنرل بی ایم مصطفی ( کمانڈر اٹھارہ ڈویژن)
ان کا ٹارگٹ ایریا راجھستان سیکٹر تھا۔ ان پر الزام لگا کہ رام گڑھ کی جانب بغیر منصوبہ بندی کے عجلت میں پیش قدمی کے فیصلے سے بھاری نقصان ہوا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
بی بی سی اردو
آج سے ٹھیک چالیس برس پہلے بیس دسمبر کو یحیی خان کی معزولی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صدر اور سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ یحیٰی سمیت کئی سینیئر جنرلز کو برطرف کردیا۔شیخ مجیب کو خصوصی فوجی عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت منسوخ کردی اور قوم سے نشریاتی خطاب میں وعدہ کیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ہتھیار ڈالنے کے زمہ داروں کے تعین کے لئے ایک آزادانہ کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔
چھبیس دسمبر کو حکومت نے چیف جسٹس حمود الرحمان ، جسٹس انوار الحق ، جسٹس طفیل علی عبدالرحمان اور لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ الطاف قادر پر مشتمل حمود الرحمان کمیشن بنایا جس نے تین سو سے زائد گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد پہلی رپورٹ انیس سو بہتر میں اور دوسری رپورٹ انیس سو چوہتر میں پیش کی۔
کھلی عدالت میں مقدمہ
کمیشن نے درج ذیل افسروں پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی مگر۔
جنرل یحییٰ خان
سقوطِ مشرقی پاکستان کے وقت وہ صدر، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، وزیرِ دفاع و خارجہ تھے۔ بھٹو حکومت نے انہیں گھر میں نظربند رکھا۔ جنرل ضیا الحق نے ان کی نظربندی ختم کردی۔ دس اگست انیس سو اسّی کو اپنے بھائی محمد علی کے گھر میں انتقال ہوا اور آرمی قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی۔
جنرل عبدالحمید خان
یحیٰی خان کے ڈپٹی کمانڈر انچیف اور ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے۔ بھٹو حکومت نے انہیں بیس دسمبر انیس سو اکہتر کو برطرف کردیا۔ حالتِ گمنامی میں لاہور کینٹ کے ایک گھر میں انتقال ہوا۔
لیفٹننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ
وہ صدر کے پرسنل سٹاف آفیسر اور ناک کا بال تھے۔ وہ بھٹو اور یحییٰ کے درمیان رابطے کا مبینہ پل سمجھے جاتے تھے۔ بیس دسمبر کو انہیں بھی عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ بعد ازاں تادمِ مرگ گوشہ نشین رہے۔
میجرجنرل گل حسن
سقوطِ ڈھاکہ کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف تھے۔ تاہم بھٹو حکومت نے انہیں برطرف کرنے کے بجائے لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کردیا۔ لگ بھگ ڈھائی ماہ بعد انہیں، ائرفورس کے سربراہ ائر مارشل رحیم خان اور نیوی کے سربراہ مظفر حسن کو ایک ساتھ برطرف کردیا گیا۔ اگرچہ کمیشن نے گل حسن پر بھی کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی تاہم بھٹو حکومت نے سروس سے برطرفی اور تمام مراعات و تمغے واپس لینے کے بعد انہیں آسٹریا میں سفیر مقرر کردیا۔
