مزارات پر ناچنا کیا یہی اسلامی معاشرہ ہے

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

طالوت

محفلین
محمود غزنوی ، ایک تو یہ آپ ہر ایک پر جہالت کا لیبل چسپاں نہ کیا کریں ۔ اگر خود کو کوئی باعلم شخصیت سمجھتے ہیں تو بات مکمل کیا کیجئے وگرنہ آئیں بائیں شائیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔
وسلام
 

شہزاد وحید

محفلین
مزاروں پر ناچ گانے کی بات ہو رہی ہے کوئی حق میں ہے کوئی نفی میں۔ ایک بابا جی ہیں کوئی ، شاید "جُھولے لال" نام ہیں ان کا۔ آج کل سی ڈی بھی چلتی ہیں۔ ان کے وہاں ہزاروں کی تعداد عورتیں بھی پہنچی ہوتی ہیں۔ اور دھڑا دھڑ دھمال ڈال رہی ہوتی ہیں۔ نہ سر کا ہوش نہ پیر کا، نہ ڈوپٹے کا نہ قمیض کا۔ ایک آدمی مائیک پر اعلان کرتا ہے کہ بابا جی کا حکم ہیں کہ 1 کلو میٹر کے فاصلے کے اندر اندر جو کوئی بھی ذی روح ہے وہ دھمال ڈالے، اعلان سُن کر عورتیں اور بھی تیز ہو جاتی ہیں۔ اب ان کی اس دھمال سے کون خوش اور کون راضی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ؟
یہ تو ہوگئی اوپن بات، اس کے علاوہ کئی چھوٹے شہروں، گاؤں، قصبوں وغیرہ میں ایسے کئی مزار وغیرہ ہیں جہاں "بہت کچھ" ہوتا ہے۔ میں نے جب کبھی بھی کسی "عاشق رسول" سے ان سب عشقیہ کاموں کی شرعی حیثیت کے بارے میں‌سوال کیا ہے تو سب سے پہلے وہ اہلحدیث حضرات کے بارے میں اپنے انتہائی شدید جذبات کا اظہار کرتا ہے، اُن کے کسی "وہابی" مولوی کا کوئی کفریہ قول سنانے کے بعد تمام "وہابیوں" کو کافر کہتا ہے۔ پھر یہاں وہاں کی باتیں اور پھر یہ گیا وہ گیا۔ اور اگر کوئی "عالم صاحب" ہونگے تو وہ دلیل کسی ایسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہے کہ جس کا ہر فرقے نے اپنی مرضی کا مطلب نکالا ہوتا ہے۔ کوئی ہر قسم کی بدعت کو حرام قرار دیتا ہے، کوئی بدعت کی دو قسمیں بیان کرتا ہے، اچھی اور بری۔
خیر مزاروں پر دھمال،ناچ گانے وغیرہ کو کوئی بھی ایسا شخص جائز اور معقول نہیں سمجھے گا جس کے دماغ میں "عقل" ہو گی۔ اور وہ پنجابی میں کہتے ہیں نا، "عقل نہ ہووے تے موجاں ای موجاں"
پھر ڈالو جتنی مرضی دھمال
 

شمشاد

لائبریرین
بھائی ایسے لوگوں کا کیا علاج۔

مکہ حرم شریف میں ایک بندہ بیٹھا ہوا ہے۔ اس کو غالباً بخار ہو گیا۔ تو اس نے گھر والوں کو فون کیا۔ کہ میں ٹھیک نہیں ہوں۔ آپ داتا دربار جا کر دیگ دے آئیں۔

ایک اور صاحب جن کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ سیالکوٹ کے کوئی پیر وہاں حرم شریف میں آئے ہوئے تھے، ان سے ملاقات ہو گئی۔ اب وہ اپنے سب دوستوں کو کہتے پھر رہے ہیں کہ یہ بڑے پہنچے ہوئے پیر ہیں ان سے دعا کروا لو۔

اب جن حضرات کو حرم شریف میں بیٹھ کر بھی اللہ پر کم یقین اور اپنے بابوں پر زیادہ یقین ہو تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔
 
میرا نقطہ نظر اس سلسلے میں کچھ یوں ہے کہ

ہم لوگ ایک ایسی بات پر بحث کر رہے ہیں جس کا بنیادی اسلامی عقائد سے ٹکراؤ مجھے نظر نہیں آتا ہاں بحث برائے بحث میں ہمارا حد سے بڑھ جانا مجھے صاف نظر آتا ہے ۔

مزارات پر ڈانس کرنے جانا ویسی ہی گمراہی ہے جیسی کہیں اور ڈانس کرنا اور مزارات پر تو اس کی شدت اور بھی زیادہ ہے کہ وہاں مشہور یا غیر مشہور معروف یا غیر معروف اولیاء اللہ آرام فرما رہے ہیں ۔

لیکن کسی کے غلط فعل کو دوسرے مکتب فکر پر لعن طعن کرنے کا جواز بنانا اور اس کے پردے میں اپنی دستار کا کلف چمکانا اور بھی بڑی گمراہی ہے کیونکہ اللہ کا دین ایمان ، عمل اور تعلق باللہ سے عبارت ہے نہ کہ مباحث میں زیادہ سے زیادہ نمبر بنانے سے اس کی کچھ خدمت ہوگی ۔

ڈانس کی شعوری حالت اور عشق الہی میں وارفتگی کی اضطراری حالت میں فرق عام لوگ شاید نہ کر سکیں اور وہ اس سلسلے میں معذور ہیں جہاں سے وہ دیکھ رہے ہیں انہیں یہ ناجائز نظر آتا ہے تو اس میں عجب کیا ہے لہذا بحث برائے بحث سے نفرت تو شاید پھیل جائے محبت نہیں پھیل سکتی کیونکہ جنہیں نہیں ماننا وہ پہلے انکار پھر بات کو گھماپھرا کر اسکا رخ تبدیل کرنے کی کوشش اور آخر میں طعن و تشنیع اور نمبر گیم ۔۔۔۔۔۔آئیے دیکھیں ہم کہاں ہیں اس پراسیس میں۔۔؟

کہیں ہم اپنی توانائیاں فضول بحوث پر ضائع تو نہیں کر رہے۔۔۔؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
بہت خوب فیصل بھائی آپ نے تو میرے منہ کی بات چھین لی میں نے تین مرتبہ اس تھریڈ میں کچھ لکھنا چاہا مگر قلم نے ساتھ نہ دیا یقینا اتنے بہترین انداز میں احباب کو حق بات کی تلقین کرنا آپ ہی کو شیوہ ہے جزاکم اللہ خیر ۔والسلام
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم قابل احترم شمشاد بھائی

