مستنصر حسین تارڑ کا کشکول

یوسف-2

محفلین
ہمارے ہاں رقص اور موسیقی ہمیشہ متنازع رہے ہیں، یعنی برصغیر کے مسلمانوں میں ورنہ دیگر مسلم ممالک کو اس سلسلے میں کوئی پرابلم نہیں ہے۔۔۔ شاید اس لئے کہ ہندوؤں میں رقص اور موسیقی کو مقدس گردانا گیا ہے کہ ان کے بیشتر دیوتا اور دیویاں نہایت ماہر رقاص ہیں اور مہاراج کرشن تو ہمیشہ بانسری بجاتے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ اپنے آپ کو ایک الگ تشخص دینے کی خاطر ان قبیح رسوم سے ہمیشہ اجتناب کیا گیا۔۔۔ اگر بہت ہی لبرل ہو گئے تو دَف اور بانسری کو بادل نخواستہ قبول کر لیا گیا کہ رسول اللہؐ کی یثرب میں آمد پر جو خوش آمدیدی گیت گائے گئے وہ دَف اور بانسری کی لَے پر گائے گئے۔۔۔ اور اُن دنوں یہی ساز عرب میں مقبول تھے حالانکہ تکنیکی طور پر پرکھا جائے تو ’’دَف، ڈھول یا جدید ڈرمز کی ہی ایک شکل ہے۔۔۔ اُن دنوں ظاہر ہے گٹا ر ایجاد نہ ہوئی تھی، بانسری بھی ایک نوعیت کی وائلن وغیرہ ہی تھی۔۔۔ ایک روایت ہے کہ امیر خسروؒ نے نظام الدین اولیاء ؒ سے کہا تھا کہ مُرشد ہندوستان کے مسلمانوں کو بہرطور موسیقی درکار ہے تو ان کی تشفی کے لئے اگر قوالی ایجاد کر لی جائے تو کیا مضائقہ ہے۔۔۔ ازاں بعد بزرگوں کے ایک سلسلے نے موسیقی کو سماع کی شکل میں جائز قرار دیا جبکہ فریق مخالف نے اس سے اجتناب کیا۔ اس طور کہا گیا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے اندر جو بُت پرست پوشید تھا اُس کی تشفی نہ ہوتی تھی کہ آخر سامنے کوئی ہو جس سے مانگا جائے، کوئی شکل کوئی صورت تو ہو جس سے مخاطب ہو کر انسان اپنی خواہشوں کا اظہار کرے، یوں قبر پرستی کا آغاز ہوا۔۔۔ مجھے جتنے بھی مسلمان ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے میں نے کہیں بھی لوگوں کو بزرگان دین کی قبروں پر حاضر ہو کر اُن سے کچھ مانگتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ورنہ ہمارے ہاں کی نسبت بقیہ مسلم ممالک میں کیسے کیسے عظیم المرتبت بزرگؒ اور صحابیؒ دفن ہیں اور کوئی ان کی قبروں کو نہ چومتا ہے نہ سجدہ ریز ہوتا ہے اور نہ ہی کچھ مانگتا ہے۔۔۔ جو کچھ مانگنا ہے براہ راست اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہے۔۔۔ استنبول میں رسول اللہؐ کے یثرب میں میزبان۔۔۔ جن کے گھر کے سامنے قصویٰ نے گھٹنے ٹیک دیئے تھے اور یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فیصلہ کیا گیا تھا کہ قصویٰ نے دو تین چکر لگا کر، رُک کر، پھر سے چلتے چلتے حضرت ایوب انصاری کے گھر کے سامنے ہی ٹھہرنا ہے۔۔۔ اللہ اللہ مجھ ایسے تو ایک ایسے شخص کے قدموں کی دھول بھی اپنی آنکھوں میں لگانے کے لائق نہیں ہیں جس نے رسول اللہؐ کی میزبانی کی۔۔۔ یقیناًایوب انصاریؓ نے آگے بڑھ کر میرے پیغمبرؓ، کا ہاتھ تھاما ہو گا، اُن کے سراپے کو آنکھوں میں اتارا ہو گا، ان کے بدن کی مہک کو محسوس کیا ہو گا تو ایسے خوش بخت کے مزار پر استنبول میں، میں نے کسی کو اُن سے کچھ مانگتے نہ دیکھا، فاتحہ پڑھتے اُن سے محبت کرتے، مزار کے احاطے میں پکنک مناتے تُرکوں کو دیکھا۔۔۔ سب جانتے ہیں کہ حضرت ایوب انصاریؓ اس مہم میں شامل تھے جو ان زمانوں کے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کی نیت سے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئی تھی۔ محاصرے کے دوران حضرت ایوب انصاریؓ انتقال کر گئے اور وصیت کی کہ مجھے شہر کی فصیل کے سائے میں دفن کیا جائے۔۔۔ مسلمانوں نے رومیوں سے درخواست کی کہ آپ اجازت دیجئے کہ ہم اس شخص کو جو ہمارے پیغمبرؐ کا میزبان تھا اس کی وصیت کے مطابق شہر کی فصیل کے سائے میں دفن کریں۔ رومی فراخ دل دشمن تھے، تُھڑ دلے نہ تھے۔ انہوں نے بخوشی اجازت دے دی بلکہ کچھ رومی جنرل بھی تدفین میں شریک ہوئے۔۔۔ میں ان موضوعات پر لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں جن کے بارے میں ان گنت کتابیں لکھی جا سکتی ہیں تو میں قصہ مختصر کرتا ہوں۔۔۔ جب کبھی کسی ترک سلطان کی رسم تاجپوشی ہوتی تو وہ رسول اللہؐ کا لبادہ اوڑھ کر حضرت ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضر ہو کر اپنی سلطانی کا آغاز کرتا۔۔۔ لیکن ترک آج بھی انہیں دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں پر اُن کی قبر کی پرستش نہیں کرتے۔ دمشق کے قبرستان باب الفجرین میں جہاں نہ صرف کربلا کے شہیدوں کے مدفن ہیں، ہماری ماؤں کی قبریں ہیں، امیر معاویہ دفن ہیں وہاں وہ ہستی بھی محو خواب ہے جسے میں رسول اللہؐ کے بعد سب سے زیادہ اپنے دل کے قریب محسوس کرتا ہوں۔ حضرت بلال حبشیؓ جن کی خدمت میں خلفائے راشدین بھی حاضر ہوتے تو سر جھکا کر حاضر ہوتے۔ میں بھی حاضر ہوا۔۔۔ ایک سادہ سا مدفن، دیواروں پر کچھ آیات قرآنی آویزاں تھیں۔ سیالکوٹ کے کسی شخص نے اُن کی شان میں جو قصیدہ لکھا تھا وہ آویزاں تھا اور اُس لمحے میرے سوا وہاں اور کوئی نہ تھا۔ اُن کی قبر سے کچھ مانگنے والا، اُس کی پرستش کرنے والا کوئی نہ تھا، میں تنہا تھا اور میں نے بھی صرف انہیں یاد کیا، فاتحہ پڑھی اور ان سے کچھ نہ مانگا کہ وہ تو رسول اللہؐ سے سب کچھ مانگتے تھے اور رسول اللہؐ اپنے رب سے مانگتے تھے تو کیوں نہ ہم اپنے رسولؐ کی پیروی کرتے ہوئے جو مانگنا ہے اللہ ہی سے مانگیں۔۔۔ یہ نہیں کہ میں بزرگان دین کی قبروں پر حاضری پر یقین نہیں رکھتا۔ اُن سے اپنے دل کی حالت تو بیان کی جا سکتی ہے، اُس دل پہ قابو نہ رہے تو گر یہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن۔۔۔ ایک زمانے میں، میں ایک معمولی نوعیت کا اداکار ہوا کرتا تھا، تقریباً چار سو ٹیلی ویژن ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کر چکا تھا۔ اس دوران ڈرامہ سیریل ’’ایک حقیقت سو افسانے‘‘ کے مرکزی کردار ایک صحافی کے روپ میں مجھے ایک فقیر کا بہروپ بھرنا پڑا جو داتا گنج بخشؒ کے مزار کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنا کشکول دراز کرتا ہے۔ میرا کشکول لمحوں میں سکّوں اور نوٹوں سے بھر گیا کہ میں صورت شکل سے بہت ہی فقیر لگتا تھا۔۔۔ اور ہاں بعدمیں ٹیلی ویژن کے پورے عملے نے میری کشکول آمدن سے برگر کھائے اور کوکاکولا کی ٹھنڈی بوتلیں حلق میں انڈیلیں۔ شوٹنگ سے فارغ ہو کر میں ٹیلی ویژن کی وین میں آ بیٹھا۔۔۔ میں اُسی فقیرانہ گیٹ اپ میں تھا۔ گلے میں منکے ڈالے ایک پیوندوں سے آراستہ بوسیدہ چوغے میں اور میک اپ کی وجہ سے میری آنکھ بھی لال گلال ہو رہی تھیں جب ایک پریشان حال بوڑھا آیا، میرے پاؤں میں دس روپے کا ایک نوٹ ڈال کر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا۔۔۔ سائیں جی میرا بیٹا گم ہو گیا ہے، دعا کرنا کہ وہ مل جائے۔۔۔ میں ابھی اس صدمے سے سنبھلا نہ تھا کہ ایک نہایت خوش شکل، خوش لباس درمیانی عمر کی خاتون وین کے باہر ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئیں۔۔۔اُس نے صرف اتنا کہا ’’میں بہت دکھی ہوں۔۔۔ میرے لئے دعا کیجئے گا‘‘ میں سناٹے میں آ گیا۔۔۔ یہ لوگ کس غلط فہمی میں مبتلا ہیں، میں تو ایک اداکار اور بہروپیاہوں اور یہ مجھ ایسے گناہگار کو دعا کے لئے کہہ رہے ہیں، تو میں نے شرمندہ ہو کر کہا ’’خاتون۔۔۔ میں تو ایک اداکار ہوں ۔۔۔ میں نے بہروپ بھر رکھا ہے‘‘۔ (جاری ہے)
(تارڑ کا کالم ۔ روزنامی نئی بات 12 دسمبر 2012 ء)
 
Top