گل حسن پاکستان کے آخری کمانڈر انچیف تھے۔ ان کے بعد اس عہدے کو چیف آف آرمی سٹاف سے بدل دیا گیا۔ جنرل گل حسن کی یاداشتیں انیس سو ترانوے میں شائع ہوئیں۔ انہوں نے آخری زندگی پنڈی کلب کے دو کمروں میں گذار دی اور وہیں دس اکتوبر انیس سو ننانوے کو انتقال ہوا۔ مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔
میجر جنرل غلام عمر
وہ نیشنل سکیورٹی کونسل میں یحیٰی خان کے نائب تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے پاکستانی صنعت کاروں سے فنڈز جمع کیے۔ اس زمانے میں فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ بریگیڈیر ریٹائرڈ اے آر صدیقی کے بقول لگ بھگ دو کروڑ روپے جمع ہوئے۔ مگر الطاف گوہر کے ایک مضمون کے مطابق اٹھائیس لاکھ روپے دوست سیاسی قوتوں میں تقسیم کرنے کے لیے دیے گئے۔ اس رقم کو آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل اکبر خان اور راؤ فرمان علی کے توسط سے استعمال ہونا تھا۔ لیکن کیا ہوا کیا نہیں کسی کے پاس حتمی تفصیل نہیں۔ بھٹو حکومت نے غلام عمر کو بھی بیس دسمبر کو برطرف کیا اور کچھ عرصے نظربند رکھا۔ ضیاء الحق کے دور میں وہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے چیرمین رہے۔
میجر جنرل اے او مٹھا
بیس دسمبر کو جب جنرل گل حسن کی سفارش پر ان کی برطرفی ہوئی تو جنرل مٹھا فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں پچیس مارچ کے آپریشن سرچ لائٹ کی ٹکنیکل پلاننگ میں حصہ لیا۔ دسمبر انیس سو ننانوے میں لندن میں انتقال ہوا۔ بعد ازاں لندن سے ان کے دوست نے جنرل مٹھا کی بیوہ اندو مٹھا کو یہ جملے لکھے: ’اپنی شاندار زندگی کے آخری دنوں میں وہ صرف ایک ایسا کمرہ چاہتا تھا جس میں وہ کھا پی سکے، لکھ پڑھ سکے اور سو سکے اور چہل قدمی کے لئے ایسی جگہ بھی ہو جہاں سے وہ سامنے پھیلا سبز میدان اور دور پہاڑ دیکھ سکے۔‘
جنرل مٹھا نے ہی آرمی کے ایس ایس جی کمانڈو یونٹ کی بنیاد رکھی۔ انہیں آخری تعزیتی سلامی بھی ایس ایس جی کمانڈوز نے ہی دی۔ جنرل مٹھا نے اپنے پیچھے ایک کتاب چھوڑی ’ان لائکلی بگننگس۔اے سولجرز لائف، بمبئی سے جی ایچ کیو تک‘۔
لیفٹننٹ جنرل ارشاد احمد خان
اکہتر کی جنگ میں یہ ون کور کے کمانڈر تھے۔ جس کے کمانڈ ایریا میں کنٹرول لائن سے سیالکوٹ تک کا دفاع شامل تھا۔ کمیشن کی سماعت کے دوران الزام لگا کہ انہوں نے شکر گڑھ کے پانچ سو دیہات بلا مزاحمت دشمن کے حوالے کردیے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گمنام ہوگئے۔
میجر جنرل عابد زاہد ( کمانڈر پندرہ ڈویژن)
ان کے پاس سیالکوٹ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری تھی۔ الزام لگا کہ انہوں نے سیالکوٹ سیکٹر میں پھکلیا کے علاقے میں اٹھانوے گاؤں بغیر مزاحمت کے چھوڑ دیے اور جب جنگ بندی ہوئی تو بھارتی دستےمرالہ ہیڈورکس سے ڈیڑھ ہزار گز کے فاصلے پر تھے۔ مگر یہ راز میجر جنرل عابد زاہد جنگ بندی کے بعد ہی جی ایچ کیو کے علم میں لانے کی ہمت کرسکے۔
میجر جنرل بی ایم مصطفی ( کمانڈر اٹھارہ ڈویژن)
ان کا ٹارگٹ ایریا راجھستان سیکٹر تھا۔ ان پر الزام لگا کہ رام گڑھ کی جانب بغیر منصوبہ بندی کے عجلت میں پیش قدمی کے فیصلے سے بھاری نقصان ہوا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