اگر اجازت ہو تو میں بھی کچھ عرض کروں لیکن شرط یہ ھے کہ گفتگو علمی ہو گی آپکی عزت کو مد نظر رکھتے ہوئے بات کروں گا، میری تحریر میں کوئی بھی لفظ ، جملہ یا عبارت بدتمیزی اور بدتہذیبی پر مبنی نہیں‌ ہو گی۔ لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ سب نے اپنا جھکاؤ ایک بندے ہی طرف ہی رکھا۔ حالنکہ جو فارم آنر یا ہیڈ ہوتا ھے وہ نیوٹرل ہوتا ھے۔

دھاگہ دبئی گرافکس بھائی صاحب نے بنا کر لگایا اس پر جو کنورسیشن ہوئی وہ فہیم بھائی اور غزنوی بھائی کے درمیان چلی جس پر سب کا جھکاؤ ایک طرف ہی رہا۔

دبئی گرافکس بھائی جب ایسا دھاگہ لگایا جاتا ھے تو پھر اس پر آپ کو عبور بھی ہونا چاہئے نہیں تو بلا جواز ایسا دھاگہ بنا کر لگانے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا بلکہ آپس میں کشیدگی پیدا ہو جاتی ھے کیونکہ یہ بڑے نازک مسئلے ہوتے ہیں۔

دوسرے بھائی صاحب نے مزار پر دھمال ڈالنے سے گفتگو کا آغاز کیا اور جب جواب مانگا گیا تو وہ اس کا جواب نہ دیتے ہوئے وہ اور آگے بڑھے اور اھل تشیع کے تازیانے پر بھی انہوں نے دھمال دلوا دئے پھر مزید آگے بڑھے تو شوکت بھائی صاحب نے زمانہ جہالت میں خانہ کعبہ کا طواف تالیوں اور ڈھول کا ثبوت پیش کر دیا اچھا تھا کہ زمانہ جہالت میں طواف کی ایک اور قسم بھی تھی انہیں اس کا علم نہیں تھا۔

اعتراضات سب نے کئے مگر کوئی بھی اپنی بات نہ تو قرآن سے ثابت کر سکا اور نہ حدیث مبارکہ سے بس اپنے ہی خیالات سے ساری پابندیاں ظاہر کر دیں۔

کوشش یہ کرنی چاہئے کہ اگر کسی کو کوئی ابجیکشن ھے تو اپنے فلسفہ بیان کرنے سے قرآن اور احادیث‌ مبارکہ سے ثبوت فراہم کر دیا جائے اگر ایسا نہیں کر سکتے تو بجائے بات کو بڑھانے سے خاموش رہنا ہی اچھا ھے۔

کچھ قاری حضرات کی آواز میں اگر میں قرآن مجید کی تلاوت سنو تو مجھ میں وجد تاری ہو جاتا ھے۔ اب جس کو اس کا پتہ ہی نہیں‌ تو وہ کیا کہے گا کہ قرآن مجید کی تلاوت سن کر اللہ معاف کرے ڈانس کر رہا ھے۔




اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر اللہ والوں کے عشق و محبت کی باتیں سن کر کچھ لوگوں پر حال طاری ہو جاتا ہے ۔۔۔ جذب کی کیفیت آجاتی ہے ۔۔۔ یہ کیفیت انسانوں پر ہی نہیں بلکہ حیوانوں اور جمادات و نباتات پربھی ہے۔ اس کیفیت کے طاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کائنات کے ذرہ ذرہ میں موجزن ہے۔ یہ محبت جب پورے شباب پر ہو تو جذب و کیف کی کیفیت طاری ہونا انہونی بات نہیں اور شریعت میں کسی بھی جگہ پر جذب و مستی اور کیفیت و حال کے طاری ہونے کی ممانعت نہیں آئی۔ آیئے قرآن و سنت کے حوالے سے سُر، ساز، موسیقی اور وجد و رقص کے بارے احکامات جانتے ہیں۔

قرآن کریم کی روشنی میں

٭ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ وَكُنَّا فَاعِلِينَ.
(الانبياء، 21 : 79)
’’ اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں (تک) کو داؤد (علیہ السلام) کے (حکم کے) ساتھ پابند کر دیا تھا وہ (سب ان کے ساتھ مل کر) تسبیح پڑھتے تھے، اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھے ‘‘۔​

قاضی بیضاوی اور امام آلوسی فرماتے ہیں کہ پہاڑ، پتھر، پرندے حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ آپ کی موافقت و پیروی میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بولتے، تسبیح و تحمید کرتے۔
(قاضی بیضاوی م791ھ، انوار التنزیل واسرار التاویل، 2۔ 37، طبع مصر)
(ابوالفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی بغدادی م 1270ھ۔ روح المعانی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی طبع ملتان17/76)

2۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

داؤد علیہ السلام اپنے پروردگار کا ذکر کرتے تو آپ کے ساتھ پہاڑ اور پرندے اپنے رب کا ذکر کرتے۔
داؤد علیہ السلام تسبیح کرتے تو پہاڑ اور پرندے جواب دیتے۔
داؤد علیہ السلام جب ذکر کے بعد خاموش ہوتے تو اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو تسبیح کا حکم دیتے، وہ تسبیح پڑھتے تو آپ کا ذوق و شوق بڑھ جاتا۔
(امام فخرالدین رازی، تفسیر کبیر، 22۔ 199 ) طبع


فرمان باری تعالیٰ ہے :

إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ
(ص، 38 : 18
’’ بے شک ہم نے پہاڑوں کو اُن کے زیرِفرمان کر دیا تھا، جو (اُن کے ساتھ مل کر) شام کو اور صبح کو تسبیح کیا کرتے تھے ‘‘۔​

1۔ اس آیت مبارکہ کے حوالے سے امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلی صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کے حجم میں زندگی، عقل، قدرۃ اور قوت گویائی پیدا فرمادی۔ لہذا پہاڑ اور پرندے آپ کے ساتھ تسبیح کرتے۔ اس کی نظیر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبَّه لِلْجَبَل. جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ میں عقل و فہم پیدا فرما دیا پھر اس میں اللہ تعالیٰ نے دیدار رکھ دیا، یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔

دوسری صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو اتنی اونچی اور خوبصورت آواز دی تھی کہ تمام پہاڑوں کے ساتھ وہ سریلی بلند آواز گونجتی تھی۔ اس سریلی آواز پر چرند پرند بھی جمع ہو جاتے اور نغمات لاہوتی کا رنگ ہر چیز پر جم جاتا اور ساری کائنات آپ کی ہمنوا ہوجاتی۔

تیسری صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں کم ہی کسی کو اتنی خوبصورت سریلی آواز دی ہوگی۔ جب زبور پڑھتے تو وحشی جانور بلا جھجک آپ کے پاس جمع ہوجاتے یہاں تک کہ آپ ان کو گردنوں سے پکڑ لیتے۔

چوتھی صورت یہ کہ اللہ پاک نے پہاڑ آپ کے ساتھ مسخر کر دیئے اور داؤد علیہ السلام جہاں جانا چاہتے پہاڑ آپ کے ہمراہ چلتے۔
(الامام الرازی، تفسیر کبیر ج26۔ 185 )


2۔ امام قرطبی، الجامع لاحکام القرآن میں فرماتے ہیں کہ

کان داؤد يمر بالجبال مسجا والجبال تجاور بالتسبيح وکذلک الطير وقيل کان داؤد اذا وجد فترة امرالجبال فسبحت حتی يشتاق ولهذا قال (وسخرنا) ای جعلنا ها بحيث تطيعه اذا امرها بالتسبيح وقيل ان سيرها معه تسبحيها..... وکل محتمل.

