مستنصر حسین تارڑ

نیلم

محفلین
کہا تو یہی جاتا ہے کہ ایک دوسرے کو کھلانے پلانے اور دعوتیں دینے سے آپس میں پیار محبت بڑھتا ہے لیکن میرا تجربہ ہے کہ پیار محبت کم اور وزن زیادہ بڑھتا ہے اور ان دنوں میرے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے ۔
لاہور کے پارکوں اور باغوں میں کھانے پینے کی رسم بے حد پرانی ہے مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب کبھی شدید گرمی کے بعد بادل امڈ امڈ کر آنے لگتے اور رم جھم پھوار پڑھنے لگتی تو میرے ماموں جان فوری طور پر اپنے دوست ابراہیم کو طلب کرتے کہ یار موسم بڑا ظالم ہورہا ہے کچھ کرو۔ ۔ ۔ ابراہیم صاحب فوری طور پر آموں کے دو ٹوکرے حاصل کرتے انہیں کپڑے دھونے والے ٹپ میں کم از کم ایک من برف میں دفن کرتے اور پھر اس ٹب کو کانوں سے پکڑ کر ایک ریڑھے پر رکھا جاتا اور ہم سب بھی ریڑھے پر سوار اور چل بھئی لارنس گارڈن۔ ۔ ۔
جن دنوں میں ان زمانوں کے لارنس گارڈن اور آج کے جناح باغ میں سیر کیا کرتا تھا تو وہاں ایک بہت گورا چٹے پہلوان آیا کرتے تھے وہ سیر تو کم ہی کرتے تھے البتہ اپنے پسندیدہ بنچ پر بیٹھ کر توندزیادہ کھجایا کرتے تھے ہر اتوار ان کی جانب سے دوستوں کے لئے ناشتے کا بندوبست ہوتا جس کا آغاز باداموں والے دودھ اور انجام بدہضمی پر ہوتا کہ یہ ایک خصوصی اور لاہوری ناشتہ ہوتا جس میں کلسٹرول کی مقدار خوراک سے زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کا ہماری صحت پر مضر اثر ہرگز نہ ہوتا کہ ان دنوں کلسٹرول دریافت نہیں ہوا تھا اور اگر دریافت ہی نہیں ہوا تھا تو بھلا وہ صحت کے لئے نقصان دہ کیسے ثابت ہوسکتا تھا یہ ایک سادہ فلسفہ ہے۔
ان دنوں ماڈل ٹاؤن پارک میں بھی ناشتے پہ ناشتے چل رہے ہیں اور ایسے پرتکلف کہ کھانے والے بعد میں چل ہی نہیں رہے ڈاکٹر کے بل البتہ چل رہے ہیں پارک میں سیر کرنے والوں کے مختلف گروپ ہیں جو عام طور پر ذرا الگ الگ رہتے ہیں اور بیٹھتے ہیں لیکن جس روز کہیں ناشتہ ہو تو باہم شیر وشکر ہو رہے ہوتے ہیں چاہے دعوت دی گئی ہو یا نہ دی گئی ہو بلکہ ایک دو حضرات بن بلائے آئیں گے آپ سے منہ چھپا کر متعدد پتھور ے کھائیں گے اور دبے پاؤں چلے جائیں گے۔
ہر گروپ کی اپنی اپنی ’’ آسامیاں‘‘ ہیں جن کے ساتھ ہر کوئی نہایت الفت سے پیش آتا ہے بلکہ اپنے شیخ ریاض جو اپنے آپ کو پارک کا تاحیات صدر ڈیکلئر کر چکے ہیں ناشتوں کے معاملوں میں اتنے فضول خرچ ہیں کہ ان کا شیخ ہونا مشکوک قرار دیا جارہا ہے شنید ہے کہ دوست احباب کہیں ناشتے کے لئے گئے جب بل ادا کرنے کا مرحلہ آیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ شیخ صاحب ندارد چنانچہ انہیں گھر سے لایاگیا کہ شیخ صاحب آپ کے بغیر نہ ناشتے کو دل چاہتا ہے اور نہ بل ادا کرنے کو ۔ ۔ ۔ ذرا عنائت کیجئے۔ ۔ ۔
اتوار کے روز ناشتہ نہ بھی ہو تو تقریباً ہر کوئی کچھ نہ کچھ اٹھائے چلا آرہا ہے حاجی صاحب باقاعدگی سے پستے کی برفی کا ایک ڈبہ لارہے ہیں قریشی صاحب مٹھائی اور نمکین کچھ نہ کچھ پیش کر رہے ہیں ایک روز مسعود بھٹی صاحب نے ملازم کے ہاتھوں بازار حسن کا کوئی خاص تابڑ توڑ حلوہ منگوایا جسے کھانے کے بعد اکثر بابا حضرات’’ ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ گنگنانے لگے کوئی خاص ہی تاثیر تھی اس حلوے کی یہ بھٹی صاحب بھی کھلانے پلانے کے بے حد شوقین ہیں اگر چہ شوگر کے مریض ہیں لیکن میٹھا کھانے سے قطعی گریز نہیں کرتے کہتے ہیں کوئی بات نہیں انسولین کا ایک اور ٹیکہ لگالیں گے ۔

ناشتے پہ ناشتہ از مستنصر حسین تارڑ
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
رات کی ملازمت کے دوران تو میں خود بھی بہت عرصہ صبح صبح نماز کے وقت پرانی گوالمنڈی جا کر ناشتہ کرتا رہا ہوں۔۔۔ :)
 

نایاب

لائبریرین
تو ناشتہ کر لیں :D
بہت شکریہ بھائی

بہنا میری یہاں نہ تو باداموں والا دودھ ملتا ہے نہ ہی پتھورے ۔۔۔۔۔۔۔۔
نیں ریسا شہر لہور دیاں
پیٹھے میں دال ماش ملا کر پکائی ہے وہ کھا رہا ہوں ۔۔۔ اور پاکستان کو یاد کر رہا ہوں ۔۔۔
 

نیلم

محفلین
بہنا میری یہاں نہ تو باداموں والا دودھ ملتا ہے نہ ہی پتھورے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
نیں ریسا شہر لہور دیاں
پیٹھے میں دال ماش ملا کر پکائی ہے وہ کھا رہا ہوں ۔۔۔ اور پاکستان کو یاد کر رہا ہوں ۔۔۔
کوئی بات نہیں بھائی جو مل رہا ہے وہ بھی نعمت ہے ۔
پاکستان کو تو یاد کرنا بنتا ہے نا پھر جب خود سے سارے کام کرنے پڑتے ہیں :D
 
Top