’’ داؤد علیہ السلام پہاڑوں سے تسبیح و تقدیس کرتے گذرتے تو پہاڑ جواب میں تسبیح کرتے، یونہی (پرندے) اور کہا گیا ہے جب داؤد علیہ السلام اُدھر سے رابطہ میں انقطاع محسوس کرتے، پہاڑوں کو تسبیح و تقدیس (ذکر محبوب) کا حکم دیتے۔ وہ تسبیح کرتے یہاں تک ذوق و شوق کی لذت سے بہرہ ور ہوتے، اسی لئے فرمایا ہم نے پہاڑوں کو اس کے لئے مسخر کردیا یوں کہ وہ آپ کی اطاعت کرتے جب بھی آپ ان کو تسبیح کا حکم کرتے اور کہا گیا ہے کہ پہاڑوں، پرندوں اور درندوں کا آپ کے ساتھ چلنا ہی ان کی تسبیح تھی اور یہ سب احتمالات ممکن ہیں ‘‘۔
(ابوعبدالله محمد بن احمد انصاری القرطبی. الجامع لاحکام القرآن ج 11. ص 212)


احادیث مبارکہ کی روشنی میں

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور علیہ السلام ایک غزوہ سے لوٹے، ایک سانولے رنگ کی لڑکی حاضر خدمت ہوئی۔ عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ پاک آپ کو بحفاظت واپس لایا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دف بجاؤں گی۔ فرمایا :
ان کنت نذرت فافعلی والا فلا قالت انی کنت نذرت.
’’ اگر تو نے نذر مانی تھی تو پوری کر، ورنہ رہنے دے۔ اس نے عرض کی میں نے نذر مانی تھی‘‘۔
فعقد رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور اس لڑکی نے دف بجایا ۔
(امام احمد بن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج 5، ص 356 طبع بیروت)


علامہ ابنِ منظور افریقی، لسان العرب میں غناء (گانا) کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
کل من رفع صوته و والاه فصوته عندالعرب غناء...
’’ اونچی اور اچھی آواز سے مسلسل گانا عربوں کے ہاں غناء یعنی گانا ہے‘‘۔
(علامہ ابن منظور افریقی ’’لسان العرب‘‘ ج 10/135 طبع بیروت)


٭ امام بخاری ’’باب الشعر فی المسجد‘‘ میں مشہور حدیث لائے ہیں۔
يا حسان اجب عن رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم. اللهم ايده بروح القدس.
’’ حسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے گستاخ، شعراء کو جواب دو۔ اے اللہ اس (حسان) کی مدد فرما روح القدس (جبریل علیہ السلام) کے ذریعہ ‘‘۔


شارح بخاری علامہ بدارلدین عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کی شرح میں فرماتے ہیں :

ان الشعرا المشتمل علی الحق مقبول بدليل دعاء النبی صلی الله عليه وآله وسلم لحسان علی شعره فاذا کان کذلک لا يمنع فی المسجد کسائر الکلام المقبول.
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج 4۔ 217 طبع کوئٹہ)
’’ وہ شعر جو حق پر مشتمل ہو مقبول ہے۔ اس دلیل سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان کو ان کی شاعری پر دعا فرمائی۔ جب حقیقت یہ ہے کہ جس طرح باقی کلام مقبول مسجد میں منع نہیں شعر بھی منع نہیں ‘‘۔


علامہ عینی مزید فرماتے ہیں : ’’اس میں دلیل ہے کہ سچا شعر مسجد میں سننا، سنانا حرام نہیں، حرام وہ ہے جس میں بیہودگی اور جھوٹ ہو اور وہ اخلاق سے گرا ہوا ہو۔ اس کی دلیل سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے جس کو امام ترمذی نے اپنی تائید و تصحیح کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے مسجد میں منبر بچھایا کرتے جس پر کھڑے ہو کر وہ کفار کی ہجو کرتے تھے‘‘۔

ابو نعیم اصبہانی نے کتاب المساجد میں لکھا ہے کہ دور جاہلیت کے گندے اور باطل اشعار مساجد (یا کسی بھی جگہ) ممنوع ہیں۔ رہے اسلامی اور حقیقت پر مبنی اشعار ان کی اجازت ہے، وہ ممنوع نہیں۔ امام شعبی، عامر بن سعد، محمد بن سیرین، سعید بن المسیب، القاسم، الثوری، الاوزاعی، ابوحنیفہ، مالک، شافعی، احمد، ابو یوسف، محمد، اسحق، ابو ثور، ابو عبید رضی اللہ عنہم نے کہا، اس شعر کے پڑھنے گانے میں کوئی حرج نہیں جس میں کسی کی ناحق ہجو نہ ہو۔ کسی مسلمان کی عزت کو پامال نہ کیا جائے۔ جس میں فحاشی نہ ہو۔
(عمدۃ القاری شرح بخاری للعینی ج 4۔ 219)

٭ سیدہ ربیع بنت معوذ بن عضراء سے روایت ہے
میری شادی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف لائے۔۔۔ لڑکیوں نے دف بجانا شروع کر دیا اور غزوہ بدر میں شہید ہونے والے میرے بزرگوں کے محاسن بیان کرنے لگے۔ ایک لڑکی نے یہ مصرع گایا۔
وفينا نبی يعلم ما فی غد.
’’ ہم میں وہ نبی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں۔ فرمایا اسے چھوڑ اور جو گا رہی تھی وہی گاؤ ‘‘۔
(بخاری)

اس سے دف بجانا اور گانا گانا مسنون معلوم ہوا۔

٭ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے
ایک عورت کی ایک انصاری سے شادی ہو رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ماکان معکم لهو فان الانصار يعجبهم اللهو.
’’ تمہارے ہمراہ کوئی کھیل تماشا نہیں، انصار کو کھیل تماشا پسند ہے‘‘۔
(بخاری)


٭ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اعلنوا هذا النکاح واجعلوه فی المساجد واضربوا عليه بالدفوف.
’’ اس نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجد میں کرو اور اس پر (مسجد کے باہر) ڈھول دف بجاؤ ‘‘۔
(ترمذی)


٭ حضرت محمد بن حاطب الجمعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

فصل مابين الحلال والحرام الصوت والدف فی النکاح.
’’ حلال اور حرام (نکاح و زناء) کے درمیان فرق آواز (گانا) اور دف بجانا ہے ‘‘۔
(احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

نکاح میں گانے بھی ہوتے ہیں، دف بھی بجتے ہیں تاکہ خوشی کا اظہار بھی ہو اور ہر ایک کو شادی و نکاح کا پتہ بھی چل جائے جبکہ بدکاری چھپ چھپا کر ہوتی ہے تاکہ کسی کو پتہ نہ چل جائے۔ ان چیزوں کو نادانی سے حرام سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ پیارے آقا علیہ السلام کی سنتیں اور شرعی احکام ہیں۔ علماء کہلانے والوں کو کبھی غور کرنا چاہئے اور کتب حدیث میں کتاب النکاح ضرور پڑھنی چاہئے۔


٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ رات کے وقت سورہ بقرہ پڑھ رہے تھے :
وفرسه مربوطة عنده اذ جالت الفرس فسکت فسکنت فقرا فجالت فسکت فکسنت ثم قرا فجالت الفرس فانصرف وکان ابنه يحيیٰ قريبا منها فاشفق ان تصيبه ولما اخره رفع رأسه الی السمآء فاذا مثله انطله فيها مثل المصابيح فلما اصبح حدث النبی صلی الله عليه وآله وسلم فقال اقرا يا ابن حضير اقرا يا ابن حضير قال فاشفقت يارسول الله ان تطأ يحيیٰ وکان منها قريبا فانصرفت اليه ورفعت راسی الی السمآء فاذا مثل انظلّه فيها امثال المصابيح فخرجت حتی لا اراها قال وتدری ماذاک قال لا قال تلک الملئکة دنت لصوتک ولو قرات لاصبحت ينظر الناس اليها لا تتواری منهم.
’’ ان کا گھوڑا پاس ہی بندھا ہوا تھا، اچانک گھوڑا رقص کرنے لگا آپ نے تلاوت بند کردی، گھوڑا پر سکون ہو گیا۔ پھر تلاوت شروع ہوئی، گھوڑا وجد کرنے لگا اور یہ چپ ہوگئے پھر قرآن پڑھنے لگے، گھوڑا وجد میں آ گیا، یہ چپ ہوگئے، ان کے بیٹے یحییٰ گھوڑے کے قریب تھے یہ گھبرائے کہ گھوڑا اسے تکلیف نہ پہنچائے۔ تلاوت مکمل کرکے آسمان کی طرف دیکھا تو جیسے بادل کا سائبان ہو جس میں چراغ روشن ہوں۔ صبح تمام بات سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنادی۔ فرمایا حضیر پڑھا کرو، حضیر پڑھا کرو۔ عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گھبرا گیا کہیں یحییٰ کو لتاڑ نہ دے۔ جو گھوڑے کے قریب تھا میں اس کی طرف لوٹ گیا اور میں سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو جیسے بادل کا سائبان ہو جس میں چراغ ہوں، سو میں باہر نکل گیا کہ وہ نظر نہ آئے۔ فرمایا جانتے ہو وہ کیا تھا؟ بولے نہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! فرمایا تیری آواز سن کر فرشتے آ گئے تھے۔ اگر تم پڑھتے رہتے تو صبح لوگ اسے دیکھتے اور کوئی چیز ان سے چھپی نہ رہتی‘‘۔
(متفق علیہ)

٭ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب سورہ کہف کی تلاوت کر رہے تھے، ان کے پاس ایک عمدہ گھوڑا دو مضبوط رسوں سے بندھا ہوا تھا، بادل اس پر چھا گیا اور اس سے قریب اور مزید قریب ہونے لگا۔ ان کا گھوڑا اچھلنے کودنے لگا۔ صبح سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں سب معاملہ بیان کر دیا سرکار نے فرمایا :

تلک سکينة تنزلت بالقرآن.
’’ یہ قرآن پاک کے سبب رحمت و تسکین نازل ہو رہی تھی ‘‘۔
(متفق علیہ)


٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ما اذن الله لشئی مااذن لنبی حسن الصوت بالقرآن يجهر به.
’’ اللہ تعالیٰ اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچھی آواز کے ساتھ اونچی آواز سے جیسے قرآن پڑھنے کا حکم دیا کسی اور چیز کو اچھے لہجہ میں بآواز بلند اس طرح پڑھنے کا حکم نہیں دیا ‘‘۔
(متفق علیہ)

-------------------------------------


قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ
فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟ بس نصیحت تو عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں

39:09



اب آگے بڑھتے ہیں جو یہ تصویر لگائی گئی ھے وہ بے چارے ان کے پاس جتنا علم یا عقل ھے اس کے مطابق لگے ہوئے ہیں۔ اب مجھ جیسا تصویر دیکھ کر ان پر فتوے لگانے شروع کر دے تو بات تو یہیں رہ جائے گی۔

pic-16.jpg


آئیں آپ کو کنگ عبداللہ سعودی عرب وقت حاکم اور ریاست سعودی کا خادم کا ڈانس دکھائیں اس کے بارے میں کیا خیال ھے کیا یہ جائز ھے۔ کیا خیال ھے اس کے پاس اس کی کوئی سند ضرور ہو گی جو یہ العلانیہ ڈانس کر رہا ھے۔ اس پر آپ کی کیا رائے ھے یا اس کے ڈانس کرنے پر آپ کے پاس کوئی ثبوت ھے، اگر ھے تو فراہم کر سکتے ہیں بڑی نوازش ہو گی ان احباب کی جو اس دھمال والے کا ثبوت مانگ رہے تھے۔​
[ame="http://www.youtube.com/watch?v=w9NgnthZu18"]YouTube- ‫عرضة للملك عبدالله‬‎[/ame]

والسلام
 

کعنان

محفلین
بھائی ایسے لوگوں کا کیا علاج۔

مکہ حرم شریف میں ایک بندہ بیٹھا ہوا ہے۔ اس کو غالباً بخار ہو گیا۔ تو اس نے گھر والوں کو فون کیا۔ کہ میں ٹھیک نہیں ہوں۔ آپ داتا دربار جا کر دیگ دے آئیں۔

ایک اور صاحب جن کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ سیالکوٹ کے کوئی پیر وہاں حرم شریف میں آئے ہوئے تھے، ان سے ملاقات ہو گئی۔ اب وہ اپنے سب دوستوں کو کہتے پھر رہے ہیں کہ یہ بڑے پہنچے ہوئے پیر ہیں ان سے دعا کروا لو۔

اب جن حضرات کو حرم شریف میں بیٹھ کر بھی اللہ پر کم یقین اور اپنے بابوں پر زیادہ یقین ہو تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔


السلام علیکم شمشاد بھائی

یہ بہت پرانا لطیفہ ھے جو عمر شریف نے ایجاد کیا تھا اسے آپ کسی کی کہانی میں پیش کر رہے ہیں‌‌‌ جزاک اللہ
بندہ اللہ کے گھر گیا ہو اور وہ وہاں سے کو فون کر کے دیگ کا آرڈر دے۔‌ وہ تو خانہ کعبہ میں بھی پاکستانی فیملیاں‌ جن کا گزر بسر اچھے طریقے سے نہیں ہوتا وہ وہاں پر حرم کعبہ کے اندر بھیک مانگ رہی ہوتی ہیں بندہ انہیں‌‌ ہی دیگ کے پیسے دے دیتا ھے، شائد آپ کا اتفاق نہ ہوا ہو وہاں‌ ان کو دیکھنے کا۔

والسلام
 

گرائیں

محفلین
کیونکہ جنہیں نہیں ماننا وہ پہلے انکار پھر بات کو گھماپھرا کر اسکا رخ تبدیل کرنے کی کوشش اور آخر میں طعن و تشنیع اور نمبر گیم ۔۔۔۔۔۔آئیے دیکھیں ہم کہاں ہیں اس پراسیس میں۔۔؟

کہیں ہم اپنی توانائیاں فضول بحوث پر ضائع تو نہیں کر رہے۔۔۔؟

زبردست۔

نشان دہی کا شکریہ۔
 

فہیم

لائبریرین
اور اھل تشیع کے تازیانے پر بھی انہوں نے دھمال دلوا دئے

بھائی میں نے اہل تشیع تو کہیں نہیں لکھا۔
ان کے تو ماتمی جلوس ہوتے ہیں۔
جن ڈھول ڈھپے کی بات میں نے کی وہ سنیوں کے ہی جلوس ہوتے ہیں۔

اور اس بات کو علماء بہت غلط کہتے ہیں۔
چاہے وہ دیو بندی علماء ہوں یا بریلوی۔
 

mfdarvesh

محفلین
اس سب بحث کو پڑھ کر تو بندہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ کیا کعنان بھائی کا مطلب ہے کہ یہ سب جائز ہے کیونکہ اضطراری ہے؟ یا یہ ٹھیک نہیں‌ہے۔ کوئی فیصلہ بھی تو کرے، ہاں‌یا نا کا
 

dxbgraphics

محفلین
السلام علیکم قابل احترم شمشاد بھائی

اگر اجازت ہو تو میں بھی کچھ عرض کروں لیکن شرط یہ ھے کہ گفتگو علمی ہو گی آپکی عزت کو مد نظر رکھتے ہوئے بات کروں گا، میری تحریر میں کوئی بھی لفظ ، جملہ یا عبارت بدتمیزی اور بدتہذیبی پر مبنی نہیں‌ ہو گی۔ لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ سب نے اپنا جھکاؤ ایک بندے ہی طرف ہی رکھا۔ حالنکہ جو فارم آنر یا ہیڈ ہوتا ھے وہ نیوٹرل ہوتا ھے۔

دھاگہ دبئی گرافکس بھائی صاحب نے بنا کر لگایا اس پر جو کنورسیشن ہوئی وہ فہیم بھائی اور غزنوی بھائی کے درمیان چلی جس پر سب کا جھکاؤ ایک طرف ہی رہا۔

دبئی گرافکس بھائی جب ایسا دھاگہ لگایا جاتا ھے تو پھر اس پر آپ کو عبور بھی ہونا چاہئے نہیں تو بلا جواز ایسا دھاگہ بنا کر لگانے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا بلکہ آپس میں کشیدگی پیدا ہو جاتی ھے کیونکہ یہ بڑے نازک مسئلے ہوتے ہیں۔

دوسرے بھائی صاحب نے مزار پر دھمال ڈالنے سے گفتگو کا آغاز کیا اور جب جواب مانگا گیا تو وہ اس کا جواب نہ دیتے ہوئے وہ اور آگے بڑھے اور اھل تشیع کے تازیانے پر بھی انہوں نے دھمال دلوا دئے پھر مزید آگے بڑھے تو شوکت بھائی صاحب نے زمانہ جہالت میں خانہ کعبہ کا طواف تالیوں اور ڈھول کا ثبوت پیش کر دیا اچھا تھا کہ زمانہ جہالت میں طواف کی ایک اور قسم بھی تھی انہیں اس کا علم نہیں تھا۔

اعتراضات سب نے کئے مگر کوئی بھی اپنی بات نہ تو قرآن سے ثابت کر سکا اور نہ حدیث مبارکہ سے بس اپنے ہی خیالات سے ساری پابندیاں ظاہر کر دیں۔

کوشش یہ کرنی چاہئے کہ اگر کسی کو کوئی ابجیکشن ھے تو اپنے فلسفہ بیان کرنے سے قرآن اور احادیث‌ مبارکہ سے ثبوت فراہم کر دیا جائے اگر ایسا نہیں کر سکتے تو بجائے بات کو بڑھانے سے خاموش رہنا ہی اچھا ھے۔

کچھ قاری حضرات کی آواز میں اگر میں قرآن مجید کی تلاوت سنو تو مجھ میں وجد تاری ہو جاتا ھے۔ اب جس کو اس کا پتہ ہی نہیں‌ تو وہ کیا کہے گا کہ قرآن مجید کی تلاوت سن کر اللہ معاف کرے ڈانس کر رہا ھے۔




اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر اللہ والوں کے عشق و محبت کی باتیں سن کر کچھ لوگوں پر حال طاری ہو جاتا ہے ۔۔۔ جذب کی کیفیت آجاتی ہے ۔۔۔ یہ کیفیت انسانوں پر ہی نہیں بلکہ حیوانوں اور جمادات و نباتات پربھی ہے۔ اس کیفیت کے طاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کائنات کے ذرہ ذرہ میں موجزن ہے۔ یہ محبت جب پورے شباب پر ہو تو جذب و کیف کی کیفیت طاری ہونا انہونی بات نہیں اور شریعت میں کسی بھی جگہ پر جذب و مستی اور کیفیت و حال کے طاری ہونے کی ممانعت نہیں آئی۔ آیئے قرآن و سنت کے حوالے سے سُر، ساز، موسیقی اور وجد و رقص کے بارے احکامات جانتے ہیں۔

قرآن کریم کی روشنی میں

٭ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ وَكُنَّا فَاعِلِينَ.
(الانبياء، 21 : 79)
’’ اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں (تک) کو داؤد (علیہ السلام) کے (حکم کے) ساتھ پابند کر دیا تھا وہ (سب ان کے ساتھ مل کر) تسبیح پڑھتے تھے، اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھے ‘‘۔​

قاضی بیضاوی اور امام آلوسی فرماتے ہیں کہ پہاڑ، پتھر، پرندے حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ آپ کی موافقت و پیروی میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بولتے، تسبیح و تحمید کرتے۔
(قاضی بیضاوی م791ھ، انوار التنزیل واسرار التاویل، 2۔ 37، طبع مصر)
(ابوالفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی بغدادی م 1270ھ۔ روح المعانی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی طبع ملتان17/76)

2۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

داؤد علیہ السلام اپنے پروردگار کا ذکر کرتے تو آپ کے ساتھ پہاڑ اور پرندے اپنے رب کا ذکر کرتے۔
داؤد علیہ السلام تسبیح کرتے تو پہاڑ اور پرندے جواب دیتے۔
داؤد علیہ السلام جب ذکر کے بعد خاموش ہوتے تو اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو تسبیح کا حکم دیتے، وہ تسبیح پڑھتے تو آپ کا ذوق و شوق بڑھ جاتا۔
(امام فخرالدین رازی، تفسیر کبیر، 22۔ 199 ) طبع


فرمان باری تعالیٰ ہے :

إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ
(ص، 38 : 18
’’ بے شک ہم نے پہاڑوں کو اُن کے زیرِفرمان کر دیا تھا، جو (اُن کے ساتھ مل کر) شام کو اور صبح کو تسبیح کیا کرتے تھے ‘‘۔​

1۔ اس آیت مبارکہ کے حوالے سے امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلی صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کے حجم میں زندگی، عقل، قدرۃ اور قوت گویائی پیدا فرمادی۔ لہذا پہاڑ اور پرندے آپ کے ساتھ تسبیح کرتے۔ اس کی نظیر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبَّه لِلْجَبَل. جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ میں عقل و فہم پیدا فرما دیا پھر اس میں اللہ تعالیٰ نے دیدار رکھ دیا، یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔

دوسری صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو اتنی اونچی اور خوبصورت آواز دی تھی کہ تمام پہاڑوں کے ساتھ وہ سریلی بلند آواز گونجتی تھی۔ اس سریلی آواز پر چرند پرند بھی جمع ہو جاتے اور نغمات لاہوتی کا رنگ ہر چیز پر جم جاتا اور ساری کائنات آپ کی ہمنوا ہوجاتی۔

تیسری صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں کم ہی کسی کو اتنی خوبصورت سریلی آواز دی ہوگی۔ جب زبور پڑھتے تو وحشی جانور بلا جھجک آپ کے پاس جمع ہوجاتے یہاں تک کہ آپ ان کو گردنوں سے پکڑ لیتے۔

چوتھی صورت یہ کہ اللہ پاک نے پہاڑ آپ کے ساتھ مسخر کر دیئے اور داؤد علیہ السلام جہاں جانا چاہتے پہاڑ آپ کے ہمراہ چلتے۔
(الامام الرازی، تفسیر کبیر ج26۔ 185 )


2۔ امام قرطبی، الجامع لاحکام القرآن میں فرماتے ہیں کہ

کان داؤد يمر بالجبال مسجا والجبال تجاور بالتسبيح وکذلک الطير وقيل کان داؤد اذا وجد فترة امرالجبال فسبحت حتی يشتاق ولهذا قال (وسخرنا) ای جعلنا ها بحيث تطيعه اذا امرها بالتسبيح وقيل ان سيرها معه تسبحيها..... وکل محتمل.

’’ داؤد علیہ السلام پہاڑوں سے تسبیح و تقدیس کرتے گذرتے تو پہاڑ جواب میں تسبیح کرتے، یونہی (پرندے) اور کہا گیا ہے جب داؤد علیہ السلام اُدھر سے رابطہ میں انقطاع محسوس کرتے، پہاڑوں کو تسبیح و تقدیس (ذکر محبوب) کا حکم دیتے۔ وہ تسبیح کرتے یہاں تک ذوق و شوق کی لذت سے بہرہ ور ہوتے، اسی لئے فرمایا ہم نے پہاڑوں کو اس کے لئے مسخر کردیا یوں کہ وہ آپ کی اطاعت کرتے جب بھی آپ ان کو تسبیح کا حکم کرتے اور کہا گیا ہے کہ پہاڑوں، پرندوں اور درندوں کا آپ کے ساتھ چلنا ہی ان کی تسبیح تھی اور یہ سب احتمالات ممکن ہیں ‘‘۔
(ابوعبدالله محمد بن احمد انصاری القرطبی. الجامع لاحکام القرآن ج 11. ص 212)


احادیث مبارکہ کی روشنی میں

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور علیہ السلام ایک غزوہ سے لوٹے، ایک سانولے رنگ کی لڑکی حاضر خدمت ہوئی۔ عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ پاک آپ کو بحفاظت واپس لایا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دف بجاؤں گی۔ فرمایا :
ان کنت نذرت فافعلی والا فلا قالت انی کنت نذرت.
’’ اگر تو نے نذر مانی تھی تو پوری کر، ورنہ رہنے دے۔ اس نے عرض کی میں نے نذر مانی تھی‘‘۔
فعقد رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور اس لڑکی نے دف بجایا ۔
(امام احمد بن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج 5، ص 356 طبع بیروت)


علامہ ابنِ منظور افریقی، لسان العرب میں غناء (گانا) کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
کل من رفع صوته و والاه فصوته عندالعرب غناء...
’’ اونچی اور اچھی آواز سے مسلسل گانا عربوں کے ہاں غناء یعنی گانا ہے‘‘۔
(علامہ ابن منظور افریقی ’’لسان العرب‘‘ ج 10/135 طبع بیروت)


٭ امام بخاری ’’باب الشعر فی المسجد‘‘ میں مشہور حدیث لائے ہیں۔
يا حسان اجب عن رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم. اللهم ايده بروح القدس.
’’ حسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے گستاخ، شعراء کو جواب دو۔ اے اللہ اس (حسان) کی مدد فرما روح القدس (جبریل علیہ السلام) کے ذریعہ ‘‘۔


شارح بخاری علامہ بدارلدین عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کی شرح میں فرماتے ہیں :

ان الشعرا المشتمل علی الحق مقبول بدليل دعاء النبی صلی الله عليه وآله وسلم لحسان علی شعره فاذا کان کذلک لا يمنع فی المسجد کسائر الکلام المقبول.
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج 4۔ 217 طبع کوئٹہ)
’’ وہ شعر جو حق پر مشتمل ہو مقبول ہے۔ اس دلیل سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان کو ان کی شاعری پر دعا فرمائی۔ جب حقیقت یہ ہے کہ جس طرح باقی کلام مقبول مسجد میں منع نہیں شعر بھی منع نہیں ‘‘۔


علامہ عینی مزید فرماتے ہیں : ’’اس میں دلیل ہے کہ سچا شعر مسجد میں سننا، سنانا حرام نہیں، حرام وہ ہے جس میں بیہودگی اور جھوٹ ہو اور وہ اخلاق سے گرا ہوا ہو۔ اس کی دلیل سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے جس کو امام ترمذی نے اپنی تائید و تصحیح کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے مسجد میں منبر بچھایا کرتے جس پر کھڑے ہو کر وہ کفار کی ہجو کرتے تھے‘‘۔

ابو نعیم اصبہانی نے کتاب المساجد میں لکھا ہے کہ دور جاہلیت کے گندے اور باطل اشعار مساجد (یا کسی بھی جگہ) ممنوع ہیں۔ رہے اسلامی اور حقیقت پر مبنی اشعار ان کی اجازت ہے، وہ ممنوع نہیں۔ امام شعبی، عامر بن سعد، محمد بن سیرین، سعید بن المسیب، القاسم، الثوری، الاوزاعی، ابوحنیفہ، مالک، شافعی، احمد، ابو یوسف، محمد، اسحق، ابو ثور، ابو عبید رضی اللہ عنہم نے کہا، اس شعر کے پڑھنے گانے میں کوئی حرج نہیں جس میں کسی کی ناحق ہجو نہ ہو۔ کسی مسلمان کی عزت کو پامال نہ کیا جائے۔ جس میں فحاشی نہ ہو۔
(عمدۃ القاری شرح بخاری للعینی ج 4۔ 219)

٭ سیدہ ربیع بنت معوذ بن عضراء سے روایت ہے
میری شادی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف لائے۔۔۔ لڑکیوں نے دف بجانا شروع کر دیا اور غزوہ بدر میں شہید ہونے والے میرے بزرگوں کے محاسن بیان کرنے لگے۔ ایک لڑکی نے یہ مصرع گایا۔
وفينا نبی يعلم ما فی غد.
’’ ہم میں وہ نبی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں۔ فرمایا اسے چھوڑ اور جو گا رہی تھی وہی گاؤ ‘‘۔
(بخاری)

اس سے دف بجانا اور گانا گانا مسنون معلوم ہوا۔

٭ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے
ایک عورت کی ایک انصاری سے شادی ہو رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ماکان معکم لهو فان الانصار يعجبهم اللهو.
’’ تمہارے ہمراہ کوئی کھیل تماشا نہیں، انصار کو کھیل تماشا پسند ہے‘‘۔
(بخاری)


٭ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اعلنوا هذا النکاح واجعلوه فی المساجد واضربوا عليه بالدفوف.
’’ اس نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجد میں کرو اور اس پر (مسجد کے باہر) ڈھول دف بجاؤ ‘‘۔
(ترمذی)


٭ حضرت محمد بن حاطب الجمعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

فصل مابين الحلال والحرام الصوت والدف فی النکاح.
’’ حلال اور حرام (نکاح و زناء) کے درمیان فرق آواز (گانا) اور دف بجانا ہے ‘‘۔
(احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

نکاح میں گانے بھی ہوتے ہیں، دف بھی بجتے ہیں تاکہ خوشی کا اظہار بھی ہو اور ہر ایک کو شادی و نکاح کا پتہ بھی چل جائے جبکہ بدکاری چھپ چھپا کر ہوتی ہے تاکہ کسی کو پتہ نہ چل جائے۔ ان چیزوں کو نادانی سے حرام سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ پیارے آقا علیہ السلام کی سنتیں اور شرعی احکام ہیں۔ علماء کہلانے والوں کو کبھی غور کرنا چاہئے اور کتب حدیث میں کتاب النکاح ضرور پڑھنی چاہئے۔


٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ رات کے وقت سورہ بقرہ پڑھ رہے تھے :
وفرسه مربوطة عنده اذ جالت الفرس فسکت فسکنت فقرا فجالت فسکت فکسنت ثم قرا فجالت الفرس فانصرف وکان ابنه يحيیٰ قريبا منها فاشفق ان تصيبه ولما اخره رفع رأسه الی السمآء فاذا مثله انطله فيها مثل المصابيح فلما اصبح حدث النبی صلی الله عليه وآله وسلم فقال اقرا يا ابن حضير اقرا يا ابن حضير قال فاشفقت يارسول الله ان تطأ يحيیٰ وکان منها قريبا فانصرفت اليه ورفعت راسی الی السمآء فاذا مثل انظلّه فيها امثال المصابيح فخرجت حتی لا اراها قال وتدری ماذاک قال لا قال تلک الملئکة دنت لصوتک ولو قرات لاصبحت ينظر الناس اليها لا تتواری منهم.
’’ ان کا گھوڑا پاس ہی بندھا ہوا تھا، اچانک گھوڑا رقص کرنے لگا آپ نے تلاوت بند کردی، گھوڑا پر سکون ہو گیا۔ پھر تلاوت شروع ہوئی، گھوڑا وجد کرنے لگا اور یہ چپ ہوگئے پھر قرآن پڑھنے لگے، گھوڑا وجد میں آ گیا، یہ چپ ہوگئے، ان کے بیٹے یحییٰ گھوڑے کے قریب تھے یہ گھبرائے کہ گھوڑا اسے تکلیف نہ پہنچائے۔ تلاوت مکمل کرکے آسمان کی طرف دیکھا تو جیسے بادل کا سائبان ہو جس میں چراغ روشن ہوں۔ صبح تمام بات سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنادی۔ فرمایا حضیر پڑھا کرو، حضیر پڑھا کرو۔ عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گھبرا گیا کہیں یحییٰ کو لتاڑ نہ دے۔ جو گھوڑے کے قریب تھا میں اس کی طرف لوٹ گیا اور میں سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو جیسے بادل کا سائبان ہو جس میں چراغ ہوں، سو میں باہر نکل گیا کہ وہ نظر نہ آئے۔ فرمایا جانتے ہو وہ کیا تھا؟ بولے نہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! فرمایا تیری آواز سن کر فرشتے آ گئے تھے۔ اگر تم پڑھتے رہتے تو صبح لوگ اسے دیکھتے اور کوئی چیز ان سے چھپی نہ رہتی‘‘۔
(متفق علیہ)

٭ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب سورہ کہف کی تلاوت کر رہے تھے، ان کے پاس ایک عمدہ گھوڑا دو مضبوط رسوں سے بندھا ہوا تھا، بادل اس پر چھا گیا اور اس سے قریب اور مزید قریب ہونے لگا۔ ان کا گھوڑا اچھلنے کودنے لگا۔ صبح سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں سب معاملہ بیان کر دیا سرکار نے فرمایا :

تلک سکينة تنزلت بالقرآن.
’’ یہ قرآن پاک کے سبب رحمت و تسکین نازل ہو رہی تھی ‘‘۔
(متفق علیہ)


٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ما اذن الله لشئی مااذن لنبی حسن الصوت بالقرآن يجهر به.
’’ اللہ تعالیٰ اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچھی آواز کے ساتھ اونچی آواز سے جیسے قرآن پڑھنے کا حکم دیا کسی اور چیز کو اچھے لہجہ میں بآواز بلند اس طرح پڑھنے کا حکم نہیں دیا ‘‘۔
(متفق علیہ)

-------------------------------------


قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ
فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟ بس نصیحت تو عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں

39:09



اب آگے بڑھتے ہیں جو یہ تصویر لگائی گئی ھے وہ بے چارے ان کے پاس جتنا علم یا عقل ھے اس کے مطابق لگے ہوئے ہیں۔ اب مجھ جیسا تصویر دیکھ کر ان پر فتوے لگانے شروع کر دے تو بات تو یہیں رہ جائے گی۔

pic-16.jpg


آئیں آپ کو کنگ عبداللہ سعودی عرب وقت حاکم اور ریاست سعودی کا خادم کا ڈانس دکھائیں اس کے بارے میں کیا خیال ھے کیا یہ جائز ھے۔ کیا خیال ھے اس کے پاس اس کی کوئی سند ضرور ہو گی جو یہ العلانیہ ڈانس کر رہا ھے۔ اس پر آپ کی کیا رائے ھے یا اس کے ڈانس کرنے پر آپ کے پاس کوئی ثبوت ھے، اگر ھے تو فراہم کر سکتے ہیں بڑی نوازش ہو گی ان احباب کی جو اس دھمال والے کا ثبوت مانگ رہے تھے۔​

والسلام

نیشنل ڈے کے موقع پر خوشی سے دھمال ڈال رہا ہے۔
لیکن مجھے تو یہاں کوئی مزار دکھائی نہیں دیا۔
 
محمود غزنوی ، ایک تو یہ آپ ہر ایک پر جہالت کا لیبل چسپاں نہ کیا کریں ۔ اگر خود کو کوئی باعلم شخصیت سمجھتے ہیں تو بات مکمل کیا کیجئے وگرنہ آئیں بائیں شائیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔
وسلام
بھائی میں نے تو کسی پر جہالت کا لیبل چسپاں نہیں کیا۔ ایک آدمی نے تھریڈ شروع کی اور دوسرے نے آکر بغیر کسی شرعی دلیل کے فتویٰ جڑ دیا کہ یہ سب گناہ ہے۔ ۔ ۔ اس پر میں نے تو فقط اتنی گذارش کی کہ بھائی کسی عمل کو گناہ قرار دینے کیلئے شرعی دلیل ہونی چاہیئے۔ بعد میں وہی صاحب کہتے ہیں کہ "کہیں نہ کہیں شریعت میں ایسی دلیل ضرور ہوگی"۔ ۔ :)
ایک دوسرے صاحب ہیں جنہیں علم کا دعویٰ بلکہ شدید زعم ہے، وہ فرماتے ہیں کہ چونکہ مکہ کے کافر طواف میں ناچتے تھے لہذا یہ لوگ بھی گناہگار ہیں:)۔ ان سے بھی واضح شرعی دلیل مانگی تو طعنہ ملا کہ جی آپ اسم بامسمیٰ نہیں ہیں:)۔ ۔ ۔
مجھ سے آپ لوگ اپنے دعوے کی دلیل مانگ رہے ہیں۔ ،۔۔ ۔ بہت خوب۔ دعویٰ تو کریں آپ اور دلیل اسکی میں دوں۔ ۔ سبحان اللہ۔
میری اپنی نظر میں بھی یہ دھمال وغیرہ پسندیدہ نہیں ہے لیکن یہ میری ذاتی رائے ہے۔ میں اپنی ذاتی رائے کی تقویت کیلئے اپنی طرف سے شریعت گھڑتے ہوئے یہ کہنا پسند نہیں کروں گا کہ یہ شدید گناہ ہے یا بہت بڑی نیکی ہے۔ ۔ ۔کسی عمل کو شریعت کے واضح فیصلے کے بغیر گناہ قرار دے دینا ہم لوگوں کا کام نہیں ہے۔
 
اس سب بحث کو پڑھ کر تو بندہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ کوئی فیصلہ بھی تو کرے، ہاں‌یا نا کا
یہ فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ ہم لوگوں کو اتنا علم نہیں دیا گیا کہ کسی بندے پر ججمنٹ دیتے پھریں۔ جہاں تک اس عمل (رقص) کی ظاہری شکل ہے تو قرآن، حدیث اور فقہ میں کہیں بھی یہ نہیں کہ رقص فی نفسہ حرام ہے اور گناہ ہے۔ اور جہاں تک رقص کرنے والے کی باطنی حالت یا محرکات کا تعلق ہے تو اسکی ججمنٹ صرف اللہ کا کام ہے کسی ملّا خشک الدین بھکّر وغیرہ کی کیا اوقات کہ اسکی ججمنٹ دیتا پھرے:)
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
کسی کو اگرمزید معلومات چاہیے تو یہ دھاگہ بھی پڑھ سکتے ہیں ، باقی اپنی اپنی مرضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،
میں معذرت چاہتا ہوں لیکن اس تھریڈ میں علمی بحث کی بجائے محض الزام تراشی اور فتوے بازی ہو رہی ہے۔ اس تھریڈ کو مقفل کر دیا جائے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
السلام علیکم قابل احترم شمشاد بھائی

اگر اجازت ہو تو میں بھی کچھ عرض کروں لیکن شرط یہ ھے کہ گفتگو علمی ہو گی آپکی عزت کو مد نظر رکھتے ہوئے بات کروں گا، میری تحریر میں کوئی بھی لفظ ، جملہ یا عبارت بدتمیزی اور بدتہذیبی پر مبنی نہیں‌ ہو گی۔ لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ سب نے اپنا جھکاؤ ایک بندے ہی طرف ہی رکھا۔ حالنکہ جو فارم آنر یا ہیڈ ہوتا ھے وہ نیوٹرل ہوتا ھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔والسلام


و علیکم السلام

عرض ہے کہ میں موڈیریٹر کے علاوہ اس محفل کا رکن بھی ہوں اور میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ ایک رکن کی حیثیت سے لکھا ہے نہ کہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
کچھ قاری حضرات کی آواز میں اگر میں قرآن مجید کی تلاوت سنو تو مجھ میں وجد تاری ہو جاتا ھے۔ اب جس کو اس کا پتہ ہی نہیں‌ تو وہ کیا کہے گا کہ قرآن مجید کی تلاوت سن کر اللہ معاف کرے ڈانس کر رہا ھے۔
والسلام

اللہ کا واسطہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کو اس ڈھول دھمکے سے تو نہ ملائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین


اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر اللہ والوں کے عشق و محبت کی باتیں سن کر کچھ لوگوں پر حال طاری ہو جاتا ہے ۔۔۔ جذب کی کیفیت آجاتی ہے ۔۔۔ یہ کیفیت انسانوں پر ہی نہیں بلکہ حیوانوں اور جمادات و نباتات پربھی ہے۔ اس کیفیت کے طاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کائنات کے ذرہ ذرہ میں موجزن ہے۔ یہ محبت جب پورے شباب پر ہو تو جذب و کیف کی کیفیت طاری ہونا انہونی بات نہیں اور شریعت میں کسی بھی جگہ پر جذب و مستی اور کیفیت و حال کے طاری ہونے کی ممانعت نہیں آئی۔ آیئے قرآن و سنت کے حوالے سے سُر، ساز، موسیقی اور وجد و رقص کے بارے احکامات جانتے ہیں۔

والسلام


اللہ تعالٰی تو قرآن میں فرماتا ہے "اے ایمان والو اپنی آواز کو نبی کی آواز سے نیچا رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں علم تک نہ ہو۔"

جذب و کیفیت طاری ہونا اور بات ہے اور ڈھول کی تھاپ پر بے ہنگم اچھل کود کرنا اور بات ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top